پنکی کے پاپا یاد آنے پر مریم کے ابو سے کچھ باتیں


چالیس سال پہلے، پانچ جولائی کی رات ہم پہ نحوست و یبوست کی جو سیاہی آن پھیلی تھی، وہ آج تک کے ہر روسیاہ فرمان کی بلاشرکت غیرے کالک اور مالک ہے۔

مبالغہ آرائی نہ ہو اگر کہا جائے کہ درد کی انجمن جو میرا دیس ہے، کا اصل جنم پانچ جولائی 1977 کو ہی ہوا اور چند برسوں میں اس نے وحشیانہ بلوغت سے آوارہ مزاج زوجیت کے مرحلے یوں طے کیے کہ ’وحشی زادوں‘ کے جنمِ مسلسل کی مستقل بِدھائی چلتی جا رہی ہے۔ یہ پانچ جولائی چلتی جا رہی ہے اور اس سیاہی میں نسلوں کی نسلیں پلتی جا رہی ہیں، گلتی جا رہی ہیں۔

مختصر یہ کہ پانچ جولائی کوئی خاص تاریخ نہیں، دن نہیں، یوم سیاہ نہیں، ایک مستقل سیاہ لمحہ ہے جو چالیس برس سے دیار وطن میں ٹھہر چکا ہے اس اعتراف کے ساتھ کہ تارِظلمت کا گھٹا ٹوپ رنگ دھندلا ضرور رہا ہے۔

پانچ جولائی کوایک منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹنے کے نتائج و علل ہمارا موضوع نہیں کہ آج امریکی اداروں کے ’جفاکش اعترافات‘ اور اپنے اداروں کے ’ریاکش معاملات‘ چیخ چیخ سب بتا ہی تو رہے ہیں۔ ہمارا موضوع تو عدالت، آمریت، عالمی سفارت و ذرائع ابلاغ کے نظام ہائے وحشت کے تہذیبی ارتقا پر کچھ داد فشانی ہے اور آج کی معتوب ’امراجاتی روداد‘ میں فقط یہ یاد فشانی ہے کہ اب منتخب وزیراعظم ’ پانچ جولائی‘ کومع ’پنج تن‘ پانامہ اوڑھنے آتے ہوئے لاتعداد کیمروں میں V بناتے ہیں اور واپس جاتے ہوئے بھی مظلومانہ ناک بھوں۔

ایسے میں، جناب نواز شریف صاحب کا موازنہ بھٹو سے کیسا اور کیونکر کہ معاملات بھی مختلف ہیں اور شخصیات بھی یکسر۔ وہ evil ہی سہی، منہ پھٹ جینئیس تھا۔ شیر کا نشان نہ ہونے کے باوجود، موت کے یقینی مقدمہ میں بھی، تھمائی پرچیوں سے ’مافی الضمیر پڑھنے‘ کے بجائے دھاڑتا رہا اور معافی نامے معاہدے پھاڑتا رہا۔

پھر بھی، جب آپ کی اہل خانہ سمیت پیشی کوآپ کے زود رنج ترجمان عہد فاروقی سے جا ملاتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ’عہد، تکبر، مزاج ’ نہ بدل پاتا اور آپ کی بینظیر کسی پانچ جولائی کو آپ سے ملنے ایسے آتی کہ سامنے بائیں طرف پرنم سلاخوں میں سے آپ دیکھتے کہ پنکی خود کو گھورتے حوالدار سے منت پذیر ہے کہ باپ سے ملاقات کرا دے تو آپ پہ کیا گزرتی۔

آپ کو موجودہ مبینہ جمہوری حیثیت پر قدرے بے باکانہ شان سے ڈٹے رہنے پر داد مگر اگر اُدھر آپ ہوتے تو کال کوٹھری کی تنگ دہن سلاخوں سے بیٹی کے آنسوؤں کو اپنے سینہ تک اک آبشار نہ بنا سکنے پر دل انگیٹھی دہل دہک جاتی۔ ایسے میں یاران وفا جو مشورہ دیتے وہ جانتے ہیں کہ ہم دیکھ چکے۔ اس میں مصلحت کیشی و حکمت پیشی کے گیان معاہدہ و سمجھوتہ کے ’عرفان‘ ’عطا‘ کرتے۔ تھپڑوں سے بیٹی کے تمتماتے گال اور ڈنڈوں سے اس کی ماں کے لہولہان بال۔ برا نہ منائیے گا، آپ حکمت سے کام لے کر نقل مکانی کر جاتے جسے شیخ رشید جیسے بوالہوس مجاور ’ہجرت‘ سے تعبیر کر کر دو دو نشستیں جیتتے جاتے۔

