مصطفی زیدی اور شہناز کیس، دوسرا پہلو


سیانوں کے مطابق مصطفیٰ زیدی کیس پاکستانی میڈیا کا پہلا چٹپٹا سکینڈل تھا۔ آزاد یا شتر بے مہار میڈیا کیا ہوتا ہے، اس کی جھلک لوگوں کے گھروں تک بارہ اکتوبر ستر کے بعد ایسی تیزی سے آئی کہ بعض لوگوں نے اخبار گھر لانے ہی چھوڑ دیے۔ مصطفیٰ زیدی بلاشبہ اعلی شاعر تھے، ایک اچھے سول سروس افسر تھے جنہیں بیسک ڈیموکریسی کے محکمے سے مئی 1970 میں فارغ خطی ملی۔ یحیی خان کے تھری ناٹ تھری نادر شاہی حکم کی زد میں آنے والے تین سو تین افسروں میں سے ایک یہ بھی تھے۔ یہ موت کی طرف ان کا پانچواں قدم تھا جو آخری ثابت ہوا۔

مصطفیٰ زیدی ایک پیچیدہ شخصیت تھے۔ جذباتی آدمی تھے، کئی محبتیں کیں، جہاں کامیاب ہوئے ہو گئے، جہاں نہ ہوئے وہاں خود کشی کرنے کی کوشش کر لیا کرتے تھے۔ ان کی دیگر تین کوششیں جو مختلف مراحل عشق میں ناکامی کے بعد کی گئیں ”مصطفیٰ زیدی شخصیت اور شاعری“ نامی کتاب میں دیکھی جا سکتی ہیں، پندرہ اکتوبر 1970 کے اخبارات میں بھی کافی تفصیل موجود ہے۔ چوتھی کوشش تبھی کی جب یحیی خان حکومت کی طرف سے کرپشن کے الزام میں برطرف ہوئے، اس میں بھی بچ گئے۔ پانچویں کوشش کامیاب ہوئی، اس دفعہ وہ کراچی میں تھے اور ان کے ساتھ ایک خاتون شہناز سلیم گل موجود تھیں۔

دسمبر 69 میں جب انہیں معطل کیا گیا تب سے لے کر خود کشی والے دن تک وہ ذہنی طور پر شدید منتشر تھے۔ کچھ جنسی ناآسودگیوں والا معاملہ بھی تھا، جوش صاحب اور فراق صاحب کے شاگرد تھے، ہر جذبہ منہ زور تھا اور کثیر جہتی تھا، لڑکپن میں تخلص بھی تیغ الہ آبادی رکھا جس پر بعد میں باقاعدہ وضاحت دی۔ شہر آذر کے دیباچے میں لکھتے ہیں، ”اس تخلص کی قصابیت کو میں نے بچپن کی غلطیوں میں شامل کر رکھا تھا۔ “ آخری کتاب کوہ ندا میں انہوں نے واضح طور پر لکھا کہ اس کے بعد ان کی مزید کوئی کتاب نہیں آئے گی، یہ شاید ایک لاشعوری یا شعوری اشارہ تھا۔ موت سے چند ماہ پہلے چھپنے والی شاعری کی یہ کتاب اپنے دیباچے میں ہی واضح کر دیتی ہے کہ بھئی بندہ مایوس ہے اور کچھ بھی کر سکتا ہے۔ وہ خود کو ان فٹ محسوس کرتے تھے، ان کے خیال میں ان کی شاعری کو مناسب پذیرائی نہیں ملتی تھی، نقادوں کی بے توجہی سے وہ پریشان تھے، سرکاری محفل میں وہ تفریح کا ذریعہ تھے اور شاعروں میں انہیں سرکاری افسر کے طور پر گنا جاتا تھا، فوٹو گرافر اعلی پائے کے تھے لیکن اس کی بھی کوئی ویلیو نہیں تھی، پائلٹ رہے تو ایک جہاز کریش کرنے کے بعد اس میدان سے بھی باہر ہو گئے۔ کل ملا کے زندہ رہنے کے لیے کوئی خاص جذبہ ان کی تحریروں میں نظر نہیں آتا تھا۔

اپنے دوستوں کے نام جو خطوط انہوں نے آخری دنوں میں لکھے ان میں سامنے کی بات یہ تھی کہ وہ ویلیم اور لبریم وغیرہ جیسی سکون آور دوائیں لے رہے ہیں ورنہ پریشانیوں پر قابو پانا ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ پھر شہناز گل کے پیچھے بھی وہ ہاتھ دھو کے پڑے ہوئے تھے، ان کی شاعری ان کے قریبی عزیزوں کے بیانات، سب کچھ یہی دکھاتے تھے۔ یہاں تک ہوا کہ شہناز گل کسی کاروباری دورے پر باہر جانے لگیں تو یہ انہیں سی آف کرنے اپنے تعلقات کے زور پر جہاز کے اندر تک گئے جب کہ ان کے شوہر باہر لاؤنج میں موجود تھے۔ چند دوسرے الزام بھی مصطفیٰ زیدی پر لگائے گئے جیسے تصاویر سے بلیک میلنگ وغیرہ لیکن اس وقت کے اخباروں نے کوئی توجہ نہیں دی۔

