شیعہ سنی قبائل نے اپنا مشترکہ دشمن پہچان لیا ہے



رفعت اللہ اورکزئی ۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پاڑہ چنار۔

پاکستان میں وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں 23 جون کو یکے بعد دیگرے ہونے والے دو دھماکوں کے بعد ایجنسی بھر میں روزمرہ معمولات زندگی تیزی سے بحال ہوتے جارہے ہیں تاہم شہر میں بدستور سوگ کی کفیت برقرار ہے۔
گذشتہ روز گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا کے ہمراہ پشاور کے صحافیوں پر مشتمل ایک ٹیم کے ساتھ پاڑہ چنار پہنچے تو شہر میں ہر طرف سکیورٹی اہلکار نظر آئے۔

پاڑہ چنار کے تمام بازاروں میں فوج کی بھاری سکیورٹی نظر آتی ہے جو شہر میں آنے جانے والی ہر گاڑی کی تلاشی لیتے ہیں۔

شہر کے بعض علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے ناکے بھی لگائے گئے ہیں جہاں اہلکار کافی مستعد دکھائی دیے۔ پاڑہ چنار میں واقع سنی اور شعیہ قبائل کی مساجد اور امام بارگاہوں پر بھاری تعداد میں سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔

تقریباً دو ہفتے قبل ہونے والے ان حملوں کے بعد شہر بھر میں تجارتی سرگرمیاں تیزی سے بحال ہوتی جارہی ہے تاہم بازاروں میں روایتی رش دیکھنے میں نہیں آیا۔
شہر کے ایک تاجر صادق علی نے کہا کہ ان حملوں کے بعد بدستور شہر میں ایک سوگ کی کفیت ہے کیونکہ کافی لوگوں کی جانیں گئیں۔

انھوں نے کہا کہ پاڑہ چنار شہر میں ایک خوف کی فضا بھی ہے کیونکہ اطراف کے علاقوں سے لوگ بازاروں کا رخ نہیں کر رہے جس سے تجارتی سرگرمیوں پر بھی کافی اثر پڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان دھماکوں کے بعد ایک مثبت بات یہ سامنے آئی ہے کہ شیعہ سنی قبائل ایک پیج پر آگئے ہیں اور انھوں نے اب اپنا مشترکہ دشمن پہچان لیا ہے۔

شہر میں جس جگہ دھماکے ہوئے وہاں اب بھی اردگرد واقع دوکانوں کا ٹوٹا پھوٹا سامان بکھرا پڑا نظر آتا ہے۔ تاہم وہاں کوئی گھڑا دکھائی نہیں دیا جس سے غالباً امکان یہی ظاہر کیا جارہا کہ دونوں دھماکے خودکش تھے۔

تاہم اس سلسلے میں مقامی انتظامیہ کی جانب سے حتمی طور تاحال کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ مقامی لوگوں بتاتے ہیں کہ ایک مبینہ خودکش حملہ آوار لیوی فورس کی وردی میں ملبوس تھا اور اس کی ایک سی سی ٹی وی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے۔

دھماکوں میں زخمی ہونے والے ایک درجن کے قریب افراد ایجنسی ہیڈکوارٹر ہپستال پاڑہ چنار میں بدستور زیر علاج ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان حملوں میں بیشتر وہ افراد مارے گئے ہیں جن کا تعلق مزدور طبقے سے تھا۔

ادھر منگل کو گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا پشاور سے جب پاڑہ چنار پہنچے تو وہاں پولیٹکل انتظامیہ کی طرف سے انہیں ایک اعلیٰ سطح کی بریفنگ بھی دی گئی۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں بعض مقامی افراد بھی ملوث ہیں جنہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حراست میں لیے جانے والے افراد کا تعلق کس قبیلے یا تنظیم سے ہے۔

گورنر نے اس موقع پر ایک قبائلی جرگے سے خطاب میں کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں بیشتر کالعدم تنظیموں کو ختم کردیا گیا ہے تاہم ان کے سہولت کار ابھی تک موجود ہیں جن کے خاتمے کے لیے فوج کی طرف سے بھر پور کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے بعض غیر ملکی قوتیں ملوث ہیں جن کا مقصد پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ردالفساد دہشت گرد تنظیموں کے سہولت کاروں کا قلع قمع کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے جو کامیابی سے مکمل ہونے کے قریب ہے اور جس سے بہت جلد ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔

جرگے سے شیعہ سنی قبائل کے نمائندوں نے الگ الگ خطاب میں کہا کہ کرم ایجنسی میں ایک سازش کے تحت امن و امان کی صورتحال کو خراب کیا جارہا ہے تاکہ اس معاملے کو فرقہ واریت کا رنگ دے کر قبائل کو آپس میں لڑایا جائے۔

لوئر کرم ایجنسی کے ایک قبائلی سردار حاجی سلیم نے کہا کہ کرم ایجنسی کے شیعہ سنی ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اور اگر کوئی اس کشتی میں سوراخ کرتا ہے تو تباہ سب ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ قبائل کو اپنے درمیان دشمن کو پہچان کر اپنی صفوں سے نکالنا ہوگا ورنہ سارا خطہ اس کے اثر سے نہیں بچ سکتا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاڑہ چنار کے ایک قبائلی ملک حاجی فقیر حسین نے کہا کہ دہشت گردوں نے رواں سال ہونے والے حملوں کے نتیجے میں علاقے میں جوان مشتعل ضرور ہوئے لیکن انھوں نے ریاست کے خلاف کوئی نعرہ نہیں لگایا۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عوام کا تحفظ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے لہذا انھیں اس پدری شفقت سے محروم نہ کیا جائے۔

گورنر نے اس موقع پر دھماکوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین میں امدادی رقوم بھی تقسیم کی۔

حکومت کی طرف سے مرنے والے افراد کو دس، دس لاکھ جبکہ زخمیوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے کے چیک دیے گئے۔ بعدازاں گورنر نے ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا دورہ کیا جہاں انھوں نے زخمیوں کی عیادت کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp