ضیاالحق نے کہا‘ زندگی کی بڑی غلطی بھٹو خاندان کو زندہ چھوڑنا ہے: مارک سیگل


پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن بےنظیر بھٹو شہید کے لابیئسٹ مارک سیگل نے کہا ہے کہ 1987ءمیں انہوں نے سابق فوجی آمر ضیاءالحق سے اسلام آباد میں ایک وفد کے ساتھ ملاقات کی تو ضیاءالحق مجھے ایک سائیڈ پر لے گئے اور کہنے لگے کہ ”میں آپ کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں‘ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہے کہ میں نے آپ کے دوستوں (بھٹو خاندان کے افراد) کو زندہ رہنے دیا ہے۔“

”نیوزویک“ میں اپنے آرٹیکل میں انہوں نے لکھا ہے کہ اس کے بعد جب ضیا دور میں بےنظیر بھٹو کو رہا کیا گیا تو میں نے اس بات کا تذکرہ بےنظیر بھٹو سے کیا جس پر انہوں نے کہا ”جنرل ضیا نے بالکل ٹھیک کہا ہے“۔ مارک سیگل کے مطابق اس ملاقات میں میں نے بےنظیر بھٹو کو ایک خاموش طبع اور شرمیلی نوجوان خاتون پایا۔ ان کا چہرہ ان ذمہ داریوں کی چغلی کھا رہا تھا جو بےنظیر بھٹو کے والد کی پھانسی کے بعد ان کے کندھے پر آ پڑی تھیں۔ 1984ءمیں میں اور میری اہلیہ نے انہیں واشنگٹن ڈی سی میں پہلا ڈنر دیا۔ اس میں بےنظیر بھٹو مہمان خصوصی تھیں۔ انہوں نے ہمارے مہمانوں کو اپنی ذہانت‘ پراعتمادی اور اپنے جذبہ سے خاصا متاثر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت ہوشیار‘ حس مزاح رکھنے والی اور گرمجوشی رکھنے والی خاتون تھیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ بہت سے لوگ ان پر تنقید بھی کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں مگر ان میں سے کون ایسا ہے جو ایک اچھی اور خوشگوار زندگی کی قربانی دے‘ ان میں سے کون ایسا ہے جس میں پاکستان کے ساتھ محبت کا حوصلہ‘ جذبہ اور لامحدود کمٹمنٹ موجود ہے‘

انہیں متعصب اور عدم برداشت والے لوگ پسند نہیں تھے۔ 1988ءمیں جب وہ وزیراعظم بنیں تو مجھے کہا کہ آپ ہماری حکومت کی نمائندگی کریں‘ اس پر میں ہچکچایا اور کہا کہ میں امریکہ میں ایک یہودی لائبیسٹ ہوں اور اس طرح سے آپ کی حکومت مشکلات کی شکار ہو جائے گی تو انہوں نے کہا کہ آپ پروا نہ کریں آپ نے جمہوری جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیا اور اب جبکہ ہم نیا پاکستان تعمیر کرنے جا رہے ہیں تو آپ ہمارے ساتھ ہوں گے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ جب بےنظیر اقتدار میں نہیں تھیں تو ہم نے دنیا میں پاکستانی جمہوریت کو زندہ رکھنے کے لئے ان کے لیکچررز کا اہتمام کیا‘ بعض لوگوں کے قریب وہ مغرور تھیں وہ اس لئے کہ وہ احمقوں کو آسانی سے برداشت نہیں کرتی تھیں۔ سیگل کے مطابق 2002ءمیں میرے سامنے موبائل فون پر ایک کال آئی تھی‘ دھاندلی کے باوجود اس وقت پیپلز پارٹی الیکشن جیت گئی تھی اور زرداری 1996ءمیں جیل میں تھے جن کا قصور اس کے سوا نہیں تھا کہ ان کی شادی بےنظیر بھٹو سے ہوئی تھی۔ سیگل کے مطابق آئی ایس آئی کے ایک افسر نے بےنظیر بھٹو کو یہ پیشکش کی کہ اگر وہ پیپلز پارٹی کی قیادت چھوڑ دیں تو زرداری سمیت پوری فیملی پر تمام الزامات ختم کر کے زرداری کو وزیر بنا دیا جائے گا۔ ابھی بےنظیر نے اس پر کچھ ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا کہ زرداری نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ”ایسا بالکل نہیں ہو سکتا میں ساری عمر جیلوں میں گلنے سڑنے کو تیار ہوں۔“ اس پر بےنظیر کے لبوں پر صدمہ کے ساتھ ایک مسکراہٹ آئی۔

سیگل کے مطابق بےنظیر بھٹو جہادیوں یا جرنیلوں سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوئیں۔ 2007ء میں ہم نے بڑی التجائیں کیں اور میں نے کہا کہ آپ نے بڑی قربانیاں دیں آپ وطن واپس نہ جائیں۔ اس پر بےنظیر نے فون پر ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا کہ مارک یہی میری زندگی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ آج جبکہ پاکستانی عوام انتہا پسندوں کے خلاف لڑ رہے ہیں پاک فوج نے جرات مندی سے سوات اور وزیرستان سے طالبان کو نکالا ہے‘ پیپلز پارٹی کے منشور اور 1973ءکے آئین پر عملدرآمد ہو رہا ہے تو میں یہ دیکھتا ہوں کہ میری دوست (بےنظیر بھٹو) زندہ ہیں اور وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).