آج تاریخ بدل رہی ہے تو اس کے تقاضے بھی۔ سو پانچ تاریخ نہ بھی بدلی ہو، اس ٹھہرے لمحہ کا جبر اور مزاج ضرور بدلا ہے۔ سرشت نہ بھی بدلی ہو، گرفت کرنے والوں کا سلوک تو بدلا ہے کہ آپ سینکڑوں کیمروں کے جلو میں چلتے ہیں اور آپ کے ترجمان ( عوامی اسلوب میں) باعزت بیٹھے لخت جگر سے کم سلوکی کی ایک تصویر پر چیخ اٹھتے ہیں اور وہ حرماں نصیب کہ زندگی میں، جس کے، بیڑیوں سجے ٹخنوں اور بعد از مرگ ختنوں تک کی تصویریں لی جاتی رہیں اور ذرائع ابلاغ پر ایک نیوز الرٹ تک نہ آسکا کہ ایسی تذلیل پر، بھٹوکی روح نے فیض سے ’حذر کرو مرے تن سے‘ سننے کی آخری فرمائش کی ہے۔

سجے تو کیسے سجے قتلِ عام کا میلہ

کسے لبھائے گا میرے لہو کا واویلا

مرے نزار بدن میں لہو ہی کتنا ہے

چراغ ہو کوئی روشن، نہ کوئی جام بھرے

نہ اس سے آگ ہی بھڑکے نہ اس سے پیاس بجھے

مرے فگار بدن میں لہو ہی کتنا ہے!

الحذر! جناب وزیراعظم صاحب۔ اسٹیبلشمنٹ کے ارتقائی اسلوب کو سراہیے کہ آج ایک تصویری اعتراض پر جے آئی ٹی کا پراسرار ممبر کمیٹی سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ چار دہائی قبل توعوام کے منتخب رہنما کے مقدمے میں ’نسیمِ مشتاق‘ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کہاجاتا کہ قتلِ گُل کا اعلان ہو اور آئین دیتی اس رگ گردن کو مروڑتے نچوڑتے ہوئے سفاک جنرل مارک سیگل سے سرگوشی کرتا: ’ بس ایک افسوس ہے کہ میں بھٹو کی ساری نسل ختم نہیں کر سکا۔ ’

بہرحال ایک جمہوری نظام میں، آپ پہ لگائے گئے سب الزامات تشفی جواب چاہتے ہیں تاہم ’پانچ جولائی‘ کے مستقل مگر نرم خو تسلسل کی برکات کے ساتھ کہ جہاں مخالفین کے الزامات، ثابت اور ثبوت کے معاملات، تفتیشی طریقہ کار، انتظامی عدالتی ڈھانچے سب مختلف ہیں، مہذب ہیں اور قدرے معتبر بھی!

الاماں! منکر نکیر پہلے زیادہ جلال میں رہتے تھے۔

ملک میں سب سے زیادہ اعتمادی ووٹ لینے والی شخصیت کے ساتھ چند ’جج جنرل‘ وہ سلوک کیا کرتے جو اصلی معنوں میں ناگفتہ بہ تھا اور ستم یہ کہ ذرائع ابلاغ خاموش رہتے تھے یا مصلحتی ابلاغ پہ یقین رکھتے تھے۔ اس وقت بھی ’جنگ‘ ’نوائے وقت‘ ’ڈان‘ سمیت بہت بڑے بڑے اخبار تھے۔ ٹی وی تھا، ریڈیو تھا۔ بی بی سی تھا۔ برستے کوڑوں تلے دکھی عقیدت مند خود پہ تیل پھینک جل جل رہے تھے مگر موت کے فرمان کا ٹویٹ واپس نہیں ہوا کرتا تھا۔ سامنے آجانے والی خاکی کھائی کو مدمقابل ’سویلین سودائی‘ سے ہی بھرنا پڑتا تھا۔

اپنے بارے عرض ہے کہ یہ ’حسن پرست مسافر‘ ثنا خوان تقدیس بھٹو ہے نہ ہی مرحوم سراپا سلطانیٔ جمہور تھے کہ ہوتے تو اختتامی عہد کے اندیشہ ہائے دور دراز میں رومانوی مذہبیت اور آمرانہ جمہوریت کے سہارے چومکھی بغاوتوں کے جذباتی ایڈونچر نہ کرتے۔ وہ سعودی، چینی، روسی اور امریکی بلاک سے مستقل معتدل مگر مسلسل سویلین رابطہ استوار رکھتے جیسے کہ موجودہ وزیراعظم رکھتے ہیں بلکہ شجر اقتدار سے امید بہار باندھے جیسے باقی تمام قائدین رکھتے ہیں۔

