یہی شیخ حرم ہے۔۔۔


\"quratنام نہاد مولوی کا دین، دنیا اور آخرت عورت ہے۔ اس کا دین چار شادیوں سے شروع ہوتا ہوا عورت کو چاردیواری اور سات پردوں میں قید کر کے کثرت اولاد پر ختم ہوتا ہے۔ یہ بعد کی بات ہے کہ یہ کثرت سے کہاں کہاں جا کر \”پھٹیں\” گے اور یہ کثرت اُمت کو تعمیر کی راہ پر ڈالے گی یا تخریب کی۔ بیشتر مولوی ایسے ہیں کہ چار عورتوں پر بھی مطمئن نہیں ہوتے۔ ان کی ہر دم خواہش ہوتی ہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی بیوی کثرتِ زچگی سے جلد اس دار فانی سے کوچ فرمائے اور وہ کوئی نئی نویلی دلہن لا کر چار کا عدد برقرار رکھیں۔ مولوی کی آخرت کا دارومدار حوروں کے قرب اور وصال پر ہوتا ہے۔ جسے حوروں سے عشق نہیں ہوتا وہ مولوی ہی نہیں ہو سکتا۔

ویسے ہمارے معاشرے کی مجموعی صورت حال بھی یہی ہے۔ بیشتر مرد اندر سے مولوی ہیں اور زیادہ مولوی ایسے ہیں کہ اول و آخر محض ایک مرد ہیں۔ عورت کے حوالے سے اگرچہ بیشتر مردوں کا رویہ ایک جیسا ہے لیکن مولوی نما چیزوں کا اس مخلوق یعنی عورت کے بارے میں حد سے زیادہ تجسس اس لیے بھی نمایاں ہو جاتا ہے کہ انھوں نے بظاہر مذہب کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ جب کہ انھیں دوسرے لوگوں کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے۔ رول ماڈل سے خیال آیا کہ بعض مولوی تو خصوصی توجہ ماڈلز کو مسلمان کرنے پر دیتے ہیں۔ ویسے یہ دوہرے ثواب کا کام ہے۔ مولوی نما مرد اور مرد نما مولوی ہمارے معاشرے میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ نہ مولوی اصلی ہے نہ مرد، بس ان کے درمیان کی کوئی تیسری مخلوق ہے۔ اب ہر مولوی مریدِ شمس تبریز بھی نہیں ہو سکتا۔ ایسے مولوی کے لیے مولا والا ہونا پڑتا ہے۔ اپنا آپ مارنا پڑتا ہے۔ نفس امارہ سے نفس مطمئنہ کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ حقیقی مولوی جسے نفس مطمئنہ حاصل ہوتا ہے وہ عورتوں اور حوروں سے بے نیاز ہوتا ہے۔ وہ نفسانی خواہشات سے کہیں آگے نکل جاتا ہے۔ بڑا مہنگا سودا ہے دنیا کی رنگینیاں اور پھر عورت کو چھوڑا جائے ؟ یہ مولوی نما جراثیم وجود زن سے اپنی شاموں کو تو رنگین کرتے ہیں لیکن عورت کی زندگی میں اندھیرا کر دیتے ہیں۔ یہ عورت سے سارے فائدے حاصل کرتے ہیں اور جب اس کا سارا حسن نچوڑ لیتے ہیں تو اس کو شک کی سولی پر چڑھا دیتے ہیں۔ یہ عورت کے دل میں خنجر، تیر اور گولی تو اتار سکتے ہیں لیکن اس کے اندر جھانک کر نہیں دیکھ سکتے کہ وہاں ایک سہما ہوا ڈرا ہوا خواہشوں اور جذبوں سے بھرپور ایک انسان بھی موجود ہے۔

مرد نما مولوی یا مولوی نما مرد کا تصور ہی وحشت ناک ہے۔ یہ کیسے مرد ہیں جو ایک نازک سی کلی کو، جس نے ابھی زندگی کی چار بہاریں دیکھیں ہوں، مسل کر اسے دائمی خزاؤں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ درندگی لفظ اس وحشیانہ سلوک کو سمیٹ نہیں سکتا جو یہ بظاہر انسان نما مرد عورت کے ساتھ روا رکھتا ہے۔ یہ مرد نما مخلوق مدرسوں میں مولوی کے لبادے میں اور اسکولوں میں استاد کے روپ میں بچوں کا استحصال کرتی ہے اور پھر منبر پر کھڑے ہو کر جنسی بے راہ روی اور ہم جنس پرستی پر لعنت ملامت کرتی ہے۔

بہت مشکل ہو گیا ہے اصل مرد اور حقیقی مولوی کو تلاش کرنا۔ کبھی کبھی چلتے چلتے راستے میں کوئی مرد نما مولوی یا مولوی نما مرد عورت پر کوئی جملہ کستا ہے تو لگتا ہے کہ اردگرد گزرتے ہوئے سارے مردوں کی رال ٹپک رہی ہے۔ ان کے ہاتھوں پہ کسی نہ کسی کی عزت، غیرت اور جذبات کا خون لگا ہوا ہے۔ سب کے چہرے انتہائی بھیانک نظر آنے لگتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے لارڈ آف رنگز والے گولم زمین پر رینگ رہے ہیں۔ سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں مگر مچھ بن جاتی ہیں، بڑے بڑے گھر اور پلازے ایک دم زمیں بوس ہو جاتے ہیں اور بے چاری عورت بوجھل قدموں سے چلتی رہتی ہے۔ یہ روز کا منظر ہے اور ہر راہ چلتی عورت دیکھتی ہے۔ لیکن اس مرد نواز معاشرے میں کوئی یقین ہی نہیں کرتا۔ ایسا نہیں کہ مرد اور مولوی ناپید ہیں لیکن مولویت اور مردانگی کے روپ میں یہ تیسری مخلوق بہت تیزی سے ہمارے معاشرے میں پھیل رہی ہے۔ عورت کا استحصال بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ نظروں سے ہو یا زبان سے، جسمانی مار پیٹ ہو یا روحانی تشدد۔، عورت کو استعمال کی چیز یا جنسی غلام سمجھنے پر قدغن نہیں مگر انسان سمجھنے میں عار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
12 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments