مودی، اسرائیل اور جماعت احمدیہ


بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ اسرائیل کے دوران ائیرپورٹ پر خوش آمدید کرنے والوں میں اسرائیل میں احمدیہ جماعت کے امیر جناب محمد شریف عودہ بھی موجود تھے۔ مودی سے مصافحہ کرتے ہوئے انہوں نے مودی کا جماعت احمدیہ کی بھارت میں مدد کا شکریہ ادا کیا جس پر مودی نے انہیں کہا کہ ہم احمدیہ کمیونیٹی سے بہت قریب ہیں۔ یہ کچھ ساعتوں کی ملاقات اور مسکراتے ہوئے دو تین جملوں کا تبادلہ کچھ طبیعتوں پر ایسا اثر کر گیا ہے کہ انہوں نے اس کو ’قادیانی اسرائیل گٹھ جوڑ ‘ کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے احباب شاید بچپن سے جاسوسی ناول پڑھ پڑھ کر جاسوسی ناول نگار بننے کا شوق رکھتے ہوں گے مگرزمانے کی ستم ظریفی کہ ان کو موقع نہ مل سکا، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور ہر ایسی بات میں وہ سازش کی ایسی ایسی کڑی ڈھونڈ کر لاتے ہیں کہ جیمز بانڈ بھی ان کے سامنے پانی بھرتا نظر آئے۔

اس سازشی دماغ میں جو جو باتیں اعتراض والی ہو سکتیں ہیں ان سب کا ذکر کر کے تجزیہ کر لیتے ہیں۔ پہلی اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل میں احمدیہ جماعت نہ صرف موجود ہے بلکہ ان کا امیر بھی ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ مودی کا شکریہ کسی ایسی چیز کا ادا کیا گیا جو کہ مسلمانوں کے لئے مضر ہے۔ تیسرا اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ مودی جیسے گجرات میں مسلمانوں کے قاتل کے ساتھ ہنس ہنس کر بات کی۔ چوتھا اعتراض جو کہ نچوڑ ہے ان سب اعتراضات کا کہ ان سب باتوں سے ثابت ہے کہ یہود و ہنود، احمدیت (قادیانیت پڑھ لیں تاکہ آپ کے دل کو تسکین ہو جائے) کے ذریعے اسلامی دنیا کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ آئیں ان سب باتوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔

ہمارے کرم فرماؤں کے ذہن میں ہو سکتا ہے یہ بات ہو کہ کوئی احمدی اگر اسرائیل میں رہتا ہے تو بس کوئی نہ کوئی سازش ہی کرتا ہوگا۔ یعنی کہ کسی احمدی کا اسرائیل میں رہنا ہی ناقابل معافی جرم ہے۔ اسرائیل میں 17 فیصد مسلمان بستے ہیں، اور وہ اسرائیل کے مختلف شہروں میں بستے ہیں جن میں یروشلم اور حیفا سرفہرست ہیں۔ اب کیا یہ لاکھوں مسلمان صرف اسرائیل میں رہنے کی وجہ سے مورد الزام ٹھہرا دینے چاہئیں یا یہ الزام والا حصہ صرف احمدیوں کے لئے مختص ہے؟ جس طرح مسلمان اسرائیل میں رہ کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں اسی طرح احمدی بھی رہ رہے ہیں، کوئی ذی شعور انسان ایسے لوگوں پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کہ وہ مسلمان ہوتے ہوئے اسرائیل میں رہتے کیوں ہیں، ہاں ہر بات پر سازش ڈھونڈنے والوں کا الگ قصہ ہے۔

اعتراض کرنے والے کے ذہن میں دوسری بات یہ ہوسکتی ہے کہ مودی کا شکریہ کسی ایسی چیز کے لئے ادا کیا گیا ہوگا جو کہ مسلمانوں کے لئے مضر ہوگی۔ اس کا تو سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اس کا بار ثبوت تو آپ کی گردن پر ہے کہ آپ ثابت کریں کہ ایسا کچھ ہے، ورنہ کسی احمدی کا مودی کا شکریہ کرنا صرف اسی وجہ سے ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے پریشر کے باوجود نہ بھارتی حکومت نے اور نہ ہی بھارتی کورٹس نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ بھارت میں احمدی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے پر، سلام کرنے پر، اپنی مساجد کو مساجد کہنے پر، اذان دینے پر، قران پڑھنے پر گرفتار کر کے جیل نہیں بھیج دیے جاتے۔ دور کیوں جائیں، پاکستان میں ایک اسی سالہ بزرگ احمدی شکور بھائی صرف اس لئے NAP کے تحت گرفتار، آٹھ سال کی جیل بھگت رہے ہیں کہ انہوں نے احمدیوں کے اکثریتی آبادی والے شہر ربوہ میں احمدیوں کو اپنی دکان پر قران مجید بیچنے کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ بھارت میں احمدیوں کو اپنا سالانہ تربیتی جلسہ کرنے پر پابندی نہیں ہے، بلکہ ہزاروں کی تعداد میں پاکستان سے بھی احمدی بھارت جاتے ہیں، مگر پاکستان میں احمدیوں کا آخری اجتماع 1982 کو ہوا تھا۔ اس کے بعد حکومت پاکستان نے کبھی اجازت ہی نہیں دی۔ تو ان سب مذہبی آزادیوں کے بدلے جو بھارت میں احمدیوں کو حاصل ہیں، اگر کسی احمدی نے مودی کا بطور ہیڈ آف سٹیٹ شکریہ ادا کر ہی دیا ہے تو کونسی قیامت آ گئی ہے؟ آپ پاکستان میں مجھے بطور احمدی یہ مذہبی آزادیاں دے دیں اور مجھے بھی شکریہ کہنے کا موقع دے دیں۔ آپ لوگوں کا دل ہے کہ خود بھی احمدیوں کی گردن پر پاوؤں رکھی رکھیں اور دوسرے بھی اسی طرح کریں۔ اب ہو سکتا ہے کہ کسی کے سازشی دماغ میں یہ بات اب بھی ہو کہ نہیں بھائی شکریہ تو کسی خفیہ مدد کا ہی کیا گیا ہے، تو میرے بھولے بادشاہ، خفیہ امداد کے شکریے بھی خفیہ ہوتے ہیں، علانیہ نہیں کیا کرتے (آپ لوگوں نے تو ماشاء اللہ خوب سازشی دماغ پایا ہے، آپ لوگوں کو تو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے تھا)۔

تیسرا اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ مودی گجرات میں مسلمانوں کا قاتل ہے تو اس سے ہنس ہنس کر بات کی جا رہی ہے۔ میرے بھائیو، مودی کی گجرات کے معاملے میں مجرمانہ غفلت، جس سے مسلمانوں کے لئے حالات اور خراب ہوئے، سے کس کو انکار ہے۔ مگر اس وجہ سے مودی کی ریاست کے نمائندے کو طور پر شکریہ سے گجرات کے مسلمانوں کا کیا تعلق۔ کیا ہم مودی کو گجرات کے معاملے میں مجرمانہ غفلت برتنے کو باوجود اس کی ریاست کی سطح پر کسی پالیسی کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔ کیا یہ قانون صرف پاکستانی مسلمانوں کے لئے ہی ہے یا بھارتی مسلمانوں پر بھی اس اصول کا اطلاق ہوتا ہے؟ کیونکہ بھارت میں تو مسلمان رہنما مودی سے نہ صرف ملتے رہتے ہیں بلکہ خوشامد کی حد تک تعریف بھی کرتے رہتے ہیں۔ ابھی مہینہ پہلے جمیعت علماء ہند کے صدر قاری سید محمد عثمان منصورپوری، جنرل سیکرٹری مولانا محمود مدنی، انجمن اسلام ممبئی کے صدر ڈاکٹر ظاہر قاضی وغیرہم نے مودی سے ملاقات کی اور تین طلاق کے معاملے پر انہوں نے مودی کے مؤقف کو سراہا۔ کشمیر کے معاملے پر گو کہ انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ صرف مودی ہی کشمیر کے معاملے کو سدھار سکتے ہیں۔ اس میٹنگ کی اور مسلمان رہنماؤں کے ساتھ اس طرح کی اور میٹنگز کی تصاویر میں سب ہنستے ہوئے باتیں کرتے دکھ رہے ہیں، تو کیا ہمارے کرم فرما یہی اعتراض ان مسلمان رہنماؤں کے بارے میں بھی دہرائیں گے؟

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما ہر صورت میں احمدیوں کو بدنام کرنے کے لئے ہر اس ملک اور قوم سے ان کا تعلق جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں جس قوم کو پاکستان میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسرائیل کیونکہ 1948 کو وجود میں آیا اس لئے اس سے پہلے احمدیوں کا رشتہ برٹش کے ساتھ استوار کیے رکھا، پھر بعد میں ہندو اور یہودی بھی شامل کر لئے گئے۔ ثبوت کا کون پوچھتا ہے۔ یہاں پر صرف الزام لگانا ہوتا ہے، یہی ثبوت ہے۔ پاکستان میں اتنی دہشتگردی کے باوجود (احمدی بھی جس کا شکار ہوئے) جو بھی دہشتگرد پکڑے گئے وہ انہی مسلمانوں کے گروہوں میں سے تھے جن کو ہمارے ’صالحین‘ مجاہدین اور شہید کے نام سے یاد کرتے تھے۔ آج تک کسی بھی فرقہ واریت فساد کے پیچھے، کسی فرقہ واریت قتل کے پیچھے، کراچی کے مخدوش حالات پر، دہشتگردی کے حوالے سے، کبھی بھی جماعت احمدیہ کا نام نہیں آیا۔ ہاں جب بھی آیا تو قرآن پڑھنے کے جرم میں، اسلامی القابات استعمال کرنے کے جرم میں، اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے کے جرم میں ضرور آیا۔

میرا خیال ہے کہ اب ہمارے مذہبی رہنماؤں کو بھی چاہیے کہ وہ عقائد کے فرق کو صرف عقائد تک ہی رکھیں، اور اس طرح کے بلاثبوت الزامات سے باہر نکل کر کوئی تعمیری کام کر لیں۔ ہمارے معاشرے کو اخلاقی تربیت کی اشد ضرورت ہے، تھوڑا زور اس طرف بھی لگائیں۔ اللہ ہمیں فساد اور شر پھیلانے والوں سے محفوظ رکھے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).