انصاف کرو ہو کہ کرامات کرو ہو (آخری حصہ)


’’کرامات ‘‘ کاسبب بننے والی مثالیں تو بہت سی ہیں مگر طوالت اور سنسر کے ڈر سے ہم فقط ایک ’’ ہلکی پھلکی ‘‘ مثال ہی عرض کریں گے۔ خدا مغفرت کرے، کبھی ہمارے خیر دین کے خلاف دیوانی مقدمہ دائر ہوا تھا۔ وہ غریب بغیر وکیل کے خود ہی عدالت میں پیش ہو گیا اور اراضی متدعویہ پر اپنا حق جتایا۔ عدالت میں اس سے پوچھا گیا کہ کیا اس کے پاس اپنے موقف کی حمایت میں کوئی گواہ ہے؟ سادہ لوح نے کھرا جواب دیا کہ ہمار ے گاؤں میں دو ہی جھوٹے گواہ ہیں، گاما ٹھیکیدار اور بخشو چوکیدار۔ وہ دونوں مخالف فریق نے کر لیے ہیں۔ تیسرا گواہ گاؤں میں ہے ہی کوئی نہیں، کہاں سے لاؤں؟

ہم میں سے اکثر دیہاتی مقدمہ بازی کے اتنے شوقین واقع ہوئے ہیں کہ اگر ہمارے بچوں کے پاؤں میں جوتی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں مگر اپنے مقدمات کے اخراجات پورے نہ کر سکنے پر شریکوں میں ہماری ناک کٹ جاتی ہے۔ خدا وکلا کا رزق اور بھی کشادہ فرمائے، وہ بھی ہمارے ’’شوقیہ مقدمہ بازانہ جذبات ‘‘ کو مقدور بھر ہوا دیتے ہیں۔ وہ کم ہی ہمیں بتاتے ہیں کہ اس جائیداد پر تمہارا حق نہیں ہے۔ جو بھی جاٹ ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے، وہ وکالت نامے پر انگوٹھا لگا کر ہی باہر نکلتا ہے۔ ویسے قصور وکلا کا بھی نہیں۔ اگر کوئی قانون دان ہمیں سچ بتائے کہ اس زمین سے تمہارا کوئی تعلق نہیں یا فیس کم مانگے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ماٹھا وکیل ہے، کہیں اور چلتے ہیں۔ ہم چند مضافاتی مرلوں کے لیے آپس میں لڑتے ہیں اور پھر ایک نئے دیوانی یا فوجداری مقدمے کی پیروی کے لیے کروفر سے کچہری میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ ہم فریقین دس پندرہ یا بیس برس تک اپنا اقتصادی کباڑا اور عدالتوں کا وقت ضائع کر کے جب انصاف سے اپنی اپنی جھولیاں بھر لیتے ہیں تو پھر آپس میں صلح کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دشمنوں نے ہمارے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر دی تھیں ورنہ ہم تو روز ِ اول سے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ بسا اوقات اس عرصے کے دوران مقدمات کا فیصلہ بھی ہو جاتا ہے۔ تاہم چونکہ ایسے کیسوں کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی، لہذا راضی نامہ ہو یا عدالتی فیصلہ، اکثر ’’پرنالہ وہیں رہتا ہے ‘‘ ایسے میں کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ عدالت دیوانی سے لے کر عدالت عظمیٰ تک پیروی میں جائیداد متدعویہ کی قیمت کے مقابلے میں مقدمے پر کہیں زیادہ خرچ ہو چکا ہوتا ہے۔ تاہم خدا کا شکر ہے کہ ناک رہ جاتی ہے۔ یہاں پر یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس مقدمہ بازی کے عرصے کے دوران ہمارے ایسے شوقین مقدمہ باز عدالتیں کھلنے سے قبل ہی اپنے کاغذات کے تھیلے اٹھائے کچہری میں یوں بے چینی سے ٹہل رہے ہوتے ہیں جیسے انصاف بھی ہماری جھولیاں بھرنے کو اسی طرح بے تاب ہے۔ تاہم شام کو ہم اپنی جیب کا بوجھ ہلکا کر کے موٹر سائیکل کو کک لگاتے ہیں یا بوجھل قدموں سے لاری اڈے کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ واپسی پر لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ مقدمے کا کیا بنا؟ ہم تھکے لہجے میں جواب دیتے ہیں ’’ تریخ ہو گئی اے ‘‘

