پانام کیس: ایسا ہو تو کیا تماشا ہو


کیا تماشا ہو دس جولائی کو ہم بیٹھے ہوں اپنے ٹیلی ویژن کھول کر اور نگاہیں جمی ہوں اس کی سکرین پر اور تلاش کر رہے ہوں اس چینل کو جس کے رپورٹر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر خبریں دے رہے ہوں۔ کیمرہ لگا ایک ڈرون شاہراہ جمہوریت اور پارلیمان کی عمارت کا ایک فضائی نظارہ کروا کر سپریم کورٹ کی پر شکوہ بلڈنگ کی دید سے ہماری آنکھیں منور کردے اور اندر جانے والے لوگوں کا دیدار بھی۔ یہاں سب سے پہلے پہنچے ہوں راولپنڈی کے نابغہ روزگار اور غم جمہوریت سے نڈھال شیخ صاحب اور اعلان فرمارہے ہوں کہ آج جنازہ کتنے بجے ہوگا جس کی پیش گوئی اس نے کئی ماہ و سال پہلے فرمائی تھی۔ پھر آئے لہکتے لچکتے ہمارے سب کے مرکز نگاہ ، خانوں کے خان، جانوں کے جان جمہوریت کے اکھاڑے کے واحد پہلوان اور ہر ٹیم کے کپتان اپنی ٹیم کے غازی گفتار جناب فواد، شیریں نوا محترمہ مزاری، کراچی والے زیدی اور لاہور، ملتان اور پشاور کے نئے پرانے پہلوانوں کے ہمراہ۔ ان کے خود کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ ان کی چہرے کی مسکراہٹ سے ہی ہمیں معلوم ہوگا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اپنی ٹوپی سر پر ترچھی سجائے تفاخر سے قدم اٹھاتے سراج بھی باسٹھ اور تریسٹھ کی تلوار چلنے کی امید دل میں لئے بات قانون اور انصاف کی کرتے ہماری نظروں کے سامنے سے گزر کی مرمریں عمارت میں چلے جائیں گے۔ نظر تو یہاں دانیال، طلال اور ان کے ساتھ مریم ثانی بھی آ جائیں گے مگر ہمیں ان کی قسمت کے فیصلے کی خبر پہلے سے ہے اس لئے ان کی طرف توجہ دینے کے بجائے ہم اپنے کیچن سے کچھ کھانے کے لئے لے آنے کے لئے اٹھ جائیں گے کیونکہ ہمیں دن بھر ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھ کر پچھلے کئی مہینوں سے جاری قانون اور انصاف کی اننگز کا فائنل دیکھنا ہے۔

گزشتہ کئی مہینوں سے سپریم کورٹ کی عمارت کے سبزہ زار پر تقریری مقابلے، مباحثے اور مشاعرے جاری ہیں۔ کئی بار یہاں باہر سے لاکر رکھے واحد ڈائیس پر قبضے کی جنگ بھی چھڑ چکی ہے جس میں کئی بار اس مجبور و بے بس ڈائیس نے فریقین سے ان کے پاؤں پڑ کر معافی بھی مانگی لیکن اس کی جان نے آمان نہ پائی جو آج بھی تختہ مشق ستم ہوگا۔ آج بھی صبح ہی سے اس ڈائیس پر قبضہ جاری ہوگا اور جولائی کی دھوپ اور فضا میں حبس کی کسی کو پرواہ نہ ہوگی کیونکہ ڈائیس کے قابضین کے آپس کی جنگ بھی اتنی شدید ہے کہ کوئی ایک انچ بھی اس سے ہٹ جائے تو دوسرا اس کی جگہ براجمان ہوجاتا ہے۔ دس جولائی کی دوپہر کی گرمی میں کون کتنی دیر تک فطری تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر قابض رہ پاتا ہے یہ بھی ایک دیکھنے والا مقابلہ ہوگا۔ مقابلہ تو ہم تک خبریں پہنچانے والے ٹیلی ویژن کے رپورٹروں کا بھی آپس میں خوب ہوگا کہ مرمرین عمارت کے اندر سے کس کے موبائل پر کونسا ٹکر پہلے آجاتا ہے کہ جس کو چلا کر وہ سے پہلے کا نعرہ لگا سکے۔ مقابلہ تو ٹیلی ویژن سکرین کے آگے بیٹھے ہمارے بیچ بھی ہوگا کہ کس کی کونسی پیشن گوئی سچی ثابت ہوئی ہے ا ور کس کی کونسی غلط۔ مختصر الکلام یہ کہ مقابلہ سخت ہے اور وقت کم، کل کا ایک ہی دن۔