یہ لفظ جو لکھے پڑھے جا رہے ہیں، بھٹو سے اپنے موجودہ وزیراعظم کے موازنے کے لیے نہیں مگرمیاں صاحب دیکھ لیجیے کہ آپ کا اغواکار اپنی لبرل انا کی کمانڈووانہ اکڑفوں، اگرچہ، کمر کے لچکتے زاویوں سے ہلا ہلا دکھاتا ہے مگر ملک میں نہیں آتا ہے۔

ہر ’پانچ جولائی‘ کو تلوار تلے لٹکتے اس ترازو کے رکھوالے آخری منصف کی وہ خود اعترافیاں یاد آتی ہیں کہ جن میں موصوف جتنا روتے تھے تو ان کا مختصر وجود اتنا ہی سکڑتا جاتا تھا۔ اتنا کہ نفرت کے بجائے رحم کے جذبات جنم لیتے تھے جبکہ کتنے خوش قسمت ہیں آپ کہ 12 اکتوبر کے چند سال بعد ہی جناب کے اغواکار کے رفیقان کمان دار ٹی وی پہ بیٹھ کے شریک جرم ہونے کا اعتراف کرتے تھے اور قاضی القضاہ آپ کو بلوانے سے بچانے کے لیے جواب آں غزل سناتے ہیں اور باآغوش اثر پاتے ہیں۔

یہ جذباتی تاثریہ موازنہ نہیں، مقابلہ نہیں، مریض کی تاریخ ہے۔ patient history ہے۔ اس فریاد کے ساتھ کہ پانچ جولائی1977 کو پاکستان کی کاٹ پیٹ کر کے درندوں کے اعضائے رئیسہ سے جو پیوند کاری کی گئی تھی، وہ ہنوزدرماندہ ٔ علاج ہے۔

آج چالیس برس بیتنے پر بھی سرطان کے اس سسکتے مریض کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ یہ مریض کبھی ’شریف ہاسپٹل‘ کے باہر ایڑیاں رگرتا ہے تو کبھی ’شوکت خانم و بے نظیر بھٹو شہید ہسپتال‘ کے باہر۔ درد کش کچھ اصلاحاتی گولیوں سے اشک شوئی ہوتی بھی ہے تو ’سائیڈ ایفیکٹ مفادات‘ اورچڑچڑی بپھرتی خواہشات ہر میثاق کو مذاق بنا کر رکھ دیتی ہیں۔

صاحبان اقتدار کو تو کافی کوس لیا کہ ملیشیا کی شلوار قمیض پہن کر مائیک گرانے سے تیسری دنیا کی لیڈرشپ نہیں ملا کرتی مگرکاش آج کی حزب اختلاف بھٹو مخالف رہنماؤں پروفیسر غفور احمد، نوابزادہ نصراللہ اور اصغر خان جیسے زود پشیمانوں کے شرمندہ آنسوؤں سے ہی کچھ سیکھ سکتے کہ تب بہت سے ایسے سچوں کا نشانہ بھی خطا گیا تھا کہ جب منتخب وزیراعظم کو پھانسی لگوا دینے پر بھی، برسوں انہیں مجلس شوریٰ کے سوا ’تبدیلی‘ کے لیے کوئی اور پلیٹ فارم نہ مل سکا تھا۔

مزاحمت اور اختلاف سے عوام کو ہنگامی سہولتیں دینے والے اپوزیشن محسنوں کو کیا معلوم نہیں کہ کارِسیاست تحمل، بلند نگاہی اور صبر بنا کار چنگیزی ہے۔

پانچ جولائی کا مستقل مگر مسلسل مہذب ہوتا لمحہ ہمیں یہی پیغام دیتا ہے کہ چار پانچ سالہ عہد حکومت کی کڑک پرکھ میں بھرپور تنقید و احتساب کیا جائے مگر ’تختہ الٹ انقلاب‘ کے ’عوامی ہیجان‘ کو ’خاکی کشتوں‘ سے تیر بہدف تحریک نہ دی جائے کہ یہ وہ تیر ہے جو پلٹ کے آتا ہے اور ادلہ بدلہ والا یہ شعر سناتا ہے

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

کاش اہل اقتدار بھی، جانتے تو ہیں، مان بھی سکیں کہ ’قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ۔ ’ کی عملی پشت بانی مرکزی سلطنت کو پلوں سے سجانے سے نہیں، مضافات تک میں صحت تعلیم اور روزگاردلانے سے ملتی ہے۔

اسے اختتامی اشتراکی ورد نہ سمجھا جائے تو عرض کریں کہ جمہوری حکمران روٹی کپڑا مکان اور مساوات کے بنیادی معاملہ پہ فوکس چوکس نہ رہے تو‘پانچ جولائی‘ کا اگلا ورژن خواص کی ’پھولی نرگسیت‘ سے نہیں، عوام کی بھوکی انانیت سے جنم لے گا جو زیادہ جنونی ہو گا، زیادہ خونی ہو گا۔

جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل سفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
ا اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).