ریمنڈ ڈیوس اوربھولے بادشاہ


پاکستان میں پکڑے جانے والے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے نام سے چھپنے والی کتاب THE CONTRACTOR (کم از کم میری عقل یہ کہتی ہے کہ یہ کتاب ریمنڈ ڈیوس نے نہیں لکھی )۔17ڈالر قیمت والی یہ کتاب انٹر نیٹ کے ذریعے مفت بانٹی گئی لیکن ظاہر ہے اس میں زیادہ دلچسپی صرف پاکستانی اور امریکی عوام کو ہی ہو سکتی ہے ۔ پاکستان میں یہ کتابی شکل میں تو مارکیٹ میں نہیں آئی لیکن انٹرنیٹ اور واٹس ایپ کے ذریعے مفت میں کھڑکی توڑ کامیابی حاصل کر رہی ہے ۔ کم از کم پاکستان میں سمارٹ فون استعمال کرنے والے ہر شخص کے موبائل میںنہیں تو اکثر افراد کے موبائل میں یہ کتاب ضرور موجود ہے ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ پاکستان میں ہر وہ شخص اس پر تبصرہ کر رہا ہے جس کو ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور میں ہونے والے دہرے قتل کے بارے میں کچھ معلوم ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ سوشل میڈیا پر لکھنے والے بہت سے تبصرہ نگارRAYMOND DAVISکو RAMOND DAVIDلکھ رہے ہیں ۔ انٹرنیٹ پر اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان میں دھواں دھار بحث کا آغاز ہوگیا ہے، اخبارات میں کالم لکھے جارہے ہیں اور ٹی وی چینلز پر ٹالک شوز میں بھی اس کو موضوع بحث بنایا جار ہا ہے لیکن محسوس یہ ہورہا ہے کہ کتاب پر تبصرہ کرنے والوں کی اکثریت نے اس کاسرے سے مطالعہ ہی نہیں کیا۔ لب لباب اس بحث کا لیکن اکثر جگہ پر یہی ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل پاشا اور پاکستانی سیاستدان ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لئے مرے جارہے تھے ۔ جنرل پاشا کے صحافیوں کے عورت اور شرا ب کے عوض بک جانے والے بیان کو بھی موضوع سخن بنا کر ان پر کافی تنقید کی جارہی ہے جو میرے خیال میں بے جا بھی نہیں ۔ دنیا کی کسی بھی خفیہ ایجنسی کا اہلکار یا افسر یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اکثرو بیشتر ایک مرد کے لئے خوبصورت عورت اور اچھی شراب بہترین جال ثابت ہوتے ہیں اور اس میں صحافی یا غیر صحافی کی کوئی تخصیص بھی نہیں ہے ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کو پڑھے بغیر اور بنا سوچے سمجھے اس کے مندرجات کو سچ ماننے لگی ہے۔لیکن بھولے بادشاہ یہ نہیں جانتے کہ امریکہ اور یورپ میں اس طرح کی کتابیں مخصوص مفادات کے حصول کے لئے لکھوائی جاتی ہیں جیسا کہ ملالہ کی کتاب اس کی شریک مصنفہ نے لکھی اسی طرح ریمنڈ ڈیوس کی یہ کتا ب ”سٹارمز ری بیک “نے لکھی ہے ۔ کتاب کی صداقت خود کتاب کے مندرجات کے مطابق بھی مشکوک ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت کتاب کے آغاز میں ہی لکھا جانے والا ایک جملہ ہے کہ ”اگر میں کوئی معلومات چھپا رہا ہوں تو اس کی وجہ اپنی قومی سلامتی اور امریکی سروسز کے اہل کاروں کا تحفظ مقصود ہے“۔ اب سوچئے کہ جو شخص اپنے قومی مفاد کے لئے معلومات چھپا سکتا ہے وہ اسی مقصد کے لئے بے بنیاد کہانیاں بھی گھڑ سکتا ہے اورمعلومات کو غلط انداز میں بھی پیش کرسکتا ہے ۔ اسی کتاب میں ایک جگہ درج ہے کہ ” پہلی رات میں صرف پندرہ منٹ تک سوسکا،گارڈ نے مجھے پیشی کے لئے اٹھایا اور بتا یا کہ ناشتے کے لئے مجھے میکڈونلڈ لے جایا جارہا ہے ۔ ناشتے کے دوران میں نے مقامی نیوز چینلز پر اپنے واقعے اور اپنے خلاف عوامی احتجاج کی ویڈیوز دیکھیں جن میں عوامی حلقے مجھے سزائے موت دینے کا مطالبہ کر رہے تھے “۔ اب پاکستان میں میکڈونلڈ جانے والے شہری یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں اول تو میکڈونلڈز پر پاکستان کے مقامی نیوز چینلز نہیں دکھائے جاتے ،فرض کریں ریمنڈ نے میکڈونلڈز پر مقامی نیوز چینلز ہی دیکھے ہوں تو اردو نہ جاننے کے باوجود اس کو یہ بات کیسے سمجھ آئی کہ عوامی حلقے اس کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ کتاب کے ایک اور اقتباس کا ترجمہ ہے کہ ”پولیس ریمانڈ کے چودھویں دن پولیس اور حکومت نے مقتول فہیم کی بیوہ شمائلہ کنول کے زہریلی گولیاں کھا کر خود کشی کرنے کی کہانی پھیلانے کی کوشش کی حالانکہ فہیم کی بیوہ شمائلہ کنول کی خودکشی کی کہانی میں نو دن قبل نوجوان لیفٹیننٹ کی زبانی سن چکا تھا“۔اس تحریر پر اگر کوئی غور کرے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فہیم کی بیوہ کے الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں انتقال کی خبر کو نو دن تک پاکستان کے چاق وچوبند میڈیا سے چھپانا ممکن ہی نہیں تھا ۔اس سے جہاں یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ قید میں ہونے کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کو امریکی حکام معاملے سے متعلق مسلسل خبریں پہنچا رہے تھے وہیں یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ کتاب ریمنڈ ڈیوس نے خود نہیں لکھی بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسی اور نے لکھوائی ہے اور یہ ”کسی اور“ سی آئی اے کے علاوہ کون ہوسکتا ہے ؟۔ کتاب کا سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو ا یک معمولی سیکورٹی گارڈ ظاہر کیا گیا ہے لیکن اسی کتاب میں یہ تحریر ہے کہ پاکستان میں امریکی سفیرکیمرون منٹرنے لاہور سے افغانستان کی طرف سفر کے دوران طیارے میں اس کی بات امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے کروائی ۔کتاب کی اس تحریر اور ریمنڈ کی اسیری کے دوران جس طرح امریکہ انتظامیہ کے پاو ¿ں جل رہے تھے اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس صرف کنٹریکٹر سیکورٹی گارڈ نہیں بلکہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا اہم اہلکار تھا جسے بچانے کی سرتوڑ کوششیں کی گئیں جو بالاآخر کامیا ب ہو ئیں کیونکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ قابل ترین سیکورٹی فورسز ہونے کے باوجود پاکستانی ریاست بہرحال دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کے ساتھ متھہ لگانے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی سمیت اور بہت سے معاملات میں بھی امریکہ پر انحصار کرتا ہے ۔

کتاب میں ایک جگہ یہ تحریر ہے کہ” آئی ایس آئی نے مقتولین فیضان حید ر اور فہیم کے اٹھارہ ورثا کو دیت پر راضی کرنے کے لئے مداخلت کی اور ان سے موبائل فون چھین کر انہیں کوٹ لکھپت جیل میں قید کردیا“۔جو انسان خود قیدمیں تھا اسے یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ مقتولین کے ورثا کو جیل میں قید کردیا ہے اور قید کرنے والے آئی ایس آئی کے اہلکار ہیں ۔ اسی طرح کتاب میں جا بجا پاکستان میں امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں اور امریکی حکام کے درمیان انتہائی اہم بات چیت کو بھی افشا کیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ اہم ترین معلومات جو ایک سیکورٹی گارڈ کو بتانا ضروری بھی ہوں تو اس قدرتفصیل سے کیسے بتائی جاسکتی ہیں ۔ ایک طرف اس کتاب میں پاکستانی سیاستدانوں پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوںنے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں امریکہ کی مدد کی اور دوسری طرف کتاب میں ہی درج ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے اس معاملے کو عدالت کی طرف اچھال دیا۔ غرض دلچسپی کا سامان ہونے کے باوجود یہ کتاب تضادات کا مجموعہ ہے اور کم از کم خاکسار اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں ۔ اب رہا معاملہ جنرل پاشا پر تنقید کا! تو قرائن بتارہے ہیں کہ جنرل پاشا کی آڑ میں پاکستانی فوج اورخاص طور پرآئی ایس آئی کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی فوج بھارت جیسے شاطر دشمن کی لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی اوراندرون ملک دہشتگردی کے خلاف چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے اور آئے دن خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر دہشتگردی کے بڑے بڑے واقعات کو ہونے سے پہلے ہی ناکام بنایا جارہا ہے تو دشمن اچھی طرح سمجھتا ہے کہ دہشتگردی میں اس کامیابی کے پیچھے پاک فوج اور آئی ایس آئی کا کردار کیا ہے ۔کتاب کے منظر عام پرآنے کے فوری بعد سینٹرجان مکین کی سربراہی میں امریکی وفد کی پاکستان آمد اور پھر فوری کابل میں جاکر ”ڈومور “ ٹائپ ہرزہ سرائی کو دیکھا جائے تونظر آتا ہے کہ معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں ۔ سو میری گزارش ہے کہ جنرل پاشا کی غلطیوں پر تنقید کو کسی اور موقع کے لئے اٹھار کھیے اور اس وقت ایک غیر ملکی جاسوس کے جھوٹ پر یقین کرنے کی بجائے قومی مفاد کے پیش نظر قومی وحدت کا مظاہرہ کیا جائے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).