چینی جوتے اور نواز شریف کا مستقبل


چینی جب کوئی کام شروع کرتے ہیں تو اس سے پہلے اس پر مدتوں سوچ بچار کرتے ہیں۔ ون بیلٹ ون روڈ ایک بڑا پراجیکٹ ہے، اس پر چینیوں نے اپنے روایتی انداز سے بھی زیادہ سوچا ہو گا۔ ایک چینی دوست کا کہنا ہے کہ جو کام ہم چھ مہینے میں کرتے ہیں، اس پر ہم پہلے چھ سال سوچتے ہیں۔

پاکستان میں تب مشرف کا دور چل رہا ہو گا، جب چینیوں نے سی پیک کے خدوخال ابھارنا شروع کیے ہوں گے۔ کئی پاکستانی سیاست دان بتاتے ہیں کہ ان دنوں ان سے پہلی بار اس حوالے سے ابتدائی رابطے کیے گئے۔ ہم جب بے خبر تھے، وہ لوگ مغربی مشرقی وسطی روٹ کی افادیت پر غور کر رہے تھے۔ ان سب متوقع راستوں پر چینی ماہرین نے سفر کیا۔ ان کی حقیقی صورتحال جانی۔ ایک چینی پروفیسر کے بارے میں سنا کہ وہ پچھلی عمرے سائیکل پر سوار ہو کر گوادر تک پہنچا۔

زرداری صاحب شاید پہلے اہم پاکستانی سیاستدان تھے، جنہوں نے صورت حال کو سمجھا۔ انہوں نے چین کے لگاتار دورے کیے، وہاں جگہ جگہ گئے۔ چینی خاموش رہے، پاکستانی اداروں سے مل کر غور کرتے رہے۔ سی پیک کا اعلان بہرحال نوازشریف حکومت کے دوران ہوا۔ ہم کچھ بھی سوچ سکتے ہیں لیکن چینی جوتوں میں پیر ڈال کر سوچیں تو ان کا انتخاب مناسب تھا۔ انہوں نے اس بندے کے ساتھ مل کر کام کا آغاز کیا جو پاکستان میں میگا پراجیکٹ بنانے اور چلانے کا تجربہ رکھتا تھا۔

چینی اس پراجیکٹ پر کام کرنے سے پہلے رسک اسیسمنٹ بھی یقینی طور پر کر چکے تھے۔ ایک چینی عہدے دار کو کہتے سنا کہ سی پیک کی بہت مخالفت ہو گی۔ لیکن جب یہ بنتا دکھائی دے گا تو دنیا اس میں شامل ہوتی جائے گی۔ اس سوال پر کہ کیا امریکی بھی اس میں شامل ہو جائیں گے۔ جواب ملا کہ وہ بھی ہو جائیں گے، پیسہ کسے برا لگتا ہے۔

ہم جب پاکستان میں طاقت کی صورت حال سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو امریکی اور سعودی اثرات کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ یورپ اور عالمی امدادی اداروں کی ترجیحات کو بھی سامنے رکھ کر کوئی تجزیہ کرتے ہیں۔ مخالفت کا اندازہ لگانے کے لیے اپنے پیارے ہمسایوں پر نظرمار لیتے ہیں۔ چینی آج تک پاکستان کے اندرونی حالات سے لاتعلق سے رہے ہیں۔ انہوں نے ہر حکومت کی حمایت کی ہے اور پاکستانیوں کے جذبات کے خلاف کبھی کوئی اشارہ تک نہیں ہونے دیا۔ طاقت کے کھیل میں ہم چینی کردار کو نظرانداز ہی کرتے آئے ہیں۔

اس کھیل میں بیرونی کردار اصل میں ہے کیا۔ اس کے منفی رخ کو رہنے دیتے ہیں، صرف مثبت رخ کی بات کرتے ہیں۔ جن ملکوں کے ساتھ ہم تجارت کرتے ہیں، جن سے ہم اسلحہ خریدتے ہیں۔ جنھیں ہماری ضرورت ہے یا جن کی ہمیں ضرورت ہے یہ سب ملک ہمارے اندرونی حالات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ جب ہم پڑھنے کے لیے ٹیکنالوجی اور ترقی کے حصول کے لیے مغرب اور امریکہ جاتے ہیں تو تعلق بھی وہیں بناتے ہیں۔ ان کی ضرورت رہتی ہے تو ان کی ضروریات کوبھی سامنے رکھتے ہیں۔ کبھی لین دین کرتے ہیں، کبھی دباؤ میں آتے ہیں اور کبھی حالات کے مطابق بہتر ڈیل حاصل کرتے ہیں۔ ایسے ہی ہم اپنی دنیا داری چلاتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان ہی ہمیشہ یک طرفہ پریشر میں آتا ہے۔ پاکستان پریشر ڈالتا بھی ہے۔ ہمارے وزیراعظم کو پانامہ کیس میں قطری شہزادے نے خط دے رکھا ہے، جو بہت اہم ہے۔ سعودی قطری تعلقات میں بگاڑ آنے کے بعد پاکستان نے قطر کے ساتھ گیس پائپ لائین منصوبہ شیلف کر دیا ہے۔ اس منصوبے کی مالیت دو ارب ڈالر ہے۔ سب ملکوں کی طرح ہم بھی اپنے فیصلے اپنے مفادات کے تحت کرتے ہیں۔

