لاوڈ اسپیکر مذہب کی خدمت نہیں کر رہا، فتنہ پھیلا رہا ہے


گذشتہ دنوں ایک فیس بک پوسٹ وائرل ہوا جس کا عنوان تھا “خدا کی بے آواز لاٹھی اور دو سچے واقعات” جس میں احمد پور شرقیہ کے دو سانحات بیان کیے گئے۔ دونوں کا آغاز ایک جیسے الفاظ سے ہوتا تھا کہ “مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے”۔ ایک واقعہ چھے جولائی 2012 کا تھا جسامیں ایک دماغی ابنارمل آدمی، غلام عباس، کو قرآن پاک کے اوراق جلانے کے جھوٹے الزام میں مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے اعلان سننے کے بعد سینکڑوں مشتعل افراد نے تشدد کے بعد زندہ جلا دیا اور جلتے زنده انسان کو پتھر مارتے رہے جب تک کہ وہ شخص جل کے راکھ نہ ہو گیا۔ دوسراواقعہ تھا پچیس جون 2017 کا جس میں دو سو لوگ زمیں پہ الٹے ٹینکر سے رستا تیل جمع کرتے اچانک آگ بھڑکنے سے جل کر خاک ہو گئے۔ بتایا گیا کہ مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے اعلان کر کے مزید لوگوں کو جمع کیا گیا تھا کہ تیل بہہ رہا ہے۔ دوڑو اور پا لو۔

یہ تو ہوئے دو سانحات۔ اب مسجد کے لاوڈ اسپیکر کے کچھ مزید کارنامے ملاحظہ فرمائیں۔

وہ ایک مسیحی جوڑا تھا جو اپنا جوڑ جوڑ دکھانے کے بعد اینٹیں بنا بنا کر اپنے لئے کچھ اتنے روپے کماتا تھا جتنے عام طور پر ایک امیرزادہ ایک ہفتے میں پیزا کھانے میں اڑاتا ہے۔ مگرپھر کچھ اتنی رقم کا تنازعہ ہوا جتنے کی ایک امیرزادی مینی پیڈی کیور کرواتی ہے۔ مالک نے سوچا آخر کیوں نہ چند ہزار اپنی جیب میں ڈال کر ان دونوں سرکشوں کا قصہ ہی ختم کروں تاکہ آئندہ کوئی کمی کمین مجھ سے اپنی رقم کا تنازعہ نہ کر سکے۔ بس افواہ اڑائی کہ دونوں گستاخ ہیں۔ خبر ابھی پھیلنا شروع ہی ہوئی تھی کہ بیچ میں آیا لاوڈ اسپیکر اور اپنا کام دکھا دیا۔ سینکڑوں لوگ جمع ہوئے۔ تشدد اور گھسیٹنے سے ایمان کی تجوید نہ ہوئی تو جلتے بھٹے میں ڈالا اور اہل ایمان بن گئے۔ مومنین کا یہ قافلہ جب حقیقت کھلی تو ایک دوسرے پہ نام ڈال کر خود اس ‘سعادت’ سے دستبردار ہوا۔

ایک بچی تھی۔ علاقے کا مولوی چاہتا تھا کہ عیسائی اہل علاقہ محلے سے نکل جائیں تو اس نے “ایمانی جذبے” سے سرشار ہو کر ایک سازش گھڑی۔ جلے ہوئے سوختہ اوراق کے بیچ میں مذہبی لٹریچر اور مقدس اوراق کو رکھ کر شور ڈالا کہ لڑکی نے گستاخی کر ڈالی۔ ذرا دیر میں لاوڈ اسپیکر نے کام دکھایا اور پھر ایسا ہوا کہ 300 مسیحی خاندانوں کو وہ علاقہ چھوڑنا پڑا۔ جب حقیقت کھلی تو قاری صاحب کے خود کے شاگردوں نے گواہی دی اور کہا کہ ہم نے تو روکنا چاہا مگر حضرت کا خیال تھا کہ عیسائی اہل علاقہ کو نکالنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ آج وہ بچی اور اسکے اہل خانہ بیرون ملک جان بچانے کیلئے منتقل ہو چکے ہیں کیونکہ یہاں رہنے کی جرات کرتے تو انکی ہڈیوں کا سرمہ ہی ملتا۔

یہ شاید دنیا کے اذیت ناک لمحوں میں سے ایک لمحہ ہے۔ جوان بیٹے کا ادھڑا، پھٹا، بھنبھوڑا ہوا لاشہ سامنے رکھا ہے۔ انہوں نے اسے اعلی تعلیم کیلئے بھیجا تھا مگر انہیں اندازہ نہ تھا کہ وہ بھوکے بھیڑیوں کے درمیان ہے۔ سچ بولنے کی سزا تھی کہ آواز لگنے پہ ساتھ بیٹھنے والے بھی اسکا گلا کاٹنے کو آئے۔ کسی نے پتھر، کسی نے گملا، کسی نے ڈنڈا مارا۔ مزید ایمانی تقاضے کی تسکین کیلئے دوسری منزل سے نیچے پھینکا۔ اور جذبہ جاگا تو برہنہ کر کے گھسیٹا۔ جب دم توڑ چکا پھر بھی مذہبی جوش و خروش سے اپنا ایمان جگاتے رہے۔ میت گھر کو پہنچی تو ظلم پر مزید ظلم ہوا۔ مولوی صاحب نے نہ صرف یہ کہ ایک افواہ کی بناء پر اسکا نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کیا بلکہ لاوڈ اسپیکر پہ لوگوں کو بھی اسکا جنازہ پڑھنے اور پڑھانے سے منع کیا۔ ایک بوڑھے باپ کی اس سے بڑی بے بسی کیا ہو گی کہ اسکی جوان اولاد کو شک کی بنیاد پر نہ صرف مار دیا جائے بلکہ اسکا جنازہ پڑھانے سے بھی انکار کیا جائے۔ شاید ایسی ہی قیامت کی گھڑی میں آسمان کو دیکھ کر دل سے آواز نکلتی ہو گی کہ آسمان والے مالک! یہ زمین کے خدا ہمارے مالک کب سے بن بیٹھے؟

یہ صرف چند واقعات ہیں۔ ایسے نجانے کتنے ہونگے کہ لاوڈ اسپیکر سے کبھی کسی کو گستاخ قرار دیا جاتا ہے تو کبھی کسی سیاستدان کو ووٹ کا حقدار۔ کبھی پولیو کے قطروں کو یہود و نصاری کی سازش بتایا جاتا ہے تو کبھی اس مسجد و مدرسے کی تعمیر کیلئے چندہ مانگا جاتا ہے جس نے قیامت تک مکمل نہین ہونا۔

پاکستان میں کسی فرد یا ادارے کو یہ اعزاز حاصل نہیں کہ اسے ہر گلی محلے میں موجود مساجد کی کل تعداد کا علم ہو۔ بیشتر مساجد میں موجود لاوڈ اسپیکر دین کی تشہیر کے بجائے نفرت کی ترویج اور شخصیات کے مفاد کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ یہ یقینا ریاست کی ہی ناکامی ہے کہ چاند تک دیکھنے کیلئے کمیٹی بنا دی جاتی ہے مگر ایک مستند سلیبس نہیں بنایا جاتا کہ مدرسوں کا نصاب تو دور جمعہ کے خطبہ کو موقع غنیمت جانئے اور کردار کو تعمیر کیجئے۔ تمام مسجدوں میں رشوت کے خاتمے، صفائی کی اہمیت، خواتین کے احترام، یتیم کے مال کی حفاظت، لا وارث کی کفالت و حفاظت، اخلاقی پستی اور مال ہڑپنے کے گناہ کے بارے میں ایک ساتھ لیکچر دیئے جائیں تو یقینا کسی حد تک کردار تعمیر ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں آپسی نفرت کے ساتھ ساتھ افغانستان، شام، یمن، لیبیا، سعودیہ، ایران، روس، امریکہ، فرانس پہ لیکچر دیکر ایک احمقانہ سی فارن پالیسی مسجد میں بیٹھ کر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خدارا لاوڈ اسپیکر کی شرارت کو روکیئے۔ یہ بہتان لگاتا ہے، نفرت کے بیج بوتا ہے، امت میں تفرقے ڈالتا ہے۔

میرا قطعا کسی قسم کا کوئی مفاد کسی ٹولے کی خوشامد یا ملامت کے ساتھ وابستہ نہیں۔ میری رائے میں اذان کے علاوہ لاوڈ اسپیکر کے استعمال پہ سختی سے پابندی ہونی چاہیئے۔ دین کی ترویج ویسے بھی نرم لہجے میں گفتگو کر کے ہوتی ہے۔ اسکول میں بھی بچوں کو وہی استاد پسند ہوتا ہے جو نرمی اور لگاو سے بات کرے۔ گرجنے برسنے والے استاد کی آدھی بات ویسے ہی دماغ میں نہیں آپاتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ آواز لگنے پہ گلا کاٹنے کیلئے دوڑ لگانے والے بہت ہیں اور تحقیقات کرنے کا جگر رکھنے والے کم۔ ابھی اطلاع ملی کہ گجرانوالہ میں چور سمجھ کر ایک معصوم کو مارنے کے بعد اب مجمع انکاری ہے کہ ہمیں تو کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔

مذہب کی اصل روح انسانیت کی تبلیغ ہے۔ تفرقوں اور نفرت کے بیج نہ بوئیں۔ ہمدردی اور برابری کا سبق عام کریں۔ اپنے اعمال، کلام اور ارادوں سے خود اپنے رحمت اللعالمین (ص) کے امتی ہونے کی گواہی دیں۔ مسجدوں کو خوشگوار ماحول اور تبادلہ خیال کی جگہ بنائیں نہ کہ جلال و غضب کی۔ کسی کے جان، مال اور عزت نفس کا تحفظ کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھ کر نبھائیں تو اس سے بڑھ کر دین کی تبلیغ کوئی اور نہیں ہو سکتی اور ایک مرتبہ مزید یہ جان لیں کہ لاوڈ اسپیکر سے دین کی کوئی خدمت نہیں ہو رہی مگر اسکے منفی استعمال سے نفرت اور تفرقے بڑھتے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).