قول و فعل میں تضاد: ضیاالحق میکیاولی کا استاد تھا


 وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بحیثیت منتخب حکمران، پاکستان میں مارچ 1977ء کو انتخابات کروائے۔ انتخابات کے اعلان (جنوری 1977ء) کے ساتھ ہی پاکستان کی نو سیاسی جماعتوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابی اتحاد پاکستان نیشنل الائنس (PNA) قائم کر لیا۔ جوں جوں انتخابی مہم تیز ہوتی گئی، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی مخالفت سے زیادہ ذوالفقار علی بھٹو کی کردار کشی بڑھتی چلی گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو کو قاتل اور کافر کے طور پر پیش کیا گیا اور اُن کے اہل خانہ پر ہر ممکن رکیک حملے کیے گئے۔ پی این اے میں مذہبی جماعتوں، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان کے علاوہ نہایت سیکولر جماعتیں بھی شامل تھیں جن میں ولی خان مرحوم کی نیپ پر پابندی کے بعد این ڈی پی اور ایئر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال سرفہرست تھیں۔ انتخابی نتائج کو قبول نہ کرنے کے بعد پاکستان نیشنل الائنس نے نئے انتخابات کے لیے تحریک کا آغاز کیا جو یکایک تحریک نظامِ مصطفی میں بدل گئی۔ تحریک نظامِ مصطفی کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نئے انتخابات کے لیے مذاکرات کے بائیس سے زائد سیشن ہوئے، جس میں پاکستان پیپلزپارٹی اور پی این اے کی طرف سے دیگر رہنماؤں کے علاوہ پی پی پی عبدالحفیظ پیرزادہ مرحوم اور پی این اے کی طرف سے جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غفور مرحوم نے شرکت کی۔

چند سال قبل پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے میں نے اپنے ایک پروگرام کے لیے ان دونوں رہنماؤں کے ساتھ بھٹو حکومت اور پی این اے کے مذاکرات کے حوالے سے انٹرویو کیا۔ یہ شاید پہلا اور آخری ایسا انٹرویو تھا جس میں تاریخ کے یہ دو گواہ ایک ساتھ اور ایک موضوع پر اکٹھے بیٹھے۔ پروفیسر غفور کا شمار پاکستان کے بااصول اور عبدالحفیظ پیرزادہ کا شمار پاکستان کے ذہین سیاست دانوں میں کیا جاتا ہے۔ عبدالحفیظ پیرزادہ کو پاکستان کے متفقہ آئین 1973ء کا خالق بھی کہا جاتا ہے۔ اس انٹرویو میں ماضی کے دونوں متحارب رہنماؤں نے تسلیم کیا کہ چار اور پانچ جولائی کو بھٹو حکومت اور پاکستان قومی اتحاد (PNA) کے درمیان مکمل معاہدہ طے پا گیا تھااور جب پروفیسر غفور یہ معاہدہ لے کر تحریک استقلال کے ایک اہم رہنما صدیق بٹ کے ہاں پہنچے تو ایئرمارشل اصغر خان اور بیگم نسیم ولی خان کا ردِعمل تھا کہ آپ کون ہوتے ہیں معاہدے کو حتمی قرار دینے والے۔ قارئین یہ انٹرویو اگر آپ دیکھنا چاہیں تو یوٹیوب پر تلاش کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ اور اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں رہنما تاریخ کے گواہ ہی نہیں تھے بلکہ تاریخ ساز بھی تھے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ 5جولائی 1977ء کو جنرل ضیاالحق نے یکایک مارشل لاء نافذ کردیا۔

آئیں ذرا تاریخ کے اوراق سے اس اسلامی نظام کی تحریک اور امیرالمومنین کہلوانے والے جنرل ضیا کی آمریت کا سرا ڈھونڈیں۔ رات کے اڑھائی بجے وزیراعظم ہاؤس کی گھنٹی بجی اور جنرل ضیا نے وزیراعظم کو فون پر اطلاع دی کہ ’’آپ کی حکومت ختم ہوچکی ہے اور اقتدار مسلح افواج نے سنبھال لیا ہے سر! ہم نوے روز کے لیے آئے ہیں۔ الیکشن کروانے کا کام فوج کرے گی اور اگر آپ دوبارہ منتخب ہوگئے تو ہم آپ کو سیلیوٹ کریں گے۔ آپ ہماری حفاظت میں ہیں۔ پارلیمنٹ توڑ دی گئی ہے اور ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے۔‘‘

5جولائی کو جنرل ضیا نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’حقائق بہت دیر تک چھپے نہیں رہ سکتے۔ پچھلے چند ماہ کے تجربے سے اچھے بھلے لوگ بھی شک وشبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ آج صبح آپ نے سن لیا ہوگا کہ فوج نے ملک وقوم کا نظم ونسق سنبھال لیا ہے۔ یہ کوئی مستحسن اقدام نہیں کیوں کہ فوج چاہتی ہے کہ ملک کی باگ ڈور عوام کے نمائندوں کے ہاتھ میں ہو۔ عوام کو اپنے نمائندوں کے انتخاب کا جمہوری حق ہوتا ہے جس کے لیے ہر جمہوری ملک میں انتخابات ہوتے ہیں۔ میں نے یہ چیلنج اسلام کے ایک سپاہی کی حیثیت سے قبول کیا ہے۔ میں عام انتخابات کرواؤں گا جو اِنشاء اللہ اسی سال اکتوبر میں ہوں گے۔ انتخابات مکمل ہوتے ہی میں اقتدار عوام کے نمائندوں کے حوالے کر دوں گا۔ آئندہ تین ماہ میری ساری توجہ صرف انتخابات پر ہوگی اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے میں اپنے اختیارات کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کروں گا۔‘‘

پھر ہم نے دیکھا کہ جنرل ضیا نے اپنے اقتدار کے گیارہ سالوں میں انتخابات کے علاوہ وہ سب کچھ کیا جس کا بحیثیت ’’اسلام کا ایک سپاہی‘‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے نہ کرنے کا کہا تھا۔

آئیں ذرا اس ’’اسلامی خدمت‘‘ کی تاریخ کے کچھ مزید سرے ڈھونڈیں۔ جون 1976ء کو وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے افغان صدر سردار داؤد کے ساتھ مذاکرات کے بعد دونوں ممالک کو اس معاہدے پر پہنچا دیا تھا کہ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیا جائے گا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ڈیورنڈ لائن اور نیپ کے گرفتار رہنماؤں کی رہائی کے وقت پر اختلاف تھا۔

’’اسلام کے اس سپاہی‘‘ کی تاریخ کا آغاز اردن سے ہوتا ہے جب فلسطینیوں نے اسرائیل کو تقریباً فوجی شکست سے دوچار کرکے ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا وقت قریب کر دیا تھا۔ اس دوران بریگیڈیئر ضیاالحق نے بیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کا قتل عام کرکے اسرائیل کی شکست کو فتح اور فلسطینیوں کی فتح کو شکست میں بدل دیا۔ اس قتل عام کو بلیک ستمبر کہتے ہیں اور اس قتل عام کے بعد فلسطینی قیادت کو اردن سےے دھکیل کر باہر کیا گیا۔ امریکہ کے چہیتے مرحوم شاہ حسین نے بریگیڈیئر ضیاالحق کو اردن کے اعلیٰ اعزاز ’’کوکب استقلال‘‘ سے نوازا جو جنرل ضیا نے مرتے دم تک سینے پر سجائے رکھا اور ان کی فائل پر اعلیٰ خدمات کے لیے تعریفی کلمات بھی ثبت کیے جو بعد میں ’’دنیا کے اعلیٰ حکام‘‘ نے سفارش تسلیم کرتے ہوئے قبول کیے۔

آئیں تاریخ کو مزید کھنگالیں۔ 3 ستمبر 1976ء کو امریکی اور برطانوی ماہرین کا ایک اہم اجلاس لندن میں منعقد ہوا جو سی آئی اے کے سربراہ جارج بش (بعد میں جارج بش امریکہ کے نائب صدر اور صدر منتخب ہوئے) کی زیر ہدایت کیا گیا۔ اس اجلاس میں بھٹو حکومت کے خاتمے کی حکمت عملی طے کی گئی جس کے پہلے مرحلے میں دیر اور چترال کے قبائل میں ہنگامے برپا کر کے پاک افغان ڈپلومیسی کو سبوتاژ کر نا شامل تھا۔ تاکہ ڈیوریڈ لائن کا مسئلہ دوبارہ کھٹائی میں پڑ جائے۔ اس مقصد کے لیے قبائلی سرداروں اورملاؤں میں امریکیوں نے ڈالروں کی ریل پیل کر دی۔ پاکستان میں امریکی سازش کی حکمت عملی پر عمل کرنے کے لیے اسلام اآباد میں یورپ کے ایک چھوٹے ملک کے سفارتخانے کو مرکز بنا لیا گیا۔ جبکہ تہران میں امریکی سفارتخانے سے نکلنے والے جاسوسی کے کاغذات سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ سی آئی اے نے خصوصی طور پر ایک سیل تشکیل دیا تھا جس کا نام ’’ڈیپارٹمنٹ آف ہائر انٹیلی جینس پاکستان پراسیسنگ ڈویژن ‘‘ رکھا گیا۔ جس کا مقصد پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو سبوتاژ کرنا تھا۔ مارچ 1976ء کو جنرل ضیاء الحق کو بری افواج کا چیف آف دی آرمی سٹاف مقرر کیا گیا جس نے اردن میں فلسطینی بغاوت کو کچلنے میں اپنا ’’اہم رول‘‘ ادا کرکے اردن کا اعلیٰ فوجی اعزاز ’’کوکب استقلال ‘‘ حاصل کیا تھا۔ تقریباً ستمبر 1976ء میں ایک طویل پلان کے تحت غیر ملکی سازش نے پاکستان میں اپنا کام شروع کر دیا۔

شاہ ایران کے ذریعے بھٹوحکومت کو وقت سے پہلے الیکشن پر آمادہ کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ اور یوں جنوری 1977ء میں عام انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی پورا ملک ایک بھر پور سیاسی فضا میں داخل ہو گیا۔ منصوبے کے مطابق مذہبی اور سیکولر بھٹو مخالف سیاسی قوتوں کو اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا گیا جس میں امریکی ڈالروں نے اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ غیر ملکی سازش کے تحت عوام کو سڑکوں پر متحرک کرنے کے لیے مذہبی رنگ کا ہونا ضروری تھا۔ لیکن ان کے اتحادی، تاجر اور صنعتکار بھی شامل کیے گئے۔ مسٹر بھٹو انتخابی مہم میں اپنے اقتصادی پروگرام ، اسلامی دنیا اور تیسری دنیا کے نعرے کے ساتھ ساتھ اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے میدان میں اترے۔ جبکہ بھٹو مخالف پاکستان قومی اتحاد (پی این اے ) نے الیکشن سے پہلے مہنگائی اور بعد میں اسلامی نظام کے نعرے کے ساتھ سڑکوں پر اپنی طاقت کو اکٹھا کیا۔ پی این اے کے بانی مقبول ترین رہنما اور سیکرٹری جنرل رفیق باجوہ اس اتحاد اور حکمت عملی کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’پاکستان قومی اتحاد کا معرضِ وجود میں آنا خود پاکستان کے خلاف ایک غیر ملکی سازش تھی جس کے لیے ایک بائیں بازو کی جماعت کام کر رہی تھی۔ غیر ملکی حکومت کے اشارے پر اس جماعت نے ان جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جو کسی نہ کسی طرح پاکستان بننے کے خلاف تھیں۔ اس اتحاد کی کوشش یہ تھی کہ پاکستان کی حکومت، ان حکومتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دے جو ان کے مفادات کے خلاف کام کررہی تھیں۔‘‘ (19 مارچ 1982ء روزنامہ جنگ لاہور )

