بے نیاز ایدھی اور خدا کے نام پر دکانداری کرنے والے


مخملین لباس پہن کر منقش مسند پر بیٹھے ہوئے فقیہہ شہرنے فرمایا ایدھی کو چھوڑدیں ایدھی حرامزادوں کے لیے پنگھوڑے لگا کر انہیں پالتا بڑھاتا اور زندہ رہنے میں مدد دیتا ہے اور میری دست بوسی کرو کہ میں حلال زادوں کو حرامیوں کی موت مرواتا ہوں۔

اپنے وجود سے مشام جاں کو معطر کرنے والی خوشبوئیں بکھیرتے ہوئے واعظ گرج رہے تھے سنو سنو! ایدھی کا عقیدہ بگڑا ہواہے ایدھی کو چھوڑدو اور بدعقیدہ کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور میرے تقدس آگیں وجود پر سب کچھ نچھاور کردو کہ میرے پاس خیالات کی اک ایسی حسین گٹھڑی ہے جس کی وجہ سے میری ہر بدعملی معاف ہے۔

ہاضمے کے ”مینٹین“ ہونے کی گواہی دینے والے نکلے ہوئے پیٹ پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے زاہد فرمارہے تھے ایدھی فنا فی الانسان ہوچکے ایدھی کو چھوڑ کر اس کی عاقبت کی فکر کرو اور مجھے اونچے تخت پر بٹھاؤ کہ میں کچھ جلیل القدر مقاصد کے لیے انسانوں کو فنا کرنے کا پرچم بردار ہوں۔

دور کہیں پرے ایدھی قبر سے اٹھے تھے ابھی کے ابھی۔ بدبخت ننگ دھڑنگ تھے الف ننگا، اپنا پھٹا ہوا، رنگ اڑا ہوا کفن بھی کسی ضرورت مند کو دے چکے تھے شاید ۔ الجھی ہوئی سفید داڑھی کے ساتھ کھڑے ایدھی مسکراتے ہوئے زیرلب خود کلامی کے انداز میں کچھ الفاظ دہرا رہے تھے

”برے سے برے انسان بھی ضرورتوں کے لیے خودی بیچتے ہیں اور زیادہ مجبور خود کو فروخت کرتے ہیں اور ایک تم ہو کہ اپنی چھوٹی چھوٹی آرزوؤں کے لیے بھی خدا بیچتے ہو پھر بھی خدا کے نمائندے تم ہو۔ پھر بھی کسی نے خدا کو ماننے کا ثبوت دینا ہو تو تمہیں ہی دے گا، آہ کیسے عجیب لوگ ہیں تم بھی“۔

یہ کہہ کر ایدھی دوبارہ قبر میں اتر گئے اور اتنے ہی سکون سے سو گئے جتنا کہ برستی دھوپ کی تمازت میں بھنبھوڑنے والے کتوں کے کچرا دان  سے اٹھایا گیا ”حرام زادہ“ ایدھی کے پنگھوڑے میں سوتا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).