یہ کیس ہماری ذہنیت کا ایک لٹمس ٹیسٹ تھا۔ ان خاتون کی بڑی بڑی تصویریں اخباروں میں چھپیں، کبھی ان کے تعلقات دوسرے مردوں سے گنوائے گئے، کبھی کہا گیا کہ وہ اسمگلر تھیں اور کسی گینگ سے وابستہ تھیں، دوسری مرتبہ زیدی صاحب کا پوسٹ مارٹم ہوا تو قتل کے شبہات پیدا ہوئے، وہ بھی انہیں پر آئے، پہلی شک کی ملزم وہی تھیں۔ اخبار روز اس سکینڈل سے متعلق چٹپٹی خبریں شائع کرتے، شہناز گل کی نت نئی تصویریں کھینچی جاتیں یا ڈھونڈی جاتیں، لوگ باقاعدہ انگلیاں اٹھا کے اشارے کیا کرتے۔ عدالت نے انہیں کوئی ثبوت نہ ہونے پر بری کر دیا لیکن لوگوں کی عدالت سے وہ آج تک بری نہیں ہو سکیں۔

کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ مصطفیٰ زیدی کے پاس شہناز کی جو تصویریں تھیں، آخر وہ بنانے والا کون تھا؟ اور اگر وہ واقعی اس نوعیت کی تھیں کہ ان پر بلیک میلنگ ہو سکتی ہے تو انہیں اپنے پاس رکھنے کا مقصد کیا تھا۔ سب سے پہلے تو انہیں کھینچنے کا ہی مقصد کیا تھا؟ اگر ڈرا دھمکا کے شادی کرنا مقصود تھا تو یہ کیسی محبت تھی اور اگر صرف فائدہ اٹھانا تھا تو بھی یہ کس لغت میں جائز ہے؟ اگر شہناز گل کو اس بات کا الزام دیا جائے کہ شاعر نے محبت میں ناکامی پر انہی کی وجہ سے خود کشی کر لی تو شاعر ایسی چار کوششیں پہلے بھی کر ہی چکے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ خاتون نے بے توجہی برتی تو بھئی ایک شادی شدہ خاتون کیا توجہ دیتی، جس بھی وقتی لغزش کے تحت وہ اس گھن چکر میں پھنسیں کیا اسی پر قائم رہنا بھی عقلمندی تھا؟ ایک بات یہ سننے میں آئی کہ شہناز گل کے پہلے بھی بہت بیوروکریٹس سے تعلقات تھے تو بھئی یہاں آج آپ چلتی سڑک پر صرف انگلی سے اشارہ کریں کہ فلاں خاتون فلاں مرد سے تعلق میں ہیں تو پیچھے آنے والا سو بندہ آپ ہی کی بات درست سمجھے گا، وجہ پوچھی جائے گی تو بڑا سا سر ہلا کر جواب دیں گے، کوئی بات ہو گی تو ہی مشہوریاں ہوتی ہیں نا جی!

جس ملک میں بے نظیر، مریم نواز، جمائما، ریحام خان یا اس رتبے کی دوسری خواتین محفوظ نہ ہوں وہاں اکیلی شہناز گل کو کون پوچھے گا۔ یہی سب کچھ ایان علی کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ کسی کو دلچسپی نہیں ہوتی کہ عدالتی کارروائی کیا ہوئی، کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ وکیل صفائی نے کیا بیان دیے، کوئی یہ نہیں جاننا چاہتا کہ ایان ملزم ہیں یا مجرم ہیں، کوئی یہ نہیں دیکھنا چاہتا کہ وہ خود کیا کہتی ہیں، ہاں بس دیکھنے والے عورت کے وجود کو دیکھنا چاہتے ہیں، اس طرح دیکھنا کہ سالم نگل جائیں، رپورٹ کرنے والے بھی تقریر سے زیادہ تصویر میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آخر مسئلہ کیا ہے، مسئلہ کہاں ہے؟

مسئلہ عورت ذات سے ہے۔ جس معاملے میں کسی بھی عورت کو ملوث کر دیا جائے گا اس میں باقی سب چیزیں بھول جائیں گی، میڈیا ہو یا عوامی رویہ، سب مایا ہے۔ سب کے سب ایک ہی حمام سے ہیں۔ شاعر ادیب جو ہمارا سب سے انٹیلیکچوئل طبقہ ہے وہاں بھی یہی حال ہے۔ سارا شگفتہ کی آتما رولنے کے لیے ابھی ایک باریک سی کتاب مارکیٹ میں آئی ہے، سمجھ سے باہر ہے کہ اتنے برس بعد یہ کس چیز کا بدلہ تھا۔ امرتا پریتم، عصمت چغتائی، قرة العین حیدر، کشور ناہید، پروین شاکر،  کون ہے جسے یہاں بخشا گیا ہو؟ وہی سب کچھ مرد شاعر یا ادیب کریں تو ان کی عظمت کا تخت اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے، وہ جوش ہوں یا زیدی ہوں یا فراز ہوں یا کوئی بھی اور بڑے شاعر ہوں۔ جو کچھ بھی ان سے منسوب ہو گا وہ بس ایک معصوم سے تبسم کے ساتھ یہ کہہ کر بھلا دیا جائے گا کہ، ”بادشاہ آدمی تھے جی، جو دل میں آتا کر لیتے تھے۔ “

کردار کشی اور خبر میں موجود بال برابر فرق کی سرحد اگر شہناز گل کی باری طے ہو جاتی تو شاید اردو صحافت کا مزاج اب قدرے مختلف ہوتا۔ آج بھی آن لائن اخباروں کو سب سے زیادہ کلک بیٹس ایسی ہی خبروں سے ملتے ہیں۔ سو باتوں کی ایک بات یہ کہ عورت ہو کر الزام تراشی سے کلین چٹ حاصل کرنا شہناز گل کے لیے بھی ممکن نہیں تھا، نہ ہی آج کسی عورت کے لیے یہاں ممکنات میں سے ہے۔ وہ ستر کی دہائی تھی، اب نام خدا دو ہزار سترہ ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain