اور انٹارکٹیکا پگھل گیا تو ؟


عالمی درجہ ِ حرارت میں تیزی سے اضافہ اس کرہِ ارض کو کس طرح روزِ محشر سے قریب لا رہا ہے اس بابت گذشتہ مضمون میں بحیرہ منجمد شمالی کے گرد آرکٹک سرکل کی برف پگھلنے کی مثال دی گئی تھی جو انیس سو اکیاسی میں ایک تہہ کی صورت روس تا کینیڈا کے شمال میں ساڑھے چودہ ملین کیلومیٹر کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی اور آج یہ علاقہ سکڑتے سکڑتے محض چار اعشاریہ چودہ ملین کیلومیٹر تک رہ گیا ہے جس کے سبب یہاں کی حیاتیات پہلی بار سنگین بقائی خطرے سے لڑ رہی ہے۔اگر کچھ نہ ہوا تو اگلی چند دہائیوں میں آرکٹک سرکل کے سفید ریچھ اور سفید چیتے صرف البم میں نظر آئیں گے۔

دو ہزار آٹھ میں اسی آرکٹک سرکل کے اندر ناروے کے جزیرے سپٹسبرجن میں ایک برفانی پہاڑکے اندر سرنگ کھود کے گلوبل سیڈ والٹ ( قابلِ خوراک بیجوں کی تمام ممکنہ اقسام کا ذخیرہ )قائم کیا گیا۔اس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب اگر بیج ناپید ہوتے چلے گئے تو اس بینک میں ضرور محفوظ رہیں گے۔اس آہنی سرنگی والٹ میں انسانی خوراک سے جڑے بھانت بھانت کے ہزاروں اقسام کے بیجوں کے ایک ملین سیمپلز پیکٹوں کی شکل میں محفوظ کیے گئے ہیں۔ آپ اس سیڈ بینک کو بیجوں کی کشتیِ نوح سمجھ  سکتے ہیں۔ لیکن اس سال یعنی دو ہزار سترہ میں اس منصوبے پر کام کرنے والے ماہرین کے چہرے پہلی بار یہ دیکھ کے زرد پڑ گئے کہ آس پاس کی برف کا پگھلا ہوا پانی سرنگ میں داخل ہو گیا مگر شکر ہے کہ چند روز میں دوبارہ جم گیا۔ایسا پہلے اس علاقے میں کبھی نہ ہوا تھا۔سبب یہ ہے کہ دو ہزار سترہ تاریخ کا سب سے گرم سال قرار پا گیا ہے۔اب ماہرین کو اگلے برس کے درجہِ حرارت کی فکر لاحق ہے۔

آئیے اب سیدھے شمال سے انتہائی جنوب میں براعظم انٹار کٹیکا کی جانب چلتے ہیں جہاں دنیا کا ساٹھ فیصد میٹھا پانی لگ بھگ دو میل موٹی برف کی شکل میں قید ہے۔یہ برف اکثر اپنے ہی وزن سے ٹوٹ کر آئس برگ کی شکل میں سمندر پر تیرنے لگتی ہے۔اس برفانی ذخیرے کی مقدار و وسعت کا اندازہ یوں کیجیے کہ اگر سارا انٹارکٹیکا پگھل جائے تو عالمی سمندر کی سطح ایک سو ساٹھ فٹ تک بلند ہو جائے گی۔دنیا کا ہر کار چلانے والا ، طیارے میں سفر کرنے والا اور بیف سٹیک کھانے والا درجہِ حرارت کے اضافے میں لاشعوری طور پر ہاتھ بھی بٹا رہا ہے اور انٹارکٹیکا کی برف کے پگھلاؤ کے امکانات پر بھی فکرمند ہے۔

اب سے قریباً ایک لاکھ بیس ہزار سال پہلے بھی زمین اتنی ہی گرم تھی جتنی اس صدی کے آخر تک ہو سکتی ہے۔اس گرمی کا سبب یہ سائنسی مفروضہ ہے کہ آسمان سے شہابِ ثاقب کی برسات ہوئی ہو گی یا پھر کسی سیارے کا بڑا سا ٹکڑا زمین سے ٹکرایا ہوگا اور اس کی حدت سے اتنی برف پگھلی ہوگی کہ سمندر کی سطح آج کے مقابلے میں بیس سے تیس فٹ بلند ہو گئی۔مگر ایک لاکھ بیس ہزار برس پہلے کی ابتدائی انسانی نسل جدید نسل ِانسانی کی کڑی سے اتنی دور تھی کہ اس میں جدید انسان جیسا وہ شعور اور صوتی طریقہ ڈویلپ نہیں ہوا تھا کہ اس سیلاب کی کہانی اگلی نسلوں تک منتقل کر سکے۔ پھر برفانی دور نے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔تب ایک نظریے کے مطابق بیشتر سمندر بھی برف تلے آگیا اور اس کی سطح بھی آج کے مقابلے میں چار سو فٹ تک نیچے چلی گئی۔