سعودی عرب کے پاکستان میں اثر و رسوخ کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام اور درست تاثر ہے کہ عرب ریاستوں سے پاکستان میں ہر سال بڑی تعداد میں زرمبادلہ آتا ہے۔ اسی زرمبادلہ کا طعنہ جب امارات کے وزیر نے دیا تو ہمارے ایک صدی پرانے مشیر خارجہ نے یہ بتا کر سارے احسان اتار دیے کہ ہم بھی اربوں ڈالر کا تیل خریدتے ہیں۔ اگر ہماری لیبر کو پیسے دیتے ہو تو احسان نہیں کرتے، اس کے بدلے میں وہ کام کرتے ہیں۔

کہنا یہ مقصود ہے کہ ہم اتنا بھی کوئی کسی کے تھلے نہیں لگے ہوئے۔ ہمارے بھی مفادات ہیں جن میں سے بہت سارے امریکہ یورپ اور عربوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہماری طاقت کے سارے مراکز، وہ ادارے ہوں یا سیاستدان، فیصلے کرتے ہوئے ان مفادات کو سامنے رکھتے ہیں۔ طاقت کا ہر مرکز اپنی ترجیحات کے مطابق پوزیشن لیتا ہے۔ یہ پوزیشن اکثر ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی ہے۔ یہ کھینچا تانی بری نہیں ہوتی اگر طے شدہ حدود میں رہے۔

تجزیہ کارصورت حال کے جائزے پیش کرتے ہوئے چین کو اکثر نظر انداز کردیتے ہیں۔ چین پاکستان میں طاقت کا ایک نیا ابھرتا ہوا مرکز ہے۔ چین اب سرکاری ہی نہیں پرائیویٹ سیکٹر کا بھی پاکستان میں سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ ہمارے نوجوان سینکڑوں کی تعداد میں پڑھنے چین جا رہے ہیں۔ کاروباری طبقہ کئی دہائیوں سے وہاں مستحکم روابط رکھتا ہے، جو اب اپنی شکل بدل کر دوستانہ سے برادرانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی جگہ پر چینی سرمایہ کار مقامی سرمایہ کاروں کے حریف کے طور پر بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اس مقابلہ بازی کے لیے بھی اپنے مقامی پارٹنر ہی تلاش کریں گے۔

اسلام آباد میں اب بہت سارے پرائیویٹ ادارے اور لوگ ہیں جو چینی میڈیا تھنک ٹینک اور تجارتی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کے بعد دل چسپ صورتحال سامنے آئی ہے۔ چینی پاکستان میں جاری سیاسی صورتحال سے مطمئین ہیں۔ وہ کہتے ہیں چینی پاکستان میں اب کسی مارشل لا کے حمایتی نہیں ہیں۔ اس کی سادہ سی وجہ ہے کہ ان کی پاکستان میں سب سے زیادہ دلچسپی بلوچستان میں ہے۔ بلوچستان ابھی بھی سیاسی استحکام کی تلاش میں ہے۔ بلوچستان کو تیزی سے نارمل سیاستدانوں نے ہی کیا ہے۔ چینی جانتے ہیں کہ پاکستان میں فوج کو پنجاب کی فوج سمجھا جاتا ہے۔ یہ گو کہ اب تاثر ہی ہے لیکن ایسا کوئی تاثر بھی وہ اپنے مفاد میں نہیں سمجھتے۔ چینی پاکستان میں جمہوریت کو ہی سپورٹ کریں گے۔ پاکستان میں سسٹم چلتا رہے گا۔ چینیوں کو یقین ہے کہ نوازشریف بچ جائیں گے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا بچ جانا ہی سب کے مفاد میں ہے اور اسی میں سب کی خیر ہے۔ بظہار جمہوری نہ سمجھا جانے والا چین اب پاکستان میں جمہوریت کا ایک نیا اور طاقتور حمایتی ہے۔ سیاستدانوں کے لیے اس میں خبر یہ ہے کہ چینی جوتے پہن کر سوچیں تو اب تبدیلی کا واحد راستہ الیکشن ہی بچا ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi