جہاز کے ٹکٹ میں عملے کی ملکیت کا تصور


کنویں کے مینڈک اور مینڈکیوں کا تو پتہ ہی ہو گا آپ سب کو، وہ ایک تنگ و تاریک جگہ پر رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا بس وہی ہے جو انہوں نے دیکھی ہے۔ کنوئیں کے باہر کیا چل رہا ہے انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ان کی زندگی بس کنوئیں، اس کے پانی اور وہاں موجود دوسرے مینڈکوں کے ساتھ گزرتی ہے۔

یہی مزاج بعض اوقات ہمارے اردگرد بھی پایا جاتا ہے اور اس سے بچ کر نکل جانا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے دوست جب سوشل میڈیا استعمال کرنے لگتے ہیں تو ان کی سوچ کھل کر سامنے آ جاتی ہے اور لوگوں کو ان کی اصلیت بتا جاتی ہے۔ بالکل کنوئیں میں رہنے والے مذکورہ جاندار کی طرح وہ اپنے دائرے میں ساری عمر رہ کر جتنے سیانے ہو سکتے ہیں اسی کا پرچار بقیہ زندگی دوسروں پر کر کے ان کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ اور اس پرچار سے، اس محدود سی، تنگ سی ذہنیت سے دنیا کا کوئی بھی جاندار بچ نہیں سکتا۔ پچھلے دنوں پی آئی اے کی ایک ائیر ہوسٹس کو بھی اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔

فضائی میزبان آپ کے سفر کو بہتر بنانے کے لیے وہاں موجود ہوتے ہیں، ٹکٹ کے پیسوں میں ان کی ملکیت کا تصور ساتھ لے کر آپ نہیں آ سکتے۔ پہلی بات تو یہ کہ آپ نے اس فضائی میزبان کی تصویر کھینچی ہی کیوں وہ بھی اس کی رضامندی کے بغیر؟ آپ کے گھر والوں میں سے کسی کے ساتھ ایسا ہو، کوئی کینڈڈ تصویر اتار کر سوشل میڈیا پر لگا دے تو آپ کو کیسا لگے گا؟ لوگ اس پر کییپشن لگائیں گھٹیا قسم کے تو کیا آپ اچھا محسوس کریں گے؟ سوشل میڈیا پر زیادہ تر تماش بینوں کے گروہ کی اجارہ داری ہے جن کے لیے ہر چیز تماشا ہے۔ اور ان کا مزاج ایسا ہے کہ اپنے گھر والے سات پردوں میں رہیں باقی پوری دنیا کی خواتین کے ساتھ وہ جب مرضی جو چاہیں سلوک کرتے رہیں۔

آپریشنل ڈیوٹی اور پھر پبلک ڈیلینگ کس قدر مشکل کام ہے یہ شاید کرنے والے ہی جانتے ہیں۔ مزید یہ کہ فضائی میزبانی۔ یہاں زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹکٹ لے کر ہم نے جہاز خرید لیا ہے اور اس میں کام کرنے والے لوگ ان کے ذاتی ملازم ہیں۔ ویسے تصویر کھینچنے اور شئیر کرنے والوں نے اپنے گھر میں کام کرتے ادھیڑ عمر ملازم کی تصویر بھی کبھی ٹویٹر یا فیس بک پر نہیں لگائی ہو گی۔ خیر میں اگر لکھنا شروع کروں کہ ہمارے جہازوں پر زیادہ تر کس قماش کے لوگ سفر کرتے ہیں اور کیا کیا حرکتیں کرتے ہیں تو شاید یہ تحریر نہ چھپ سکے۔

کچھ لوگوں کو جہاز میں گھستے ہی سب سے پہلے لیٹرین یاد آ جاتی ہے جیسے باہر لاؤنج میں چھوٹے اور بڑے پر کریڈٹ کارڈ کا تقاضا کیا جا رہا تھا۔ بچوں کو غالباً خاص طور سے گند مچانے کا حکم دیا جاتا ہے جس میں سب سے پہلے اس غریب کارڈ کو پھاڑ کر اس کے پرخچے اڑا دیے جاتے ہیں جس پر ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کی ہدایات درج ہوتی ہیں۔ صبح آٹھ بجے کی پرواز اور بریانی کا تقاضا۔ پہلے ڈائٹ اور وائٹ بوتل پر اصرار ہوتا ہے کہ اس میں کیلوریز کم ہوتی ہیں اور کھانا کھاتے ہی دے مرنڈا کے گلاس پر گلاس جس میں سب سے زیادہ کیلوریز ہوتی ہیں۔ یہ مجموعی مزاج بن چکا ہے۔

انگریزی اور اردو میں لکھ کر لگایا ہوتا ہے، پرواز کے شروع میں اعلان کیا جاتا ہے باوجود اس کے سگریٹ پینے کی کوشش بار بار کی جاتی ہے۔ جو لوگ اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی کی پرواہ بھی نہ کریں تو آپ کیا کر سکتے ہیں۔ ایک صاحب نے شکایت کی کہ ٹوائلٹ ٹھیک نہیں۔ جا کر دیکھا تو کوئی مسئلہ نہ تھا۔ واپس آ کر پوچھا کہ جناب سب کچھ ٹھیک تو ہے آپ کو شکایت کس بات کی ہے تو کہنے لگے ہاں میرا مطلب تھا کہ چھوٹا ہے۔ بندہ پوچھے کاک پٹ چھوٹا کر دیں کہ صاحب کے لیے باتھ روم بڑا ہو جائے۔ اور وہ صاحب اتنے فربہ بھی نہیں تھے ورنہ معذور افراد کے لئے ذرا بڑا ٹوائلٹ ہو سکتا ہے۔

یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ ایئرلایئنز اور جہازوں میں سہولیات لوگوں کے معیار پر پورا نہیں اترتیں مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ ذاتیات پر اتر آئیں۔ لوگوں نے عمر رسیدہ اور بوڑھے عملے کی رٹ لگائی ہوئی ہے، ازراہ مہربانی ایسے کرم فرما اپنے کنویں سے باہر نکلیں اور دنیا کی دوسری فضائی کمپنیوں کے میزبان بھی ملاحظہ کریں۔ چلیں اگر وہ اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ کسی اور ایئر لائین میں سفر کر سکیں تو گوگل کر لیں ان کی تسلی ہو جائے گی۔

ہانگ کانگ میں امارات کے ایک سینئیر فضائی میزبان سے ملاقات ہوئی۔ آپ کی اطلاع کے لئے وہ بھی پینتالیس سے اوپر کا تھا۔ جب اسے بتایا کہ ہم پاکستان کی ایک فضائی کمپنی میں کام کرتے ہیں تو بڑا متاثر ہوا۔ بھائی نے بس گلے نہیں لگایا بلکہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ جتنی بھی غیر ملکی ائیر لائینز کے عملے کو دیسیوں کے ساتھ فلائٹ کرنے کا شرف حاصل ہوتا ہے اکثر اہلاً و سہلاً کے بعد کان ہی سہلاتے پائے جاتے ہیں۔ ان کے لیے یہ ایک بالکل ہی الگ قسم کا تجربہ ہوتا ہے۔

جہاز میں لوگ سفر کرنے آتے ہیں مگر خدا جانے کیوں اتنے شوخے ہو جاتے ہیں۔ دبئی سے واپسی پر ایک جوان نے آتے ہی واویلا مچا دیا کہ نشست آرام دہ نہیں ہے۔ اس کو بتایا کہ سب ایک جیسی ہیں۔ خیر کچھ دیر بعد اس کا ساتھی آیا اور معذرت چاہی، باتیں ہوتی رہیں۔ بہت دیر تک وہ بے چارہ کھڑا رہا اور کوشش کرتا رہا کہ اس جہالت کے اثرات کم کر سکے۔ باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ وہ اعتراض کرنے والے بھائی پندرہ بیس لوگوں کے ساتھ ایک کمرے کے فلیٹ میں رہتے ہیں اور بے چارے محنت مزدوری کر کے پورے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں۔ انہیں شاید آرام کرنے کو جہاز کی سیٹ ہی نصیب ہوئی ہو گی، کیا کہا جاسکتا ہے۔

دیکھیے ٹکٹ سفر کرنے کے لیے خریدا جاتا ہے، بعض ائیرلائنز تو پانی کی بوتل کے بھی پیسے چارج کرتی ہیں۔ جب کوئی شخص سفر کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ بخوبی جانتا ہے کہ جس ائیر لائن میں جائے گا وہاں کھانے پینے کا ملے گا یا نہیں، کتنا تازہ اور کتنا باسی ملے گا، عملہ کس قسم کا ہو گا، کس عمر کا ہو گا، سیٹیں کیسی ہوں گی، باتھ روم کیسا ہو گا، اخبار ملیں گے یا رسالے، جہاز نئے ہوں گے یا پرانے، یہ سب باتیں نوے فیصد لوگوں کے علم میں ہوتی ہیں۔ کوشش کیجیے علم نہیں ہے تو ایک بار معلوم کر کے ٹکٹ خریدیے، اپنا سفر اور دوسروں کی زندگی خوش گوار بنائیے، ہاں، گھر والوں کے علاوہ بھی جو خواتین آس پاس ہیں وہ تھک سکتی ہیں، ان کے چہرے پر مختلف تاثرات آ سکتے ہیں، ان کی تصویریں کھینچنے کے بجائے اپنی طبیعت میں ان کے لیے احترام کے جذبات پیدا کیجیے۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 40 posts and counting.See all posts by khawar-jamal