آئیں اپنے اپنے ایم این ایز اور ایم پیز کو بیچ دیں


پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو چار سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے مگر جس تبدیلی کی عوام توقع کر رہے تھے وہ تبدیلی انہیں کسی بھی ضلع میں نہیں ملی جس کی بنیادی وجہ پارٹی کے اندر اختلافات اور ان کے لیڈرکے یوٹرن ہیں جس کے لئے وہ مشہور ہیں۔ الیکشن 2013 سے پہلے انٹرا پارٹی الیکشن میں منظور نظر افراد کو آگے کیا گیا پھر الیکشن میں بہت سے علاقوں میں پارٹی ورکرز کو نظر انداز کیا گیا۔ پھر جب بلدیاتی انتخابات کی باری آئی تو وہی روش اپنائی گئی اور ان لوگوں کو ٹکٹ دیے گئے جن کا پارٹی سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں تھا یا پھر دوسرے امیدواروں کو سپورٹ کیا گیا۔ اور جب ان کو کامیابی ملی تو ایم پی اے اور ایم این اے صاحبان علاقے ہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ تو اب چار سال گزرنے کے بعد ذہن میں ویسے یہ سوچ پروان چڑھی کہ کیوں نہ او ایل ایکس ڈاٹ کام پر ان حضرات کو بیچ دیا جائے کیونکہ جو چیز ایکسٹرا یا ناقابل استعمال ہوجاتی ہے اسے پھر عوام اس ویب سائیٹ پر بیچ دیتے ہیں

مجھے یاد پڑتا ہے کہ ضلع کرک میں بھی اسی طرح انٹر اپارٹی، الیکشن 2013 اور پھر بلدیاتی انتخابات میں وہی کچھ کیا گیا جس کی تبدیلی والی سرکار سے امید تھی، ملک بھر کی طرح پیسوں والے اور کرپٹ افراد کو مسلط کیا گیا۔ ضلع کرک میں بھی یہی کیا گیا جن کے بارے میں کرک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ کرپشن کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ ان کو فوقیت دی گئی ہمارے علاقے کے ایک شخص کو بہت مشکل سے ایم این اے کی سیٹ نصیب ہوئی جس کو ناصر خان کے نام سے جانا جاتا ہے ہم نے ناصر خان کو الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد صرف ایک مرتبہ اپنے گاؤں میں دیکھا ہے باقی وہ گمشدہ ہی رہتے ہیں جس کے خلاف اہالیان علاقہ نے کئی بار اخبارات میں اشتہارات بھی لگائے کہ ایم این اے گمشدہ ہوگئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ایم پی اے صاحب جو گل صاحب خان کے نام سے مشہور ہیں اس شخصیت کو تو ہم نے اپنے علاقے میں نہ ہی دیکھا اور نہ ہی سُنا ہے کیونکہ زیادہ تر وہ یا تو کوہاٹ میں ہوتے ہیں یا پھر پشاور یا پھر اپنے گھر کرک میں اپنے بھائی ڈاکٹر عمردراز خان کے پاس جو کہ خیر سے اس تبدیلی والی سرکار کی بدولت ضلع کرک کے بے تاج بادشا ہ بن گئے یعنی موصوف ضلعی ناظم ہیں۔ اور اس کے والد جو چیف ساب کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی اتنی دھاک ہے کہ بیٹوں کی بجائے وہ سارا نظام چلاتے ہیں۔ ایس ایچ او اور پولیس سمیت دیگر تبادلے اسی کے ایما پر ہوتے ہیں۔

ان کی کارکردگی کے بارے میں اگر لکھا جائے تو وہ صفر سے بھی کم ہوگا۔ مانتے ہیں کہ کچھ کام ہوئے ہیں اگر وہ کوئی اور ایم پی اے ایم این اے ہوتا وہ بھی یہ تھوڑے بہت کام تو لازمی کرتا، کیونکہ ان صاحبان کے ہرکارے پھر کام گننا شروع کردیتے ہیں کہ یہ یہ کام ہم نےکیے ہیں جس طرح خان صاحب کے کام کو ان کے وزرا ءمیڈیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کام کیے ہیں جب بات لوڈشیڈنگ یا دوسرے مسائل کی آتی ہے تو ہمارے لیڈر صاحبان عوام کو الو بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے خلاف ہم احتجاج کریں گے، پیسکو کو آگ لگادیں گے، وفاق خیبر پختونخوا کو ان کا حق دے ورنہ دھرنا دیں گے ہسپتال میں سٹریچر نہیں ہے تو ڈاکٹر ز کو ہسپتال سے باہر پھینک دیں گے اس قسم کے بیانات سے عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ طاقت میں ہوتے ہوئے بھی وہ کمزور بیانات دے کر اپنا مورال ڈاؤن کر دیتے ہیں۔ بات ہورہی تھی ایم این اے ناصر خان کی جس کو پتہ ہے کہ تحصیل بانڈہ داؤ شاہ کا ہر دور میں استحصال ہوا ہے اور کسی نے بھی اس علاقے میں ترقیاتی کام نہیں کیے کیونکہ جتنے بھی ایم این اے گزرے ہیں وہ کرک سے تعلق رکھنے والے تھے۔ آنا تو دور کی بات ہے کرک کے ایم این اے اور ایم پی اے تحصیل بانڈہ داؤ دشاہ کی جانب بالکل نظر ہی نہیں ڈالتے۔ ۔ ناصر خان کو اس بات کا پتہ بھی تھا مگر انہوں نے الیکشن کے بعد انکھیں بند کرلیں اور پشاور ہی کے ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے اپنے کارخانے اور میڈیکل کالج میں میگا منصوبوں کے بارے میں سوچنے میں یہ وقت گزار لیا۔ عمران خان سے دغابازی کی اور اپنی قوم سے بھی دغا کی۔ ہمارے ایم این اے نے مول کے چراغ سے علاقے کے لئے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جو اس علاقے کا حق ہے جبکہ علاقے کے عوام گیس کے کم پریشر کی وجہ سے سڑکوں پر آگئے ہیں ان کو دوبارہ پرانے دور میں دھکیل دیا گیا ہے اور وہ اب پھر سے لکڑیاں جلانے پر مجبور ہیں۔

گیس جو کہ علاقے کی پیدوار ہے یہاں سے اربوں روپے کی گیس نکالی جاتی ہے مگر بدقسمتی سے کوئی بھی رقم اس علاقے پر نہیں لگی۔ گزشتہ دس سالوں میں ضلع کرک کے حصے میں بیس ارب سے زیادہ روپے آئے مگر یہ فنڈ کہاں خرچ ہوا اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں علاقے کا ایم این اے رائلٹی کا انچارج ہوتا ہے مگر ایم این اے صاحبان نے کچھ بھی علاقے کی فلاح کے لئے نہیں کیا، ناصر خان صاحب گیس کے مسئلے سے آپ باخبر ہیں آپ تک رسائی بھی کی گئی تھی مگر آپ کا کوئی جواب نہیں آیا علاقے کے لوگوں نے اپنے طور پر کوشش کی مول کمپنی سے الجھ گئے سی این جی پی ایل سے گھتم گتھا ہوگئے۔ پولیس تک بات گئی علاقے کے لوگوں پر ایف آئی آر درج ہوئے اور پھر کہا گیا کہ مسئلہ حل ہوجائے گا اور گیس کا پریشر ٹھیک ہو جائے گا مگر مول کمپنی کی ہٹ دھرمی ابھی تک جاری ہے اور گیس کا پریشر کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔

اب عوام ناصر خان کے پاس مسائل بھی نہیں لے کر جاتے کیونکہ وہ ملتے جو نہیں ہیں جبکہ ایم پی اے صاحب تو اپنی دشمنی میاں نثار گل کاکا خیل سے نکالنے میں مصروف ہیں اور ہم ان کی حکومتی کارکرگی دیکھیں توتحصیل بانڈہ داؤ دشاہ کے مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ ایم این اے صاحب اور ایم پی اے صاحب آپ دونوں نے علاقے کا کوئی بھی مسئلہ حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آپ کو ضلع کرک میں ریکارڈ ووٹ اس لئے نہیں دیے گئے تھے کہ آپ پشاور یا کرک میں بیٹھ جاؤ۔ ہم نے سوچا تھا کہ اب تحصیل بانڈہ داؤ دشاہ کی قسمت جاگ جائے گی کیونکہ تبدیلی کے نام پر ووٹ ملا تھا۔ گل صاحب خان اور ناصر خان صاحب مجھے افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ آپ دونوں نے علاقے کی ترقی کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔ آپ لوگوں کے رویئے کے باعث تحریک انصاف اپنی مقبولیت کھوتی جارہی ہے۔ شاید ہی اس حلقے سے دوبارہ پی ٹی آئی کو کوئی بھی سیٹ ملے آپ دونوں کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے اور عوام کی نظر میں آپ دونوں اب قابل استعمال اور قابل بھروسہ نہیں رہے ہو اور جب کوئی چیز قابل استعمال یا قابل بھروسہ نہیں رہتی یا ایکسٹر ہو جاتی ہے تو اسے آج کل olxپر بیچ دیا جاتا ہے۔ تو اہالیان تحصیل بانڈہ داؤد شاہ کی نظر میں بھی آپ لوگ استعمال کے قابل نہیں ہویعنی ایکسٹرا ہوگئے ہو تو اب اپ دونوں کو فروخت کرنے کا حق تو بنتا ہے۔ اسی طرح بہت سے دیگر علاقے کے لوگوں کے ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان بھی ایکسٹرا ہوگئے ہیں جو الیکشن کے بعد اپنے علاقے میں گئے ہی نہیں ہیں۔ اب آنے والے الیکشن میں عوام کو ان کے چہروں کی دید نصیب ہوگی۔ کرک کی طرح میری گزارش ہے کہ سب اضلاع والے اکٹھے ہوکر اپنے ایم این اے اورایم پی اے صاحبان کو بیچ ڈالیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).