ہمارا جسٹس سسٹم اتنا بوسیدہ، پیچیدہ اور طویل ہے کہ مقدمات ’’دادا لوے تے پوتا ہنڈاوے ‘‘ کی مثل نسل در نسل چلتے ہیں۔ دائری دعویٰ، سمن، تعمیل سمن، جواب دعویٰ، اعتراف و انکشاف، وضع تنقیحات، شہادت، جرح، بحث، فیصلہ، ڈگری، تعمیل ڈگری اور درمیانی درخواست ہائے، ان پر احکام اور پھر اپیل در اپیل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کون جیتتا ہے تیری زلف کے سَر ہونے تک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا نظام انصاف ہر اس آدمی کی مدد کرتا ہے، جو مقدمے کو طویل دینا چاہے۔ اس کارِ خیر میں فریقین کے علاوہ عدالتوں، پولیس اور وکلا کا حصہ بقدر جثہ بھی شامل ہے۔ یہاں جو فریق، وکیل یا جج مقدمے کا ٹرائل جلد مکمل کرنا چاہے، اسے کچھ اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ اگرچہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے مقدمات کو جلد نمٹانے کی ہدایات ہیں، لیکن عملاً صورتحال کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ بات کو سمیٹتے ہیں۔ اگر نظام انصاف کی کمزوریوں میں اعلیٰ عدلیہ کے کردار پر بات نہ کی گئی تو موضوع سے انصاف ممکن نہ ہوگا۔ بلا شبہ ہماری عدلیہ میں ہر دور میں اچھی شہرت کے حامل جج صاحبان نے انصاف کا پرچم بلند رکھا ہے۔ تاہم بد قسمتی سے بحیثیت مجموعی جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت سے شروع ہونے والے نا معتبر سفر نے ہماری عدالتوں کے وقار کو داغدار کیے رکھا ہے۔ ہماری تاریخ میں مولوی تمیز الدین سے لے کر خیر دین تک سائلان کا عدالتی تجربہ کچھ زیادہ خوشگوار قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ان کے حصے میں انصاف سے زیادہ ’’کرامات‘‘ ہی آئی ہیں۔

پہلے بھی کبھی عرض کیا تھا اور بارِ دگر عرض ہے کہ ہمارے جسٹس سسٹم پر نظر ثانی کر کے اسے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے قانون ساز ادارے مہذب ملکوں کی طرح فوجداری قوانین میں ترمیم کر کے ایسے جرائم کو فہرست سے نکا ل دیں، جن سے ریاست یا کسی دوسرے کے حقوق متاثر نہیں ہوتے، حکومت جھوٹے پرچوں کو بھی کنٹرول کر لے اور ہمارے شوقیہ مقدمے باز حضرات بھی اس شغل سے باز آ کر دوسروں کو ان کا حق دینے پر آمادہ ہو جائیں، نیز جھوٹے مقدمے کے مدعی کے لیے سزا پر فوری عملدرآمد یقینی بنایا جائے تو ماتحت عدلیہ سے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ تک مقدمات کا بوجھ کم ہوگا اور صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف عدالتوں کو آزادی سے کام کرنے دیا جائے اور بے جا تنقید اور دباؤ جیسا غیر مہذب چلن ترک کر دیا جائے۔ البتہ دوسرے اداروں کے ساتھ ساتھ ججز پر بھی چیک اینڈ بیلنس کا مضبوط نظام ہونا چاہیے۔ عدالتوں اور ججوں کا احترام ضرور ہو، مگر خود اعلیٰ عدلیہ بھی ماتحت عدالتوں کے لیے روشن مثال سمجھنے کے قابل ایسے فیصلے کرے، جن پر تعصب اور جانبداری کا شائبہ تک نہ ہوتو عدالتی فیصلوں پر سرِ تسلیم خم کرنے کا کلچر خود ہی وجود میں آ جائے گا۔ آج سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت پانامہ کیس پر دنیا بھر کی نظریں ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ جے آئی ٹی پر اعتراضات کا ازالہ کر کے قانون کی نظروں میں سب کی برابری کے اصول پر ایسا منصفانہ حکم جاری ہو، جس پر کسی کو انگلی اٹھانے اور ’’کرامات‘‘ قرار دینے کی جرأت نہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ورنہ تابش ؔ کمال جیسے شعرا تو ’’ مجھے کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ جیسی نظمیں لکھتے رہیں گے کہ :

وہ مدعی کہاں گیا
گواہ کس طرف گئے
صفائیوں کے بعد مسل منصفوں نے کیا لکھی
دیئے کے قتل پرہوا کو کون سی سزا ملی
ملی بھی یا نہیں ملی
شریک تھی جو سازشوں میں تیرگی
تو اس کا کیا بنا
کوئی دیے کا گواہ بھی تھا
مقدمے میں روشنی کا ہاتھ کس کے سر پر تھا
مجھے کوئی اعتراض نہیں
میرے لیے تو صرف ایک بات خاص ہے
سماعتوں کے دور میں
یہ ایک نظم ہو گئی

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).