مریم نواز اکیلی خاتون نہیں ہیں


جب پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو پانچ جولائی کو پیشی کا حکم دیا تو پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں نے اس بلاوے پر تنقید کی بوچھاڑ کر دی۔

کسی رہنما نے اس پیشی کو حق اور باطل کی جنگ قرار دیا تو کسی نے اس اقدام کو شرمناک قرار دیا کہ مردوں پر مشتمل ایک کمیٹی میں ایک تنہا عورت کو بلایا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی اسی پیشی کا چرچا رہا اور مریم نواز کو لیگی کارکنان قوم کی بیٹی کی حیثیت سے یاد کر رہے ہیں۔ مریم نواز نے خود اپنی ٹویٹس میں کہا کہ انھوں نے والد سے مشکل حالات کا سامنا کرنے کی تربیت حاصل کی ہے اور وہ پیش قدمی سے جے آئی ٹی کا سامنا کر رہی ہیں۔

اس پیشی کے تناظر میں بی بی سی اردو نے ان پاکستانی خواتین سیاسی و سماجی رہنماؤں کا جائزہ لیا ہے جنھوں نے ماضی میں عدالتوں کا سامنا کیا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد جب بانیِ پاکستان محمد علی جناح اپنی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ پاکستان آگئے تو ان کی تمام جائیداد انڈیا میں رہ گئی تھی۔ 1948 میں محمد علی جناح کی وفات کے بعد گزٹ آف پاکستان میں شائع ہونے والے ضمیمے میں فاطمہ جناح کو ان کا وارث قرار دیا گیا تھا۔

1951 میں فاطمہ جناح نے ڈان اخبار کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں پیٹیشن درج کرائی تھی لیکن وہ اس بنیاد پر کیس نہیں جیت سکیں کہ تقسیم سے قبل دلی سے شائع ہونے والا ڈان اخبار محمد علی جناح کی ملکیت تھا اور کراچی سے شائع ہونے والا اخبار ہارون خاندان کی ملکیت تھا۔

معروف سکالر خالد احمد نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ فاطمہ جناح نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے ساتھ مشترکہ حلف نامہ سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرایا جس میں انھوں نے قائد اعظم کو شیعہ خوجہ قرار دیا اور عدالت سے التماس کی کہ ان کی جائیداد شیعہ قوانین کے تحت وارثوں کو دی جائے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ اور بےنظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو نے ستمبر 1977 میں اپنے شوہر کی فوجی آمر ضیا الحق کی حکومت کے ہاتھوں حراست اور مارشل لا کے نفاذ کے خلاف سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر کی۔

اپنی درخواست میں بیگم نصرت بھٹو نے ضیا الحق کے مارشل لا کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست کی اور ساتھ ساتھ اپنے شوہر کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔

20 ستمبر کو جس دن بیگم نصرت بھٹو نے یہ درخواست دائر کی تھی اسی دن فوجی حکومت نے سپریم کورٹ کے حاضر چیف جسٹس یعقوب علی خان کو تبدیل کر کے انوار الحق کو ان کی جگہ تعینات کر دیا جنھوں نے اس درخواست کو عدالت میں داخل کر لیا اور 10 نومبر کو متعدد سماعتوں کے بعد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نظریہ ضرورت کے تحت ضیاالحق کے مارشل لا کو قانونی قرار دے دیا۔

اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بےنظیر بھٹو نے بھی فوجی حکومت کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی۔ اپنے والد کی قید کے دوران بےنظیر بھٹو کو کئی دفعہ نظر بند کیا گیا تھا لیکن 1983 میں وہ پہلی دفعہ فوجی عدالت کے سامنے پیش ہوئیں جب انھیں بائیں بازو کے سندھی رہنما جام ساقی کے خلاف حکومت کی جانب سے درج کیے گئے مقدمے میں پیش ہونا پڑا۔

بےنظیر بھٹو کے قریبی ساتھی بشیر ریاض نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بےنظیر بھٹو نے مختلف مقدموں میں متعدد بار عدالتوں کا سامنا کیا۔ انھوں نے بتایا کہ بےنظیر بھٹو کی پہلی حکومت کرپشن کے الزامات کی وجہ سے ختم کر دی گئی جس کے بعد انھیں سندھ ہائی کورٹ میں جواب دہی کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ بشیر ریاض نے بتایا کہ اسی دوران ان پر پنجاب ہائی کورٹ میں بھی کرپشن کے مقدمے میں طلب کیا گیا۔

1996 میں بےنظیر بھٹو کو ایک بار پھر عدالت کا رخ کرنا پڑا جب ستمبر کے مہینے میں ان کے بھائی مرتضی بھٹو کو ایک پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کی وزیر اعظم بےنظیر بھٹو نے عدالتی کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنے بیانات قلم بند کرائے۔

1971 میں عاصمہ جہانگیر جیلانی نے اپنے والد ملک غلام جیلانی کی مارشل لا حکومت کے تحت حراست کو پنجاب ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جسے ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ کیونکہ یہ حراست مارشل لا ضوابط کے تحت ہوئی ہے وہ اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتی۔

اس کے بعد عاصمہ جہانگیر جیلانی نے سپریم کورٹ میں اپنی درخواست جمع کرائی جس میں انھوں نے یہ دلیل پیش کی کہ ملک کا آئین سب سے مقدم ہے جس کے تحت مارشل لا اور آمر یحییٰ خان کی حکومت غیر قانونی ہے۔

عاصمہ جہانگیر جیلانی کی اس درخواست نے ملک میں جمہوریت کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

1999 میں جب فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹا تو نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز نے اپنے میاں اور اپنے بیٹے حسین نواز کی حمایت میں عدالت کا رخ کیا۔

دسمبر 1999 میں انھوں نے اپنی بہو اور حسین نواز کی بیوی کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ انھیں اپنے خاندان کے گرفتار مردوں سے ملنے کی اجازت دی جائے جنھیں 12 اکتوبر سے حراست میں لیا گیا تھا۔

1990 میں آئی جے آئی کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی کو ان کے والد عثمان فاروقی اور والدہ انیسہ فاروقی کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تاہم ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔

پیپلز پارٹی کی رہنما اور سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر سیدہ شہلا رضا نے ٹویٹ کی کہ ‘مریم صاحبہ میرے والد کے چہرے کی تشویش محسوس کیجیے۔۔۔’، اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنی 1985 کی تصویر بھی شیئر کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘مریم آپ تو ایک خاتون ہیں آپ کے ساتھ لیڈی پولیس ہوگی میرے ساتھ کیوں نہیں تھی، 21 سال کی طالبہ۔’

(عابد حسین)

اس سیریز کے دیگر حصےعاصمہ جہانگیر: آج کی کالی بھیڑ۔۔۔ 2050ء کی ہیرو!بیٹے بیٹی میں فرق نہ کریں: عاصمہ جہانگیر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp