سزائے موت ہو کہ نہ ہو؟


غرض جتنے معاشرے اتنے طریقے۔ کہیں گلا گھونٹنے کا رواج تھا تو کہیں گناہ گار کو سنگی ستون سے بکرے کی طرح لٹکا کر ایک ایک بوٹی آرام آرام سے کاٹی جاتی تاکہ وہ فوراً نہ مرجائے۔ کہیں موٹے ڈنڈے سے مار مار کر مارا جاتا تو کہیں تیل کے کھولتے کڑہاؤ میں ابال دیا جاتا۔ کسی رجواڑے میں تربیت یافتہ ہاتھی کے پیروں تلے کچلوانے کی رسم تھی تو کہیں قلعے کی فصیل سے نیچے گرا دیا جاتا تھا۔ کہیں آرے سے دو ٹکڑے کیے جاتے تو کہیں گڑے ہوئے شہتیر سے باندھ کر پیروں تلے بھوسے کے ڈھیر کو آگ لگادی جاتی اور بلند شعلے مجرم کو بار بی کیو کردیتے۔ کہیں مجرم کا سر لکڑی کے کھانچے میں پھنسا کر بلندی سے بڑا سا تیز دھار آہنی بگدا گرایا جاتا اور سر گاجر کی طرح کٹ کر سامنے رکھی ٹوکری میں اچھل کر آن گرتا تو کہیں مجرم کو توپ سے باندھ کر اڑا دیا جاتا لیکن ایسا زیادہ تر فوجی مجرموں کے ساتھ ہوتا۔

کہیں مجرموں کے طبقاتی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے سزائے موت میں بھی پروٹوکول دینے کا رواج تھا۔ مثلاً چین کی مانچو بادشاہت میں اگر ایک خاص درجے سے اوپر کے افسر یا شاہی خاندان کے رکن کو سزائے موت سنائی جاتی تو اسے دو راستے دیے جاتے۔ آیا حضورِ والا خودکشی کرنا پسند فرماویں گے یا پھر شاہی جلاد کے ہاتھوں پارچے اتروانا۔ دونوں صورتوں میں اعلیٰ مجرم کو سرکاری گھوڑا گاڑی میں جائے سزا تک لے جایا جاتا جب کہ عام مجرموں کو پیدل ہی گھسیٹا جاتا۔

آج کل طرح طرح سے سزائے موت دینے کا رواج کم ہوگیا ہے۔ اب مجرم کو ٹھکانے لگانے کے لیے سعودی عرب وغیرہ میں سر قلم ہوتا ہے۔ چین میں گردن میں گولی ماری جاتی ہے۔ شمالی کوریا اور روس وغیرہ میں فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کرنے کا رواج ہے۔ امریکا میں زہریلا انجکشن، برقی کرسی اور گیس چیمبر میں بھیج کر سانس گھوٹ کے جان لی جاتی ہے اور بھارت و پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں رسے کے ذریعے پھانسی دی جاتی ہے اور ایران میں کبھی ہجوم کے سامنے لٹکایا جاتا ہے، کبھی جیل کے احاطے میں۔

اب سے سو ڈیڑھ سو برس پہلے تک بہت سے جرائم کی سزا موت تھی۔ آج یورپی یونین کے رکن ممالک میں کسی کو سزائے موت نہیں دی جاتی لیکن اسی یورپ میں پندھرویں سے اٹھارویں صدی تک ہزاروں عورتوں کو جادوگرنیاں اور چڑیلیں قرار دے کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ شاہِ انگلستان ہنری ہشتم تو اتنے شوقین تھے کہ ان کے دور میں بہتر ہزار سے زائد مجرموں کو سزائے موت عطا ہوئی۔ سن اٹھارہ سو بیس تک انگلستان میں دکان سے روٹی چرانے، کسی کا جانور کھول کر لے جانے اور عوامی مقامات پر درخت کاٹنے سمیت ایک سو ساٹھ جرائم کی سزا موت تھی۔ آج کل چین میں سب سے زیادہ جرائم قابلِ مرگ ہیں۔ معاشی ہیرپھیر سمیت اس فہرست میں پچپن جرائم شامل ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ چین میں شامل ہانگ کانگ اور مکاؤ کے نیم خودمختار علاقوں میں سزائے موت نہیں دی جاتی۔
زیادہ تر ممالک میں قتل اور غداری کی سزا موت ہی ہے۔ کچھ ممالک میں مقامی سماجی رسوم و رواج و نظریے کے اعتبار سے گردانے جانے والے جرائم بھی سزائے موت کی فہرست میں شامل ہیں۔ جیسے شمالی کوریا میں عصمت فروشی، ایران و افغانستان و بنگلہ دیش میں ہم جنس پرستی، نائجیریا، سوڈان اور ماریطانیہ میں لواطت، سعودی عرب میں جادو ٹونہ اور ارتداد، پاکستان میں توہین ِ مذہب، عراق میں نقل و حمل کے قافلوں پر حملہ، اسرائیل میں یہودیوں کے خلاف جنگی جرائم و نسل کشی، تائیوان و تھائی لینڈ میں سرکاری عمارتوں کی آتش زدگی، ویتنام اور الجزائر میں دستاویزی جعلسازی، بیلا روس میں غیرملکی عہدیداروں پر حملہ، بہاماز میں بحری قذاقی، کیوبا میں بچوں کا ریپ، ان کی عصمت فروشی یا ان کی پورنو گرافی، گیانا میں ٹارچر اور کوئی پچیس ممالک میں پانچ گرام سے ایک کیلوگرام تک منشیات برآمد ہونے پر سزائے موت ہے۔

سزائے موت کے موجب شہری اور فوجی جرائم میں بھی فرق ہے۔ مثلاً فوجی قوانین کے تحت بزدلی، بھگوڑا پن، حکم عدولی اور بغاوت جیسے جرائم بہت سے ممالک میں سزاِ موت کے زمرے میں آتے ہیں۔ جیسے دوسری عالمی جنگ کے دوران کہا جاتا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد سوویت فوجیوں کو بھگوڑے پن کے جرم میں گولی ماری گئی۔ سرکاری نظریے سے انحراف بھی سزائے موت کا سبب بنتا رہا۔ مثلاً سن تیس کے عشرے میں گریٹ ٹیرر کے اسٹالنی دور میں ایک ملین سے زائد روسی شہریوں کو انقلاب دشمن قرار دے کر سزائے موت دی گئی۔ یا چین میں انیس سو انچاس کے کیمونسٹ انقلاب اور پھر سن ساٹھ کے عشرے میں ثقافتی انقلاب کے دور میں آٹھ لاکھ انقلاب دشمنوں یا منحرفین کو سزائے موت ملی۔ ایران میں سن80 کے عشرے میں کیمونسٹ تودہ پارٹی اور اسلامی سوشلسٹ مجاہدینِ خلق کے ہزاروں حامیوں کو مذہبی عدالتوں نے سرسری سماعت کرتے ہوئے قابل ِ سزا ٹھہرایا اور پھر انھیں برسرِ عام یا جیل کے احاطوں میں پھانسیاں دی گئیں یا گولی ماری گئی۔ انیس سو انہتر میں کعبے پر قبضہ کرنے کی کوشش کے جرم میں ساڑھے چار سو ملزموں کو ہتھیار ڈالنے کے بعد سر قلم ہونے کی سزا ملی۔ جب کہ شام اور مصر میں اخوان المسلمون کا رکن ہونا سزائے موت کو دعوت دینا ہے۔

جہاں ریاستی عمل داری کمزور ہوتی ہے تو وہاں غیر ریاستی متوازی عدالتی نظام بھی سزائے موت سناتا ہے۔ مثلاً پاکستان میں طالبان، کئی قبائلی جرگے، کچھ دیہی پنچائتیں اور شہری مسلح گروہ پچھلے کئی برس سے سزائے موت سنا کر اس پر عمل بھی کررہے ہیں۔ کئی مرتبہ ہجوم بھی اپنے طور پر کسی شخص کو مجرم قرار دے کر بہیمانہ طریقوں سے موت کی سزا دیتا ہے۔ جیسے کراچی میں ایک سے زائد مرتبہ کچھ مشتبہ ڈاکوؤں کا جلایا جانا، یا جنوبی پنجاب کے علاقے چنی گوٹھ میں ایک ملنگ کو زندہ جلایا جانا یا دو برس پہلے سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں دو نو عمر بھائیوں کی پھانسی کے المیے سمیت بیسیوں واقعات ہیں جن میں ہجوم نے وکیل، جج اور جلاد کا کردار ادا کیا۔

کیا سزائے موت دینے سے جرائم اور بغاوت کے رجحان میں کمی ہوتی ہے؟ اس بارے میں بحث خاصی پرانی ہے۔ بارہویں صدی کے ایک سرکردہ یہودی مذہبی عالم موسیٰ بن میمون کے بقول ’’ ایک بے گناہ شخص کو موت کے حوالے کرنے سے بہتر ہے کہ ایک ہزار گناہ گاروں کو بری کردیا جائے’’۔ سزائے موت کے مخالفین یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ دیگر مجرموں کے بارے میں اگر معلوم ہوجائے کہ انھیں غلط طور سے سزا ملی ہے تو اس کا کفارہ یا تلافی سزا میں کمی یا بریت کی صورت میں ممکن ہے لیکن اگر کسی کی پھانسی کے بعد یہ پتہ چلا کہ وہ بے گناہ تھا تو اسے دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً اسرائیل میں مائر ٹوبیانسکی کو غداری کی پاداش میں سزائے موت کے بعد باعزت بری کردیا گیا۔ خود امریکا میں انیس سو بانوے سے دو ہزار چار کے درمیان سزائے موت سنائے جانے والے پندرہ قیدیوں کے ڈی این اے ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ وہ اصل مجرم نہیں تھے۔

سزائے موت حتمی سزا ہونی چاہیے یا نہیں اس بارے میں قدیم زمانے سے ہی شبہات چلے آ رہے ہیں۔ چین میں سن سات سو سینتالیس سے سات سو انسٹھ کے تیرہ برس کے دوران بادشاہِ وقت نے موت کی سزا منسوخ کردی اور اسی چین میں آج دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ سزائے موت پر عمل کیا جاتا ہے۔ جاپان میں آٹھ سو اٹھارہ سے گیارہ سو چھپن عیسوی کے بیچ تین سو اڑتیس برس تک سزائے موت کالعدم قرار رہی۔

خود اسلام میں جن جرائم پر سزائے موت دینے کی بات کی گئی ہے، ان میں فساد فی الارض سرِ فہرست ہے۔ اس کے بعد قتل ِعمد آتا ہے لیکن اکثر حالات میں خوں بہا کی گنجائش بھی موجود ہے۔ اگرچہ زنا کی سزا سنگساری ہے لیکن اس پر عمل درآمد کی شرائط انتہائی کڑی رکھی گئی ہیں اور یہ کہ سزا و جزا کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے۔

جدید ریاستوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو وینزویلا میں سزائے موت اٹھارہ سو تریسٹھ سے ساقط ہے۔ جب کہ امریکا میں سزائے موت کا اختیار ریاستی حکومتوں کے پاس ہے لہٰذا اس لحاظ سے ریاست مشی گن پہلی ریاست تھی جس نے اٹھارہ سو چھیالیس میں سزائے موت منسوخ کردی۔ مگر آج بھی امریکا کی پچاس میں سے بتیس ریاستوں میں سزائے موت دی جاسکتی ہے اور اس سزا پر سب سے زیادہ عمل درآمد ٹیکساس میں دیکھنے میں آیا ہے۔

سن انیس سو ستتر تک اقوامِ متحدہ کے سولہ رکن ممالک میں سزاِ ئے موت قانونی دفعات میں سے نکال دی گئی۔ آج اقوامِ متحدہ کے ایک سو رکن ممالک میں سزائے موت کو قانون سے خارج کیا جاچکا ہے۔ ان میں یورپی کونسل کے سینتالیس ارکان بھی شامل ہیں۔ کونسل کے صرف ایک رکن بیلا روس میں سزائے موت برقرار ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سات رکن ممالک نے سزائے موت کو صرف جنگی جرائم تک محدود کردیا ہے۔ اڑتالیس رکن ممالک میں اگرچہ سزائے موت کا قانون ہے لیکن پچھلے دس برس سے اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس اعتبار سے اقوام ِ متحدہ کے ایک سو پچانوے اراکین میں سے صرف چالیس رکن ممالک میں اس سزا پر باقاعدگی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔ سوائے سعودی عرب کے سب ہی ممالک نے یہ اصول تسلیم کیا ہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے مجرم کی کم ازکم عمر اٹھارہ برس ہونی چاہئیے۔ لیکن کچھ ممالک میں اس اصول پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو پارہا۔

پاکستان میں اگرچہ اس وقت ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں مگر جون دو ہزار آٹھ کے بعد سے اب تک اس پر عمل درآمد معطل ہے (یہ کالم 1 اپریل 2014 کو تحریر کیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان نے سزائے موت سے پابندی ہٹا لی تھی اور کئی افراد کو اب پھانسی دی جا چکی ہے: مدیر)۔ اس عرصے میں صرف ایک سابق فوجی محمد حسین کو نومبر دو ہزار بارہ میں پھانسی دی گئی۔ نواز شریف حکومت نے اگرچہ سزائے موت پر عمل درآمد کی معطلی کے احکامات میں توسیع نہیں کی لیکن ان پر غیر رسمی عمل جاری ہے۔

پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ سزائے موت سنائی جاتی ہے۔ کیا پاکستان کو سزائے موت کا قانون منسوخ کردینا چاہیے؟ کیا سزائے موت کے ہوتے ہوئے پاکستان میں پچھلے چھیاسٹھ برس کے دوران جرائم کا گراف کم ہوا؟ کیا پاکستان کا نظامِ جزا و سزا اتنا شفاف اور جدید ہے کہ کسی کو بلا شک و شبہہ سزائے موت سنا سکے؟ کیا سزائے موت سنانے کے مجاز تمام اگلے اور پچھلے جج متفق ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی مبنی برانصاف اور برحق تھی؟ سزا کا خمیازہ اور اس کا سبق صرف زندہ آدمی کو مل سکتا ہے۔ موت تو بھیانک مجرم کو بھی سزا کی اذیت سے چھٹکارا دے دیتی ہے۔ اب مزید کیا عرض کروں؟

1 اپریل 2014


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).