شیر دل بے نظیر بھٹو اور ننھے بچوں کا معصوم سوال


پتہ نہیں قدرت کا حسین اتفاق ہے یا عجیب. کبھی کبھار تو ذہن پر ایسا قفل پڑتا ہے کہ تمام جہاں کی چابیاں کھول نہیں پاتیں. قلم ہاتھ میں تھام کر خلا میں تکتے زمانے بیت جاتے ہیں. اور کبھی ذہن میں چہار اطراف سے اس قدر شور برپا ہوتا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہاں تک سنیں کہاں تک سنائیں. وہ کرن جوہر صاحب کی فلم ہے نا ‘کبھی خوشی کبھی غم ‘. کچھ ایسی ہی سچویشن ہے. آج کا بلاگ بس کوشش ہی ہے آپ تک مدعا پہنچانے کی کیونکہ غم و غصے کا طوفان بےقابو ہے. انسانیت بھی کوئی چیز ہے صاحب . دیکھئے کہاں تک کامیابی ہو پاتی ہے. ہو گئے تو بہت اچھے ورنہ دعاؤں میں یاد رکھئے گا.

 آج سے قریب آٹھ سال پہلے ہماری ایک عزیزہ کا بیاہ بڑی دھوم دھام سے ایک کاروباری گھرانے کے ولی عہد سے قرار پایا. زیورات اور ریشم و اطلس کی کہکشاں آباد تھی. شہر کے سب ہی نامی گرامی لوگ مدعو تھے. ایک سے بڑھ کر ایک حسین چہرہ، قوی بینک بیلنس والے، اقتدار کے ایوانوں کو ہلا دینے والے. سب ہی رشتےداروں نے بار بار لڑکی کی قسمت پر رشک کیا، کسی نے کھلے اور کسی نے بجھے دل سے. ہماری لڑکی بھلا کسی سے کم تھی کیا. حسن کا پیکر، نرم و نازک، پڑھی لکھی، خوش گفتار، دو بھائیوں کی اکلوتی بہن، شریف ماں باپ کی دلاری بیٹی. خیر دعاؤں کے سائے رخصت ہوئی. خدا کا کرنا کیا تھا کہ کچھ ہی مہینے بعد ہمیں اس جوڑے کی علیحدگی کی خبر سننے کو ملی. دل دھک رہ گیا. جیسے کچھ چھناکے سے ٹوٹا ہو. یوں لگا کہ کسی حاسد کی نظر کھا گئی خاندان کی خوشیوں کو. لڑکی کا پھول سا چہرہ کملا گیا. ماں باپ کے کندھے مزید جھک گئے.

سننے میں آیا کہ ہمارے دولہا بھائی سماجی تو کیا ازدواجی حقوق پورے کرنے سے بھی قاصر تھے. گاہے بگاہے کسی قسم کے دماغی دورے بھی پڑتے تھے. لڑکی ماں باپ کی عزت بچانے کے خیال سے کچھ عرصہ تو چپ رہی لیکن بعد میں اپنے ماں باپ کی بجائے ساس کو اس راز میں شریک کر بیٹھی. آخر کو اب تو امی وہی تھیں. ساس نے بھی سنی ان سنی ہی کی. آخر انکے بھی خاندان کی عزت معاملہ تھا. خیر بات اور گرہ کو تو ایک دن کھلنا ہی تھا. جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو یہ نو بیاہتا آنسو بھاتی میکے واپس چلی گئی.

اب فریقین دونوں خاندان تھے، صرف لڑکی لڑکا نہیں . الزامات کی تابڑ توڑ بوچھاڑ کا سلسلہ جاری ہوا. لڑکے والوں نے حقیقی ایشو کو ماننا تو کیا تھا برابر معصومیت سے یہی سوال کرتے رہے ‘ پتہ تو چلےکہ مسئلہ کیا ہے؟’ یعنی ذرا یہ تو بتاؤ کہ زلیخا مرد تھی یا عورت. طلاق تو مقدر میں لکھی جا چکی تھی لہذا کوئی سوال جواب اسے کیونکر روک پاتا. کچھ ہی عرصے بعد لڑکی کی ایک اچھی جگہ شادی ہو گئی. خدا خوش رکھے، اپنے گھر بار والی ہے. لڑکے کے گھر والے بھی کیوں پیچھے رہتے. جھوٹ سچ کہ سن کر اپنے ولی عہد کو بھی کسی اور لڑکی کی زندگی برباد کرنے کا ذمہ سونپ ہی دیا.

آٹھ برس گزر جانے کے بعد بھی یہ واقعہ ہمارے خاندان میں سانحے کی حیثیت رکھتا ہے. ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا. جو ہونا تھا ہو کر ہی رہا.لیکن انسانی فطرت اس لحاظ سے بڑی دلچسپ ہے کہ بیتے سکھ کو دکھ جانتی ہے اور بیتے دکھ کو سکھ. آج ‘پتا تو چلے کہ مسلہ کیا ہے ؟’ ہمارے خاندان میں ضرب المثل ٹھہر چکا ہے. جب بھی کوئی سیانا گنی آدمی جان بوجھ کر میسنا بنے اور تتلا کر روٹی کو چوچی کہنا شروع کر دے تو ازراہ تفن طبع یہی سوال بار بار دہرایا جاتا ہے وہ بھی اس وقت تک جب کہ مقابل مارے خفت کے ناک سے لکیریں کھینچنے پر تیار نہ ہو جائے.

خاکسار قریب دو سال سے ملک سے بھی باہر ہے اور خاندان کے مخصوص چٹکلوں سے بھی. وہ تو خدا بھلا کرے ٹیلی ویژن کا جس نے ایک ہی انٹرویو سے ہمیں وطن عزیز کا دورہ کرا دیا. ملک میں پانامہ فیصلے اور جے آئی ٹی کا دور دورہ ہے. راوی چین لکھنے سے یکسر قاصر ہے. معصوم شہزادے حسن نواز کی پریس کانفرنس دیکھنے کو ملی جس میں بار بار ماں کا یہ لعل ایک ہی سوال اٹھاتا تھا

‘آخر پتا تو چلے کہ ہمارا قصور کیا ہے؟

ان کی کسمپرسی اور زبوں حالی دیکھ کر دل بھر آیا. بار بار لڑکے والوں کا یہی معصوم سوال ذہن میں آیا

‘پتا تو چلے کہ مسئلہ کیا ہے؟’

وقار ذکا صاحب کا معصوم چہرہ نظروں کے سامنے آ گیا

‘باس میں نے آپ کو بولا کیا ہے؟’

سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ مسئلہ کیا ہے. یہ مدعا ہے کس گرداب کے ارد گرد؟ ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر بچوں کی عدالت تو مختلف ہونی چاہئے تو وزیر اعظم صاحب کے بچوں کی عدالت تو ہونی ہی ان کے والد ماجد کے کمرے میں چاہئے. اور یہ زلیخا کی صنف جیسے سوال بھی پوچھنے سے احتزاز برتا جائے. ہم کہے دیتے ہیں، ہاں !

ایک تو ذرا سے بچوں کو عدالتی کمیشن کے سامنے لا بٹھاتے ہیں اور پھر طرح طرح کے بے سرو پا سوال بھی کرتے ہیں. جس قوم کو اپنے معماروں کی فکر نہ ہو اس کا بھلا کیا مستقبل ہونے لگا. دیدوں کا پانی ہی مر گیا ہے اس مردہ قوم کا. سب قیامت کی نشانیاں ہیں.

خدا جانے کیوں بار بار اس شیرنی بینظیر بھٹو کا چہرہ نگاہوں کے آگے آ رہا ہے. جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑی کمیرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے آمر کو للکارتی ہوئی دختر مشرق. خیر جانے دیجئے. پرانی باتیں ہیں. ابھی تو حقوق طفلاں کا ذکر ہے. خیال کرنا چاہیے نا. پتا نہیں کیسے لوگ ہیں. بچوں اور ان کی باجیوں تک کو عدالتوں میں گھسیٹنا چاہتے ہیں. ذرا جو خوف خدا یا انسانیت کا لحاظ ہو. اچھا اور کسی قابل نہیں تو کم از کم لنچ بریک میں لالی پاپ ہی رکھ لیں. ننھا سا دل ہے. بہلا دیں تو آپ کا کیا جائے گا. آپ بھی نا…


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).