بلانے اور چلے جانے کا تماشاآئی ایٹ کی جوڈیشل اکیڈمی میں خوب رہا۔ یہاں سے خبریں، خبروں کی خبریں اور اندر کی خبروں نے ہماری تفریح و طبع کا سامان کیے رکھا۔ کوئی دن ایسا نہ گزرا کہ جس دن کچھ نیا نہ تھا۔ کبھی ایس ایم ایس اور کبھی ایم ایم ایس ، کبھی پپو آئے، کبھی ببلو، کبھی بابا آئے تو کبھی بی بی۔ اگر کسی دن کچھ نہ تھا تو اس دن قطری کےآنے اور نہ آنے کے قطرے پلائے گئے۔

اسی دوران جو جس پر گزری کی سرگزشت کا تماشا بھی خوب ہوا۔ رحمان ملک کی کہانی تو ہم نہ سن پائے مگر ان کی چال ڈھال نے بتادیا کہ اس نے نہ صرف سینے میں برسوں سے چھپائے سارے راز اگل دیے بلکہ اپنے سینے سے چمٹائی فائل کو بھی اس کے منزل مقصود تک پہنچا دینے کے بعد اب وہ سکون سے کہیں گیان پر جانے والے ہیں۔ سرگزشت تو ان افسران کی بھی بڑی دلچسپ رہی ہوگی جو اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران معمول کی بھول چوک سمجھ کر فرو گزاشت کی گئی ناقابل اعتنا باتوں کے استفسار پر افشار خون کی بے قاعدگی کا شکار ہوئے۔ یہاں گئے تو سب ہی مگر آئی صرف ایک تصویر جس کی کہانی کو ابھی آنا باقی ہے۔ شاید اس کہانی کو کسی خوش کلام اور اداب سخن سے مانوس قصہ گو کا انتظار ہے جو ابھی کسی نامعلوم مقام پر مشق سخنوری میں مصروف ہے۔

کناروں سے کھیلنے والوں کے ڈوب جانے کاتماشا دیکھنے کے متمنی منتظر تماشا ہیں کہ ان کی کشتی ڈوب جاتی ہے جس کے ناخدا نہ دیکھ پائے کہ ان کی ناؤ میں پانی کب کس سوراخ سے داخل ہوا۔ خلیج عرب کے بحر بیکراں میں جہاز رانی کے مشاق ملاح سمجھ نہ پائے کہ ان کے بادبان پناما کی تنگ ندی میں الٹی چلنے والی ہواؤں کے گھن چکر میں کب پھنس گئے۔ زندگی بھر اپنی خاکساری کی بہ اسم خدا قسمیں کھانے والوں کی شان سلطانی کا بھانڈا ولایت کے چوراہے پر کیسے پھوٹا۔ یہ کیسا قہر ہے کہ مانند قیامت کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا وگرنہ کچھ تو سدھارتے کچھ تو سنوارتے، کچھ نہیں تو اپنے پرانے بیع کھاتے ہی سیدھے کرتے کہ یوں رسوا نہ ہوتے۔ اب رسوائی ہوئی ہے تو تماشا بھی ہوگا۔

اب بھی وقت کی چند ساعتوں کے لوٹ آنے کے منتظر تماشا بھی کبھی حرم کی دیواروں سے لپٹ کر دست بہ دعا ہیں تو کبھی خدام حرم کے قدموں پر گر کر سائل دوا ہیں۔ کوئی چارہ گری ہو، کوئی کرامات ہو کہ کوئی کشف بس وقت کی چند ساعتیں لوٹ آئیں۔ وہ بھی سوچتے ہیں اگر وقت لوٹ آیا اور وہ ساعتیں دوبارہ ملیں تو کیا تماشا ہو۔ کیا تماشا ہو جب مرمرین عمارت کے مکین کہہ دیں کہ ثبوت ناکافی ہیں اور شواہد نا قابل اعتبار اس لئے پھر سے کھوجی دوڑا کر نشان پا ڈھونڈے جائیں کہ زر کا سفر سر زمین عرب سے والایت تک کیسے ممکن ہوا۔ اگر یہ تماشا ہوا تو پہلے ہی کھائی مٹھائی بھی حلال ہوگی اور ڈالے بھنگڑے بھی جائز۔ ان کو بھی امید ہے کہ جس کے خزانے سے ان بھٹی سے بادشاہت، عرب سے ارب تک سب کچھ مل چکا ہے تو وقت کی چند ساعتوں کا لوٹ آنا بھی ممکن ہے۔ اگر ایسا ہوا تو رحمان ملک کی فائل، کوتوال کی تکرار، وکیلوں کی جرح اور منصفوں کی چبھتی نگاہیں سب کا مداوا ممکن ہوگا۔ کھوجیوں کو قطر کے قطرے بھی پلائے جائیں گے، اور بنکوں کے کھاتے بھی دکھائے جائیں گے، ان راستوں میں زر کا نشان پا بھی دکھایا جائے گا جو نظر نہ آیا تو چمک کے چشمے لگو دیے جائیں گے تاکہ وہ بھی نظر آ سکے جو پوشیدہ و پنہاں ہے۔ بقول ساغر صدیقی

وقت کی چند ساعتیں ساغر
لوٹ آئیں توکیا تماشا ہو

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan