روح تجھ سے کلام کرتی ہے۔ ثمینہ یاسمین کی کتھا


ثمینہ یاسمین؛ ایک روایتی پاکستانی گھریلو عورت ہے، جس کے وہی مخصوص حالات اور مسائل ہیں، جن کا بظاہر کسی کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ ثمینہ یاسمین بھی اس نظام کو بدلنے کی اور اس میں نئی روح پھونک دینے کا اختیار اور ملکہ نہیں رکھتی، لیکن اس کی خوبی یہ ہے، کہ وہ ایک اوسط پاکستانی عورت کی طرح ان حالات میں خاموشی سے زندہ درگور نہیں ہو جاتی، بلکہ سخت مزاحمت اور محنت پر یقین رکھتی ہے۔ جوانی ہی میں بیوہ ہو جانے کے بعد، اس نے گھر اور روزگار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی اور ایک نئے عزم اور جذبے کے ساتھ شاہ راہ حیات پر اپنا سفر جاری رکھا۔ اس کا واسطہ بھی یقینا ان تمام عجیب و غریب مسائل اور معاملات سے پڑا ہوگا، جو کسی بھی تن تنہا عورت کو بے بس بنا دیتے ہیں، لیکن ثمینہ یاسمین نے ادب خاص طور پر شاعری میں اظہار کو اپنی قوت بنا لیا۔ تخلیق و تحقیق کے اس جذبے نے اس میں ایک نئی توانائی بھر دی اور اس کے اعتماد میں اتنا اضافہ کر دیا، کہ اسے نہ تو تنہائی کا احساس رہا اور نہ کم زوری کا، اور ایک لڑکی جس کے بارے میں بقول اس کے تاثر یہی تھا کہ:

مشکل ہے اس کے ساتھ اس کوئی عمر بھر چلے
لڑکی کہ با شعور ہے، شعلہ زبان ہے

سارا زمانہ اس کے ساتھ ہو لیا اور اس کی حیثیت معاشرے کی ایک نباض رہنما کی سی ہو گئی۔ یہ منصب کوئی معمولی منصب نہیں ہے۔ آج ثمینہ یاسمین ایک صاحبِ کتاب شاعرہ ہے۔ اس کا جذبہ، اس کی ہمت، اس کا اعتماد اور اس کا فن، ایک عام پاکستانی لڑکی کے لیے قابلِ رشک عناصر ہیں۔ یہ سب کچھ ثمینہ کے لیے آسان نہیں تھا لیکن اس کا عزم، اس کا ہتھیار بن گیا، جس نے اس کی راہوں کو آسان بنا دیا۔ چناں چہ وہ خود کہتی ہے:

مجھ سے شعورِ عہد نے چھینی ہیں شوخیاں
آگے نکل کے عمر سے بڑھنا پڑا مجھے

زندگی کے اس سفر میں اس نے کئی کردار نبھائے، کہیں وہ اچھی اور خیال رکھنے والی ماں نظر آتی ہے، کہیں وہ ایک ذمہ دار دفتری خاتون دکھائی دیتی ہے۔ ایک جانب قدرت نے اسے عورتوں کے لیے جدوجہد کی علامت بنایا ہوا ہے، تو دوسری جانب اس کی اندر کی شاعرہ، اسے تخیل کے نت نئے منطقوں کی سیر پر آمادہ رکھتی ہے۔ فکر و تخیل کے اس سفر میں وہ تصوف کی تعلیمات سے بھی بھرپور استفادہ کرتی نظر آتی ہے، شاہ لطیف بھٹائی کو تو وہ اپنا روحانی باپ سمجھتی ہے۔

وہ مجھ کو قید کر کے کیا میرے خوابوں کو توڑیں گے
میں اپنے شاہ کی ہوں ماروی اور ہر شب کو ڈھاتی ہوں
میں بنتِ وادیء مہراں، مری مٹی وفا پیشہ
اسی کے رنگ سے بنجر زمیں میں گل اگاتی ہوں

روحانیت کے ساتھ اس کی دل چسپی کا یہ سفر بھٹ شاہ سے، داتا دربار لاہور اور بری امام سرکار اسلام آباد تک پھیلا ہوا ہے۔ اس نے ادب و فن کی دھن میں بہت کچھ تیاگ دیا، پھر اپنی دنیا کو اپنے خوابوں میں از سر نو تعمیر کیا، اور اپنے دل ہی میں اپنی خواہشوں کے فلک بوس محلات بنائے، اور انھی بلندیوں سے مادی دنیا کا نظارہ بھی جاری رکھا۔

یہ دو طرفہ مجاہدہ ہے، جس کے کئی پہلو ہیں، خاص طور پر ایک دنیا کے ساتھ مربوط رہنا، اور دوسرا اپنے یوٹوپیا میں، اپنی مرضی کی زندگی گزارنا۔

تمھارے نام پہ حجروں میں بیٹھنے والے
نکل بھی آئیں تو اب شام کو کہاں جائیں

روح تجھ سے کلام کرتی ہے
سانس لیتی ہے دل کشی مجھ میں

ایسا دہرا کردار صرف روحانی طاقت ہی سے ممکن ہوتا ہوگا۔

مختصر یہ کہ ثمینہ، محض ”روح تجھ سے کلام کرتی ہے“ کی مصنفہ اور شاعرہ ہی نہیں، بلکہ ایک اوسط پاکستانی عورت کے لیے inspiration کا ایک ذریعہ ہے۔ وہ عزت اور اعتماد کے ساتھ زندگی گزارنے کا ایک پورا پیکیج ہے۔ وہ پاکستانی عورت کے لیے افتخار کی ایک وجہ ہے۔

اس کتاب میں شامل مشاہیر سحر انصاری، افتخار عارف، پیرزادہ قاسم، شاہدہ حسن، عابد علی بیگ اور دیگر کی آرا، ادبی فنی اور تنقیدی اعتبار سے بہت اہم سہی، مگر مجھے اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا کی کہی ہوئی، یہ بات پسند آئی کہ ثمینہ یاسمین کی شاعری ارفع انسانی اقدار کی شاعری ہے۔ کاش ہمارے سب لکھنے والے اس بات کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔

مبارک باد ثمینہ یاسمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).