امریکی ترقی پسند اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے قریب!


امریکی ترقی پسندوں نے سیاسی منظرنامہ آہستہ آہستہ اپنے حق میں تبدیل کر دیا ہے اور خواب کی تعبیر بہت قریب نظر آرہی ہے۔ وہ واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ اور وال سٹریٹ کے ساتھ براہ راست تصادم میں ہیں۔ یہ کسی بھی طرح سے ”کمیونسٹ“ یا ”مارکسسٹ“ نہیں ہیں اور مخالف طاقت کو“سرمایادارانہ“ یا ”اوپن مارکیٹ اکانومی“ بھی نہیں کہتے۔ ان کے مطابق یہ نظام 1979 میں ”نیو لبرلسٹ“ نظام کی آمد سے زندہ درگور ہوچکے ہیں۔ یہ ایک ”سوشلسٹ ڈیموکریٹک سیاسی تحریک“ کے طور پر بہت ہی موجودہ اور پریکٹیکل ہیں اور گزشتہ کمیونزم، سوشلزم، ماؤوزم یا مارکسزم کے ساتھ ان کا کوئی سروکار نہیں، ہاں مارکسزم سے رہنمائی ضرور لیتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو ”سوشلسٹ ڈیموکریٹس“ کہتے ہیں اور اس نے ”قبضہ تحریک“ یا ”آکوپائی تحریک“ سے جنم لیا ہے۔

اب تک 80 فیصد کالج اور یونیورسٹی جانے والے جوان اس سیاسی انقلاب کا حصہ ہیں۔ وہ گزشتہ انتخابات میں اس زبردست تبدیلی کے بہت قریب آ گئے تھے، لیکن جیسا کہ آپ اب تک جان چکے ہوں گے کہ جان پوڈسٹا، ڈیبی شولزمن اور ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی (ڈی این سی) نے نیو لبرلسٹسٹ میڈیا کی مدد سے برنی سانڈرز کو بہت بڑا دھوکہ دیا۔ ہیلری کلنٹن کے خلاف مہم میں برنی سانڈرز دھاندلی کے ذریعے ہیلری سے ہار گئے تھے اور ہیلری ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں آگئیں تھیں۔ گو کہ دھاندلی کی خبر لیک ہونے پر جان پوڈسٹا اور ڈیبی شلزمن دونوں کو استعفی دینا پڑا تھا، لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی، جس نے اس تحریک کو ظاہری طور پر تو دھچکا دیا تھا، لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے اس گھناؤنے کھیل کے ردعمل میں دونوں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹیوں کا سامنا کرنے کے لئے تحریک میں اور بھی زیادہ غصہ اور ولولہ پیدا ہو گیا ہے۔

ٹرمپ اور برنی سانڈرز دونوں اسٹیبلشمنٹ کے مخالف امیدوار تھے جبکہ ہیلری اسٹیبلشمنٹ اور وال سٹریٹ کی امیدوار تھیں۔ انتخابات کے موقع پر آزاد ذرائع ابلاغ اور کارپوریٹ ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا کہ اگر برنی سانڈرز دوڑ میں رہیں تو وہ آسانی سے ٹرمپ کو شکست دے سکتے ہیں۔ نیو لبرلسٹ، ہیلیری کلنٹن نے اپنے مہم میں ”سپر پی اے سی“ کو اپنے مہم کو فنڈ کرنے کے لئے استعمال کیا، جس میں تمام بڑے مالیاتی ادارے، بڑے بینک اور وال سٹریٹ شامل تھے۔ ٹرمپ اپنی مہم اپنے پیسے سے چلا رہا تھا لیکن برنی سانڈرز کی مہم ٪80 نوجوانوں کی طرف سے فنڈ کیا گیا تھا۔ مہم میں ادا کردہ عطیہ کی زیادہ تعداد 27۔ 00$ ریکارڈ کی گئی اور یہی وجہ تھی کہ برنی کے مہم نے دوسرے دونوں سے زیادہ فنڈز جمع کیے۔ ہر طالب علم، مہم میں اپنی جیب خرچ سے فی مہینہ 27 ڈالر ادا کر رہا تھا۔ ہلیری کی مہم کو برنی کے ساتھ رفتار رکھنے کے لئے مشکل پیش آرہی تھی کیونکہ ان کی توقع نہیں تھی کہ برنی کی مہم اتنی دیر تک لڑ بھی سکتی ہے۔ آخر میں ڈی این سی کے جعلی کھیل اور مقفل ”سپر وفد“ کی وجہ سے، جو جمہوری طریقے سے نامزد ہونے والے عمل کا سب سے غیر جمہوری عنصر ہے، برنی کے مہم کو نقصان پہنچا اور ہیلیری جیت گئیں۔

برنی سانڈرز اس تحریک کا رہنما ہےجسے ”سیاسی سوشلسٹ ڈیموکریٹک انقلاب“ کہتے ہیں اور اس کے ساتھ کانگریس میں موجود ”پروگریسیو کاکس“ بھی ہے۔ ان میں کچھ ممتاز نام الزبتھ وارین، کیتھ ایلیسن، اور تولیسی گیبارڈ ہیں۔ عظیم دانشوروں جیسے کرس ہیجز، نام چومسکی، رابرٹ سکیر، ، رالف نادر وغیرہ کی طرف سے اس کی حمایت کی جاتی ہے اور ان کا اپنی میڈیا بھی ہے جس نے سی این این، اے بی سی، این بی سی، فاکس وغیرہ جیسے نیولبرلسٹ اور کارپوریٹ میڈیا (جن کو اب مغرب میں ”دھوکہ دہی کے ہتھیار“ کہتے ہیں) کے ساتھ بھرپور مقابلہ کیا ہے اور کر رہا ہے۔ آپ میری اس بات سے یقیناً اتفاق کریں گے کہ امریکہ اور یورپ میں تبدیلی آنا، ساری دنیا کو تبدیلی کی نوید سنا سکتا ہے۔ اب شمالی امریکہ میں اس تحریک کا سامنا ”نو لبرلسٹ معیشت“ سے ہے۔ جمی کارٹر، رونالڈ ریگن، بش اول، بل کلنٹن، بش دوم، اور اوباما نےدوسری جنگ عظیم کے بعد کے ”اقتصادی و فلاحی ریاست“ کو ”نیو لبرلسٹ کارپوریٹ اسٹیٹ“ میں تبدیل کردیا ہے۔ جو آہستہ آہستہ اس آفت کا شکار ہوا ہے جس سے اس تحریک نے جنم لیا ہے۔ امریکہ میں ہر جگہ بے روزگاری ہے۔ اجرت کم کرنا کیونکہ وہ افراط زر سے منسلک نہیں ہے؛ سوشل سروسز کو کم کرنا؛ غیر مناسب صحت کی دیکھ بھال؛ ظالمانہ کالج / یونیورسٹی ٹیوشن فیس؛ ناقابل یقین ہاؤسنگ؛ وائٹ ہاؤس میں بڑے ”سپیشل انٹرسٹ گروہوں اور ان کے سیاسی ایجنٹوں کا بہت بڑا اثر؛ عوامی پالیسی، وائٹ ہاؤس + سول اور فوجی بیوروکریسی + جنگجو صنعت، تیل کی صنعت، مالی صنعت وغیرہ سے ایک ”آئرن ٹرائنگل“ بن چکا ہے جو عام شہری کا خون چوس رہا ہے۔ ”گلوبلائزیشن“ نے محنت کش طبقے پر ایک اور خطرناک اثر کیا ہے۔ بڑے کاروباری ادارے سستے مزدور کی تلاش میں امریکہ سے باہر جا رہے ہیں، جس عمل نے مقامی صنعتوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ خاص طور پر امریکہ میں ”رسٹ بیلٹ ریاستوں“ کو جو امریکہ کے اندر تیسری دنیا کی طرح لگ رہے ہیں۔ رسٹ بیلٹ ریاستوں نے بھاری طور پر برنی سانڈرز کی حمایت کی لیکن ان کی غیر موجودگی میں، ٹرمپ کو ایک احتجاج کے طور پر ووٹ دیا۔ ہیلیری کی توقع تھی کہ برنی سانڈرز کے حامی آخر میں ان ہی کو ووٹ دیں گے اور وہ آسانی سے جیت جائیں گی۔ انہوں نے برنی سانڈرز اور الزبتھ وارن سے درخواست کی کہ وہ ان کی آخری ریلیوں میں شرکت کریں تاکہ وہ پروگریسوز کو اپنے حق میں لانے میں کامیاب ہو جائیں۔ دونوں نے خوشگوار طور پر ان کی ریلیوں میں ٹرمپ کے خلاف شرکت بھی کی حالانکہ پروگریسیوز کے ایک بہت بڑی تعداد نے ان سے کہا تھا کہ وہ شرکت نہ کریں۔

سی این این، اے بی سی، این بی سی، سب کہ رہے تھے کہ ہلیری آسانی سے جیت جائیں گی۔ انتخابی نتائج کی رات، ہلیری کے مہم کو کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ ٹائمز اسکوائر کے قریب اس نے ایک بہت بڑے ” جشن فتح“ کا اہتمام بھی کردیا تھا۔ نیو یارک ٹائمز نے پہلے سے ہی اگلے دن کا اخبار ایک عنوان کے ساتھ شائع کیا کہ ”تاریخ بنائی گئی ہے اور پہلی خاتون صدر وائٹ ہاؤس کے لئے منتخب ہوئی ہیں“۔ مگر جیسے جیسے رات گزر رہی تھی، ہیلری کی فتح کی امید خاک میں مل رہی تھی۔ صبح ہونے سے پہلے وہ بہت بری طرح سے ہار چکی تھیں اور ساری رات اپنے مہم کے ہیڈکوارٹر کے اندر گزار دی۔ برنی سانڈرز کے حامیوں نے، خاص طور پر ”رسٹ بیلٹ“ میں ہیلری کو ووٹ نہیں دیا۔ انہوں نے ان کی بجائے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب ایک انسان حقیقت کو جھٹلاتا ہے۔ سی این این، اے بی سی کےاینکرز کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا یہاں تک کہ ان میں سے بعض تو رونے کو آگئے تھے۔ اب چونکہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے لئے منتخب ہوچکا ہے اور اس کے تقریباً تمام ایگزیکٹو احکامات عدالتوں میں چیلنج ہورہے ہیں یا ترقی پسندوں کے احتجاج کے ذریعہ عوام میں غیرمقبول ہورہے ہیں، یہ امکان موجود ہے کہ ٹرمپ کا مواخذہ کیا جائے یا مڈٹرم انتخابات بھی ہوجائیں۔ جو ریاست ٹرمپ کے خلاف اس جنگ میں سب سے پیش پیش ہے، وہ کیلی فورنیا کی ”ترقی پسند“ ریاست ہے۔ موجودہ آزاد اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آج امریکہ میں انتخابات ہو جائیں تو برنی سانڈرز آسانی سے جیت جائیں گے۔ اگر پالیسیز کو فوری طور پر بہتر نہیں کیا گیا تو اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ چند ”ترقی پسند ریاستیں“ آزادی کا اختیار حاصل کر سکتے ہیں۔ کیلی فورنیا نے پہلے سے ہی درخواست دے دی ہے کہ وہ آزادی حاصل کرنے کے لئے ریفرنڈم کرانا چاہتی ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ریفرینڈم ووٹ 2019 میں منعقد کیا جاسکتا ہے۔ برنی سانڈرز کی تحریک میں دو آراء پائی جاتی ہیں۔ کیا ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ منسلک رہا جائے یا پھرتیسری پارٹی بنائی جائے؟ ہم جیسے لوگوں کا خیال ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی میں رہ کر اس پہ اثر انداز ہونا چاہیے۔ اب کون صحیح ہے اور کون غلط، اس کا فیصلہ تو بہرحال وقت نے کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).