ضیا آمریت کی اصل باقیات


ضیا الحق کی جانب سے پانچ جولائی 1977ء کو لگائے گئے مارشل لا کو آج چالیس برس گزر چکے ہیں۔

کہنے کو تو اب ملک میں جمہوریت رائج ہے لیکن آج بھی ضیا دور میں اٹھائے گئے بعض اقدامات جوں کے توں ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی عوام اس کے آسیب سے جان چھڑانے میں ناکام رہی ہے۔

ترقی پسند اور نظرئیے کی سیاست کا خاتمہ

ستر کی دہائی تک پاکستان بھر میں بائیں بازو کی سیاست اپنے عروج پر تھی۔ پیپلز پارٹی، کسان کانفرنس، نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی شکل میں ہر طبقے اور عمر کے شہری کسی نہ کسی طرح سیاسی نظام میں شریک تھے۔

تاہم پھر ضیا آمریت کے زیر سایہ غیر جماعتی انتخابات کا ڈول ڈالا گیا جس سے بائیں بازو اور نظرئیے کی سیاست کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ صورتحال اب بھی کسی نہ کسی شکل میں برقرار ہے اور آج نظریات کی لڑائی پیسے کے بل بوتے پر حصول اقتدار کی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔

فرقہ واریت کا فروغ

پاکستان میں شعیہ سنی اختلاف کو فروغ دینے میں ضیا کی آمریت اور اس کے زیر سایہ افغان جہاد نے خصوصی کردار ادا کیا۔ آج زیادہ تر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اس عفریت کی نشوونما میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا سنی عسکریت پسندوں سے گٹھ جوڑ اہم رہا ہے۔

اسی کی دہائی کے آغاز میں ضیا آمریت کا شیعہ برادری کو خمس ٹیکس کی ادائیگی کے باوجود زکوٰۃ کی ادائیگی پر مجبور کرنا اور پھر 1985 میں مولانا حق نواز جھنگوی کی قیادت میں انمجن سپاہ صحابہ کی تشکیل نے اس تقسیم کو اور بھی بڑھا دیا۔

اس آگ سے پیدا ہونے والی چنگاریاں اب بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہیں لیکن ریاست آج بھی اس مسئلے سے چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہے۔

فنون لطیفہ کی اسلامائزیشن

ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھارت میں جمہوریت کا سفر بغیر کسی تعطل کے جاری رہا جس کی وجہ سے فنون لطیفہ کے ارتقاء میں بھی کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تاہم پاکستانی فنکاروں کے لئے دیگر مشکلات کے ساتھ ساتھ سیاسی اتار چڑھاؤ اور مذہبی انتہا پسندی نے بھی رکاوٹیں کھڑی کیں۔

سیاسی عدم استحکام، آمریت کی پابندیوں اور فرقہ واریت سے پیدا ہونے والی کشیدگی اور عدم تحفظ کے احساس نے سب سے زیادہ نقصان اسی شعبے کو پہنچایا تھا۔ آج بھی فائن آرٹس اور ادب کی دنیا ان اثرات کے طفیل دو واضح دھڑوں میں بٹی نظر آتی ہے اور نئی نسل کا غالب حصہ فنون لطیفہ کو مذہبی عینک اتارے بغیر دیکھنے سے قاصر نظر آتا ہے۔

طلبہ یونین پر پابندی

ضیا آمریت کی جانب سے طلبہ یونین پر لگائی گئی پابندیاں آج بھی نافذ العمل ہیں جس کی وجہ سے طلبہ کی بڑی تعداد سیاست اور سیاستدانوں سے بدظن اور بیزار نظر آتی ہے۔

آج اگر ہم حقیقی سیاسی قیادت سے محروم ہیں تو اس کی ایک وجہ تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست پر عائد پابندی بھی ہے اب ہر سیاسی جماعت اور خاص طور پر جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ نے تعلیمی اداروں میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے تشدد اور لڑائی جھگڑے معمول بن چکے ہیں۔

اگر تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہونے والی مداخلت کو روک کر طلبہ کو خود اپنی قیادت چننے کا موقع دیا جائے تو نہ صرف بلدیاتی سطح پر نوجوان قیادت سامنے آئے گی بلکہ سیاسی جماعتوں میں بھی موروثیت کی حوصلہ شکنی کی جا سکے گی۔

تاریخ اور تعلیمی نصاب کا استحصال

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں نصاب کو سیکھنے کے مرحلے کے طور پر بچوں کے اندر چھپے ٹیلنٹ کو باہر لانے والا ایک مثبت ذریعہ مانا جاتا ہے۔

تاہم پاکستان میں زیادہ تر حکومتوں نے نصاب کو بچوں میں مخصوص نظریات کو راسخ کرنے کے لیے استعمال کیا اور یہ کام سب سے زیادہ جوش و جذبے سے ضیا دور میں انجام پایا۔

اس دور میں زبانوں، اسلامیات، سوشل اسٹڈیز یہاں تک کہ سائنس میں بھی ایسا مواد شامل کیا گیا کہ بچوں میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ترتیب دیا جا سکے۔

ری تھنک ایجوکیشن: کرٹیکل ڈسکورس اینڈ سوسائٹی کے عنوان سے کتاب کے مصنف اور ماہر تعلیم خادم حسین کے مطابق اس حکمت عملی کے تحت تحقیق کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے چار بنیادی نظریات نصاب میں شامل کیے گئے۔

اول جنگ اور جنگی ہیروز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔ دوئم دیگر مذاہب، اقوام، ممالک اور نسلوں کو برا بنا کر پیش کرنا۔ سوئم، خواتین کو سماجی، سیاسی اور تعلیمی میدان میں شرکت کے لیے کم اہل سمجھنا۔ چہارم، تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرنا اور وہ مقامی غیر مسلم تہذیبیں یا شخصیات جو اپنی دانش، سیاسی قابلیت اور سماجی کامیابیوں کی وجہ سے جانی جاتی تھیں انہیں نظرانداز کرنا۔

ہمارے سکولوں میں رائج نصاب اب بھی انہی اصولوں پر مبنی نظر آتا ہے جبکہ جمہوری نظام اور سیاسی قیادت اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے دیگر مسائل میں الجھی نظر آتی ہے۔

نعیم احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعیم احمد

نعیم احمد ماس کمیونکیشن میں ایم ایس سی کر چکے ہیں۔ سیاسی اور سماجی موضوعات پر لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔

naeem-ahmad has 9 posts and counting.See all posts by naeem-ahmad