پچیس ہزار برس پہلے جب یہ آخری برفانی دور ختم ہونے لگا اور برف پگھلنے کے سبب جدید نسلِ انسانی کی زندگی کی کونپلیں ساحلوں کے کنارے جا بجا پھوٹنے لگیں تب برفانی دور کے مکمل خاتمہ ہوتے ہوتے وہ سیلابِ عظیم آیا ہوگا کہ جس کا تجربہ اور مشاہدہ قدیم الہامی و غیر الہامی داستانوں کی شکل میں آج بھی ہماری سماجی نفسیات میں پیوست ہے۔مثلاً داستانِ گلگامش میں کہا گیا کہ ہر جانب اتنا پانی تھا کہ دیوتا بھی ڈر گئے۔ویدک ادب میں بتایا گیا کہ وشنو نے ایک شحض سے کہا کہ کشتی میں بیج بھر لو۔بائیبل اور قرآن میں طوفانِ نوح اور حضرت نوح کی کشتی میں ہر جانور کا جوڑا لادنے کا تذکرہ ہم سب کو ازبر ہے۔انٹار کٹیکا اور گرین لینڈ اسی عظیم برفانی دور کی یادگار ہیں۔

تو کیا ہم ایک بار پھر اسی سیلابِ عظیم جیسے کسی عذاب کی جانب رواں ہیں ؟ پچھلے سیلاب کے وقت تو کرہِ ارض کی آبادی ویسے بھی بہت کم تھی لہذا بہت سے انسان اپنی پسماندگی کے طفیل کسی نہ کسی تدبیر سے ساحل سے دور اندرونی علاقوں میں تیزی سے منتقل ہو کر بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔لیکن آج اس زمین کی آبادی آٹھ ارب کو چھو رہی ہے اور ساحلی علاقوں میں تقریباً چالیس فیصد آبادی بستی ہے۔دنیا کے بڑے بڑے شہر ساحل کے ساتھ یا تھوڑے فاصلے پر ہیں اور ان میں کھربوں کی پراپرٹی کی علت بھی لگی ہوئی ہے کہ جس سے پچیس ہزار برس پہلے کا انسان آزاد تھا۔

انیس سو ستر سے یہ آوازیں تواتر سے اٹھنی شروع ہوئیں کہ شمالی اور جنوبی منجمد کرے میں برف کی تہہ پتلی ہوتی جا رہی ہے۔انیس سو نوے کے عشرے میں تبدیلی کے اس عمل کے مشاہدے کے لیے مصنوعی سیاروں سے باقاعدہ تحقیقی مدد لینے کا کام شروع ہوا۔ اندازہ ہوا کہ گذشتہ ستائیس برس کے دوران برفانی پگھلاؤ کی رفتار تین گنا بڑھ گئی ہے۔اور ہر سال کم ازکم سو ملین ٹن برف سمندر میں شامل ہو رہی ہے۔

گذشتہ برس کے آخر میں اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی فضائیہ کے تعاون سے انٹارکٹیکا کی رپورٹنگ کا اہتمام کیا اور کولمبیا یونیورسٹی کے ماحولیاتی ماہرین کی ایک ٹیم کے ہمراہ چار صحافیوں کو خصوصی آلات سے لیس سی ون تھرٹی ہرکولیس طیارے میں روانہ کیا۔اس طیارے کے متجسس مسافروں نے مشاہدہ کیا کہ انٹارکٹیکا کے مغربی حصے میں برفانی شکست و ریخت کا عمل براعظم کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ تیزی سے ہو رہا ہے۔اس ٹیم نے ریاست کیلی فورنیا کے حجم کا ایک برفانی ٹکڑا دیکھا جو ساحل کے قریب مگر الگ تھلگ تیر رہا تھا۔یہ ٹکڑا روز شیلف نامی برفانی ذخیرے سے ٹوٹا تھا۔

جو مواد جمع ہوا اس کے تجزیے سے دو ہزار بیس تک ہی یہ حتمی نتیجہ نکل پائے گا کہ انٹار کٹیکا کی برف کس رفتار سے پگھل رہی ہے یا ٹوٹ رہی ہے اور اس کی بنیاد پر جمع تفریق ضرب کر کے اس صدی کے ماحولیاتی مستقبل کا  کیا سائنسی نقشہ بنایا جا سکتا ہے۔ ابتدائی کمپیوٹر پروجیکشن کے مطابق انٹارکٹیکا میں برف جس رفتار سے ٹوٹ رہی ہے تو اس تناسب سے صدی کے آخر تک سطح سمندر میں چھ فٹ تک اضافہ ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ میامی ، نیویارک اور شنگھائی جیسے شہر نہیں رہیں گے اور ان شہروں میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کو اندرونی علاقوں میں نقلِ مکانی کرنی پڑے گی یوں ان علاقوں کو ایک ناقابلِ برداشت اضافی اقتصادی و سماجی بوجھ کا سامنا ہوگا۔ جس کا نتیجہ وسیع سرپھٹول میں نکل سکتا ہے۔ تاہم بیشتر ماحولیاتی سائنسدان اس کمپیوٹر پروجیکشن کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جتنا قنوطی کمپیوٹر ہے اتنے ناامید یہ سائنسدان نہیں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جس رفتار سے برف کی تہہ پتلی ہو رہی یا ٹوٹ رہی ہے۔اس کے نتیجے میں جو زمین اس تہہ کے نیچے سے برآمد ہوگی،کیا اس میں ہزاروں برس سے چھپے ہوئے منجمد بکٹیریا اور وائرس بھی دوبارہ ایکٹو ہو کر انسان کو ’’ ایک کے بدلے ایک مصیبت مفت ‘‘ کے مرحلے تک لا سکتے ہیں؟ اگلی بار اسی سوال کا جواب اور جواز ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔

(بشکریہ ایکسپریس نیوز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).