’’آپریشن فیئر پلے ‘‘ کے تحت امریکیوں نے کوڈ جملے بھی طے کر لیے تھے جو مسٹر بھٹو کی حکومت کو اندر سے توڑنے سے متعلق تھے۔ اپریل 1977ء تحریک کے عروج کا مہینہ تھا۔ اس دوران جب 9 اپریل 1976 کو لاہور کی شاہراہ قائداعظم پر حکومت کے خلاف مظاہرین پر تشدد ہوا تو طے شدہ پلان کے مطابق پنجاب کے ایک اہم صوبائی وزیر کا استعفیٰ دلوایا گیا۔ استعفیٰ دلوانے سے قبل لاہور میں متعین ایک امریکی سفارتکار نے اسلام آباد میں متعین ایک دوسرے امریکی سفارتکار کو فون پر خفیہ الفاظ میں اس ڈویلپمنٹ کی اطلاع یوں دی کہ ’’پارٹی چلی گئی ‘‘۔ یہ وہی الفاظ ہیں جو بعد میں مسٹر بھٹو نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پوری قوم کو بتلائے۔ 19 اپریل کو امریکہ نے پاکستان کو آنسو گیس کی سپلائی روک دی۔ اپر یل کے وسط میں ہی جنرل ضیاالحق نے امریکی سفیر کو اپنے گھر رات کے کھانے پر دعوت دی جس پرمسٹر بھٹو نے سختی سے نوٹس لیا کہ آرمی ہاؤس میں وزارت خارجہ کی پیشگی اجازت کے بغیر غیر ملکی سفارتکار کی دعوت حکومت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہوسکتا ہے۔ جبکہ امریکہ نے ایک بار پھر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے گفتگو کے لیے رابطے کیے کیوں کہ اپریل کے آخری حصے میں پی این اے کی تحریک نے طوالت کی وجہ سے دم توڑنا شروع کر دیا تھا۔ اپریل میں لاہور ، حیدر آباد اور کراچی میں مارشل لاء کے نفاذ نے بھی بھٹو حکومت کی ساکھ کو متاثر کیا۔ پھر مئی کے شروع میں لاہور چھاؤنی کے ایک بڑے فوجی میس میں مسٹر بھٹو اور فوج کے اعلی افسروں کا اجلاس ہوا جس میں بھٹو پر یہ دباؤ ڈالا گیا کہ وہ مارشل لاء کو مزید پھیلا دیں۔ سازش کے اندرونی مہروں نے تو جو کردار ادا کیا وہ اپنی جگہ لیکن غیر ملکی مداخلت نے مسٹر بھٹو کو ’’عبرتناک مثال‘‘ بنانے کے اقدامات تیزی سے اٹھانے شروع کر دیئے۔

28ا پریل 1977ء کو مسٹر بھٹو نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں باقاعدہ طور پر غیر ملکی سازش پر بھرپور خیالات کا اظہار کیا۔ جبکہ حکومت نے پچاس صفحات پر مشتمل غیر ملکی سازش کے تحت پاکستان میں کی جانے والی مداخلت پر ایک تفصیلی رپورٹ بھی لکھی۔ 28اپریل کو امریکی وزیر خارجہ سائرس وانس نے مسٹر بھٹوکو مذاکرات کے لیے ایک خط بھی لکھا جس کے بعد نئے رابطوں کے لیے تیاری شروع کر دی گئی۔ وزیر خارجہ عزیز احمد ، امریکی وزیر خارجہ سائرس وانس سے مذاکرات کے لیے مئی میں پیرس روانہ ہوئے، ان کے پاس پچاس صفحات پر مشتمل حکومت پاکستان کی وہ اہم رپورٹ بھی موجود تھی جس میں امریکہ کے پاکستانی سیاست میں مداخلت کے ثبوت موجود تھے۔ لیکن مذاکرات سے پہلے عزیز احمد کے کمرے سے یہ رپورٹ چوری کروالی گئی۔ 9 مئی کو پاکستان میں مختلف شعبوں میں کام کرنے والے امریکی ماہرین نے کام کرنا بند کر دیا۔ 30اپریل کوپی این اے نے پہیہ جام کی اپیل کی، اس پر مسٹر بھٹو نے واضح الفاظ میں کہاکہ ہمیں علم ہے یہ پلان کدھر سے لایا گیا ہے۔ یہ اصطلاح سراسر غیر ملکی اصطلاح ہے۔ بالکل اسی طرح سی آئی اے نے چلی میں (امریکہ مخالف منتخب سوشلسٹ لیڈر الاندے کے خلاف) پہیہ جام کی ہڑتال کو پلان کر کے کامیاب کروایا تھا جس میں ٹرانسپورٹ کی ہڑتال اہم ترین عنصر تھا۔ انہی دنوں 6 مئی کو امریکی صدر جمی کارٹر نے سات ترقی یافتہ ممالک کی کانفرنس میں فرانس کے صدر جسکارڈ سے ملاقات کے دوران ، فرانسیسی صدر پر دباؤ ڈالا کہ وہ پاکستان کو دیئے جانے والے ایٹمی پلانٹ کے سودے کو منسوخ کر دیں۔ دونوں سربراہوں کے درمیان طے پایا کہ ایک اور ملاقات 9 مئی کو کی جائے گی اور یوں 9 مئی کو معاہدہ منسوخ کر دیا جائے گا اور فرانس کے نقصانات پورے کر دیئے جائیں گے۔ حکمت عملی کے مطابق سرکاری طور پر فرانس معاہدہ منسوخ نہیں کرے گا بلکہ سرکاری طور پر مناسب وقت پر معاہدے کے خاتمے کا اعلان کیا جائے گا۔

8 مئی 1977ء کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ 18 اپریل کو امریکی سفیر کے ساتھ تیسری اور آخری ملاقات کرکے پاکستان میں ہونے والی امریکی مداخلت پر بات کر چکے ہیں۔ اسی دوران امریکہ نے پاکستان کی اقتصادی اور دیگر امداد روک دی جبکہ پاکستان کو اقتصادی امداد دینے والے کنسور شیم نے بھی امداد دینے کا فیصلہ 26 جولائی تک ملتوی کر دیا۔ مئی کے مہینے میں پاکستان میں امریکہ کے ایک سابق سفیر نے پاکستان کا خفیہ دورہ کر کے اپوزیشن کے متعدد رہنماؤں سے خفیہ ملاقاتیں کیں۔ 23 مئی کو صدر کارٹر نے پاکستان کا مجوزہ دورہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور بھارتی وزیراعظم مرارجی ڈیسائی کو پیغام بھیجا کہ وہ پاکستان کی بجائے جلد ہی بھارت کا دورہ کریں گے۔ 3 جون 1977ء کو امریکی دفتر خارجہ کے نمائندے نے سرکاری طور پر اعلان کیا کہ پاکستان کو جدید امریکی طیارے اے سیون فروخت نہیں کیے جائیں گے۔ ان اقدامات کا مقصد ’’آپریشن فیئر پلے ‘‘ کو کامیاب کرنا تھا۔

20 جون کو ذوالفقار علی بھٹو نے ابوظہبی ٹیلی ویژن پر ایک انٹرویو کے دوران دوبارہ اس بات کا اعادہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تیسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی جائے۔ 21 جون کو امریکی صدر کی رہائش وائٹ ہاؤس کے ایک اہم رکن چارلس ردکیف کا ایک خط شائع ہوا جس میں انہوں نے ناجائز منشیات کے امور اور صحت کے ڈائریکٹر پیٹرپورن کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ وزیر اعظم بھٹو چند دن کے مہمان ہیں اور میری اس رائے کو امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ اس خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ مسٹر بھٹو کے جانے کے بعد پاکستان سے آنیوالی منشیات کی روک تھام کے منصوبوں کو سخت نقصان پہنچے گا۔ جون کے وسط میں حکومت اور پی این اے کے درمیان اصولی طور پر معاہدہ ہوچکا تھا۔ لیکن پی این اے میں شامل اصغر خان اور بیگم نسیم ولی خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا شروع کر دیا۔ نئے مطالبات کے ساتھ تحریک کے دوبارہ آغاز کا اعلان کیا گیا۔ بیگم نسیم ولی خان نے چادر پھیلا کر مارشل لاء کے لیے دعائیں بھی کیں جبکہ اس سے قبل اصغر خان نے تینوں مسلح افواج کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے خط بھی لکھا۔ نہایت ہوشیاری سے 28 اپریل کو جنرل ضیاالحق کی قیادت میں حکومت سے وفا داری جتلانے کے لیے تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا۔ جون کے وسط میں پی این اے سے مذاکرات کو نقصان پہنچنے کے عمل کے دوران مسٹر بھٹو ہنگامی طور پر عرب ممالک کے دورے پر روانہ ہوئے تاکہ امریکی منصوبوں اور سازش سے دوست ممالک کو آگاہ کیاجاسکے۔

چند ایک اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اسی دوران وزیراعظم بھٹو نے جنرل امتیاز کو خفیہ طور پر کابل روانہ کیا جہاں انہوں نے سابق سوویت یونین کے حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں تاکہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں پاک سوویت تعلقات کو نئے انداز سے پرکھا جائے۔ مگر نام نہاد آپریشن فئیر پلے اب عملی اقدام کا منتظر تھا۔ یہ کوئی نچلی سطح کی فوجی بغاوت نہیں تھی۔ چند جرنیلوں کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں تھا۔ حتیٰ کہ چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل عبداللہ ملک کو بھی آگا ہ نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ خود ضیاالحق کے بقول آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل جیلانی کو بھی جنرل ضیا نے فون پر آپریشن کی اطلاع کی تھی۔ ایک مصدقہ اطلاع کے مطابق جن اعلیٰ فوجی افسروں کو 5 جولائی کے آپریشن کا علم تھا وہ درج ذیل ہیں: جنرل ضیاالحق، لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی ، میجر جنرل کے ایم عارف ، میجر جنرل ریاض خان ، بریگیڈیئر امتیاز۔ اس کے علاوہ چند ایک دوسرے افسران بھی تھے جن کا تعلق پنڈی کور سے تھا۔ 4 جولائی 1977ء کو شام کے وقت امریکی سفارتخانے میں امریکہ کے قومی دن کے موقع پر چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل ضیاالحق وردی میں تقریب میں شا مل ہوئے۔ (قارئین مزید تفصیلات جاننے کے لیے پڑھیے راقم کی کتاب ’’میرا لہو، ذوالفقار علی بھٹو، سیاست و شہادت‘‘۔)

5 جولائی 1977ء کے بعد ایک نیا پاکستان ابھرا، جس میں آمریت نے ریاست کو مزید امریکی چنگل میں داخل کرتے ہوئے وہ پاکستان بنایا جو آج ہمارے سامنے ہے۔ قتل وغارت ، لاقانونیت ، مذہبی انتہا پسندی سے مذہبی اور لسانی دہشت گردی، تقسیم در تقسیم کا عمل، فرقوں اور قوموں میں تقسیم، ایک کمزور ریاست اور طاقتور مسلح گروہ۔ ایک ایسا سماج ابھرا 5جولائی1977ء کے بعد۔ پاکستان کیسا ابھرا، یہ کوئی مشکل سوال نہیں، آپ دیکھ ہی سکتے ہیں وہ پاکستان۔ ہر طرف بکھرتا سماج اور بکھرتی ریاست کا منظر نامہ ہے۔ وہ شخص جس نے اسلام کا سہارا لے کر پوری قوم کے سامنے یہ عہد کیا کہ وہ اگلے تین ماہ انتخابات منعقد کروانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرے گا۔ اس نے وہ سب کچھ کیا۔ اس عوام کے سامنے قرآن کریم کی آیاتِ مقدسہ پڑھتے ہوئے عہد شکنی کی۔

مختصر الفاظ میں، آج کا پاکستان جنرل ضیاالحق کا پاکستان ہے۔ 5جولائی1977ء کی آمریت کی کوکھ سے جبراً پیدا کیا گیا، جہاں مسلح گروہ معصوم بچوں کو سکولوں اور پارکوں میں داخل ہو کر قتل کرتے ہیں اور پاکستان کی ریاست کو گرانے کے در پے ہیں، جس کی بنیاد قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے رکھی۔ وہ اس ریاست کو گرانا چاہتے ہیں جس ریاست کا مفکر حضرت علامہ اقبال جیسا فلسفی تھا۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت کے بطن سے جنم لینے والے یہ دہشت گرد اس پاکستان کو زیر کرنے کے در پے ہیں جو اقبالؒ اور جناحؒ کا پاکستان ہے۔

بشکریہ: کارواں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).