کچھ دوستی اور بریک اپ کے بارے میں۔ مکمل کالم


اس روز الف سے میری گرما گرم بحث ہو گئی۔ بحث تو پہلے بھی ہوتی تھی مگر اس مرتبہ کسی قدرے تلخی ہو گئی۔ حالانکہ بات کچھ بھی نہیں تھی۔ ہم دونوں ایک ریستوران میں بیٹھے کافی پی رہے تھے، سورج ڈوب چکا تھا اور شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے، دسمبر کی خنکی ابھی اتنی نہیں بڑھی تھی کہ آتش دان کی ضرورت پڑتی۔ موضوع کچھ خاص نہیں تھا، ہم ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے اور باتوں ہی باتوں میں نہ جانے کب ہمارے لہجوں میں کڑواہٹ آ گئی اور ہم نے ایک دوسرے کو بلاوجہ طعنے دینے شروع کر دیے۔

اب یاد کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے جیسے ہمارے دلوں میں شاید پہلے سے کوئی کدورت تھی جو اس روز رنجش کا سبب بن گئی۔ بہرحال جو بھی ہوا، اس روز کے بعد ہم نے ایک دوسرے کو فون نہیں کیا۔ یوں لگا جیسے برسوں پرانا ہمارا تعلق چند منٹوں میں ختم ہو گیا ہو۔ میں نے دل میں سوچا کیا یہ تعلق کیا اتنا ہی کمزور تھا کہ ایک جھٹکا بھی نہ سہ سکا۔ مگر پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ چند روز بعد میں گھر سے خریداری کی غرض سے نکلا، جس دکان سے میں عموماً خریداری کرتا ہوں وہاں کا سیلز مین میرا جاننے والا ہے، اس نے کہا کہ اگر آپ ہماری دکان کا رعایتی کارڈ بنوا لیں گے تو آئندہ ہر خریداری پر آپ کو دس فیصد بچت ہو گی۔

میں نے دل میں حساب لگایا اور سوچا کہ چلو کچھ نہ کچھ تو فائدہ ہو ہی جائے گا، مفت کارڈ بنوانے میں کوئی حرج نہیں۔ سیلز مین نے میری رضا مندی کو بھانپ کر جھٹ سے میرے کوائف مکمل کیے اور ایک بنا بنایا کارڈ ہاتھ میں تھما دیا۔ اور پھر یہیں سے ایک بات میرے ذہن میں آئی۔ اس بات کا بظاہر الف سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا مگر پھر بھی میں نے الف کو فون ملا دیا۔ وہ بھی شاید میری ہی کال کے انتظار میں تھا، میرے فون سے اس کی انا کی تسکین ہو گئی، ہم دونوں نے پچھلی کوئی بات نہیں کی، حال احوال پوچھا اور پھر دو گھنٹے بعد ہم اسی ریستوران میں بیٹھے قہقہے لگا رہے تھے جہاں چند روز پہلے ہماری ہلکی سی جھڑپ ہوئی تھی۔

اس واقعے کے بعد میں نے سوچا کہ اگر میں الف کو فون نہ کرتا تو شاید وہ مجھے فون کر لیتا یا ممکن ہے کہ نہ کرتا۔ اگر ہم دونوں ہی اپنی اپنی انا کے حصار میں رہتے تو یقیناً ہماری دوستی ختم ہو جاتی۔ مگر کیا ہماری انا اتنی منہ زور تھی کہ برسوں پرانی دوستی بھی اس کے آگے نہ ٹھہر پاتی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ضروری تھا۔ میں نے سوچا کہ وقت کی طرح دوستی بھی زندگی میں انسان کا اثاثہ ہوتی ہے مگر بعض اوقات ہم وقت اور دوستی دونوں کی پرواہ نہیں کرتے۔

سیلز مین نے جب مجھے رعایتی کارڈ بنا کر دیا تو مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ چار پیسے بچ جایا کریں گے مگر الف سے تلخی بڑھاتے وقت میں نے یہ نہیں سوچا کہ اپنے زندگی بھر کے اثاثے کو آگ لگا رہا ہوں۔ وقت کے بارے میں بھی ہمارا یہی رویہ ہے۔ ایک نو بیاہتا جوڑا اگر کسی کار کے حادثے میں ہلاک ہو جائے تو اس کی موت پر غیر لوگ بھی ماتم کرتے ہیں لیکن پچانوے سال کے بزرگ کے فوت ہونے پر ویسے دکھ نہیں منایا جاتا۔ بنیادی وجہ وقت ہے۔ نوبیاہتا جوڑے سے وقت کے چھن جانے کا ہی تو افسوس ہوتا ہے۔ مگر اسی وقت کو ہم کس قدر اطمینان سے غیر ضروری کاموں میں ضائع کرتے ہیں اور ہمیں رتی برابر بھی احساس نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص بازار میں اپنی دولت لٹاتا ہوا جا رہا ہو۔ یا پھر ایسا شخص جس نے برسوں کمائی کر کے کچھ سونے کی ڈلیاں خریدی ہوں اور ایک دن اچانک وہ کسی بات پر بگڑ کر سونے کی ڈلیاں کنویں میں پھینک آئے۔ ایسے شخص کو ہم باؤلا ہی کہیں گے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ وقت اور دوستی کے بارے میں ہم سے زیادہ تر لوگ ایسے ہی باؤلے ہیں۔ اپنی زندگی کے ان دو قیمتی اثاثوں کو ہم آئے روز کسی احمقانہ وجہ سے ضائع کرتے ہیں، اس وقت تو ملال نہیں ہوتا مگر بعد میں پچھتاتے ضرور ہیں۔

جی ہاں کچھ دوست مطلبی، خود غرض، لالچی اور موقع پرست ہوتے ہیں، کوئی دوست دھوکہ بھی دیتا ہے اور کوئی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے بھی نہیں چوکتا، لیکن یہ سب لوگ دراصل دوست نہیں ہوتے، انہوں نے دوستی لبادہ اوڑھ رکھا ہوتا ہے اور ہم انہیں دوست سمجھ بیٹھتے ہیں، یہ لوگ اثاثے کی تعریف میں نہیں آتے۔ ایک نشانی ایسے لوگوں کی یہ ہے کہ اپنے کسی ’دوست‘ کا ذکر کرتے وقت اس کی غیر موجودگی میں بد خوئی کریں گے، مثلاً: ’ویسے تو وہ ہمارا دوست ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ ایک نمبر کا لفنگا ہے۔‘

یہ نشانی آپ جس میں بھی دیکھیں اسے اپنے دوستوں کی فہرست سے نکال دیں۔ اسی طرح ہر دوست کڑے وقت میں کام نہیں آتا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سرے سے دوست ہی نہیں ہے، اگر وہ آپ کا ہمدرد ہے اور مخلص ہے تو یہ بھی غنیمت ہے، ایسے شخص کو بھی اثاثہ ہی سمجھیں۔ دوستوں کے مابین اکثر تلخیاں محض ضد میں ہوجاتی ہیں، بعض اوقات ہم کسی معاملے میں کوئی پوزیشن لے لیتے ہیں اور پھر اس پر اڑ جاتے ہیں، اپنے موقف کو غلط مان کر دستبردار ہونے میں ہمیں ہتک محسوس ہوتی ہے سو ہم دوستی قربان کر دیتے ہیں، اپنی انا پر آنچ نہیں آنے دیتے۔

حالانکہ جہاں بات دوستی کی ہو وہاں پندار کا صنم کدہ ویراں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ کسی بھی معاملے میں تلخی کو اس نہج تک لے جانا ہی نہیں چاہیے جہاں سے واپسی ممکن نہ رہے۔ اپنے دوستوں کی خوبیوں کی کھل کر تعریف کریں مگر ساتھ ہی ان کی کسی کمی کوتاہی کی نشاندہی بھی کریں، تعریف سب کے سامنے اور تنقید تنہائی میں۔

بریک اپ (علیحدگی ) کے معاملات بھی اسی سے ملتے جلتے ہیں۔ ویسے تو یہ موضوع ایک علیحدہ کالم کا متقاضی ہے مگر عاشقان بر صغیر پاک و ہند کے وسیع تر مفاد میں فی الحال اتنا کہنا کافی ہے کہ علیحدگی ہمیشہ شدت جذبات میں ہوتی ہے لہذا بریک اپ کرتے وقت محبوب کی جملہ برائیاں گالم گلوچ کے ساتھ بیان کرنے سے گریز کریں، ہو سکتا ہے کہ محبوب میں سچ مچ وہ برائیاں ہوں جن کی وجہ سے آپ اسے چھوڑنا چاہتی ہوں مگر انہیں گالیوں سے لبریز کر کے مبالغے کے ساتھ بیان کرنا بہرحال کسی عاشق کو زیبا نہیں دیتا الا یہ کہ ’بغل میں غیر کے آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ‘ والا معاملہ ہو۔ اگر ایسا نہیں تو تھوڑی بہت منافقت سے کام لینے میں کوئی حرج نہیں، جب فریقین کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور ساتھ بیتے ہوئے لمحات یاد آتے ہیں تو اس وقت علیحدگی کے وقت کی ہوئی گالم گلوچ بھی یاد آتی ہے لہذا، منافقت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں!

جس طرح بیماری کی تکلیف صرف مریض کو محسوس ہوتی ہے اسی طرح اپنی لڑائی بھی ہمیشہ خود لڑنی پڑتی ہے۔ اگر آپ کے دوست مخلص اور کڑے وقت میں کام آنے والے ہیں تو آپ دنیا کے سب سے خوش قسمت انسان ہیں، مگر ان دوستوں کی مدد سے آپ کی دل جوئی ہو سکتی ہے، حوصلہ بڑھ سکتا ہے، پریشانی بھی قدرے کم ہو سکتی ہے، مگر آخری لڑائی بہرحال آپ کو خود لڑنی پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada