جمہوریت کی جدوجہد اور پاکستانی عورت


پاکستان میں ابتدا سے جمہوریت اور آمریت کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے۔ پاکستان کی عورتوں نے آمریت کی بھرپور مخالفت میں شاندار کردار ادا کیا ہے۔ ہم یہ نہیں بھلا سکتے کہ 58ء میں مارشل کے آغاز سے 1971 کے سیاہ دور تک سابق مشرقی پاکستان میں جتنی سیاسی تحریکیں چلیں ان میں بنگالی خواتین نے جس سرگرمی سے حصہ لیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس دوران وہ ہزاروں کی تعداد میں جیل گئیں۔

آمریت کے اہلکاروں کی جانب سے جسمانی اذیت اور جنسی تشدد کا نشانہ بنیں اور آج یہ بھی تاریخ کا الم ناک حصہ ہے کہ مشرقی حصے کی سیاسی جدوجہد کو بڑھاوا دیتی ہوئی ہزاروں ناخواندہ دیہاتی عورتوں نے پڑھی لکھی اور ملازمت کرنے والی لڑکیوں اور عورتوں نے ان گنت راتیں ایسی گزاریں جب ان کی پیٹھ نے بستر کے آرام کا ذائقہ نہ جانا۔ ان کے مرد جنگلوں اور کھیتوں میں اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے تھے اور وہ اپنے گھروں کے پچھواڑے بنے ہوئے تالابوں میں ساری ساری رات اپنی بیٹیوں اور چھوٹی بہنوں کا ہاتھ تھامے پانی سے گردن باہر نکالے کھڑی ہوتی تھیں اور تالاب کا میٹھا پانی ان کے آنسوؤں سے نمکین ہوتا تھا کیونکہ باہر بھیڑیے گھومتے تھے۔

جنرل ایوب خان جو سامراج کے اشارے اور اس کی آشیرواد سے برسر اقتدار آئے تھے، پاکستان کو مغرب کی منڈی بنانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ بعض ایسی نام نہاد اصلاحات کریں کہ ان کے چنگل میں پھنسا ہوا ملک، قومی مفادات کے خلاف ایک ایسی جدید آبادی کی شکل اختیار کرلے جو سامراجی مفادات کا تحفظ کرسکے۔ چنانچہ انھوں نے عائلی قوانین اور خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر عورتوں کے ایک چھوٹے سے طبقے کو مطمئن کرنے کی کوشش کی، جو رجعت پرست قوتوں کے استبداد سے خوفزدہ تھیں اور اپنی جدوجہد کو ملک کی سیاسی جدوجہد سے مکمل طور پر جوڑنے کے بجائے اپنے لیے چند مراعات سے ہی مطمئن ہوجانا چاہتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایوب خان اور ان کے بعد قائم ہونے والی آمرانہ حکومتوں نے ’فیشن ایبل زنانہ اپوزیشن‘ یعنی طبقہ اعلیٰ کی بیگمات کو چھوڑ کر سیاست میں حصہ لینے والی تمام عورتوں کو بلا استثنیٰ کچلا۔

 1964 میں جب محترمہ فاطمہ جناح آمریت کے خلاف چلنے والی تحریک کی سربراہ کے طور پر سامنے آئیں اور جمہوریت کی علامت بن کر ابھریں تو مشرقی اور مغربی پاکستان کی جمہوریت پسند عورتوں سمیت ملک بھر کے عوام میں بیداری اور سیاسی شعور کی ایک اتنی اونچی لہر اٹھی جو آمریت کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جانے کے لیے بے تاب ہوگئی۔

اس زمانے میں ایوب خان کو اور نام نہاد علمائے دین اور بنیاد پرست طاقتوں کو اس کا احساس ہوا کہ ملک کی جمہوری جدوجہد میں اگر عورتیں بھرپور طور سے فعال ہوگئیں تو یہ ان کی موت کے مترادف ہوگا۔ چنانچہ متعدد علماء نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف فتوے دیے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام میں عورت سربراہ نہیں ہوسکتی، چنانچہ ملک اور قوم کے لیے کام کرنا یا کسی جمہوری جدوجہد میں عورت کا شریک ہونا، دین سے خارج ہونے کے مترادف ہے۔

محترمہ فاطمہ جناح کو جس شرمناک دھاندلی کے ذریعے شکست دی گئی وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک نہایت سیاہ باب ہے۔ ان کی نام نہاد شکست نے جہاں ملک کے مشرقی حصے میں عمومی طور پر شدید مایوسی اور بد دلی پھیلائی، وہیں ان کی چلائی ہوئی عظیم الشان جمہوری تحریک نے پاکستانی عورت کو اس بات کا احساس دلایا کہ آمروں اور ان کے حاشیہ برداروں کو چھوڑ کر وہ مرد جو کھیتوں میں بیج چھڑک رہا ہے، کارخانوں کو چلا رہا ہے اور چھوٹے اور بڑے شہروں میں طبقاتی نظام کا ایندھن بنا ہوا ہے، وہ اس کا ساتھی ہے۔

ان کی نظر میں سیاسی طور پر سرگرم ایک عورت اتنی ہی باتوقیر اور بااعتبار ہے جتنا کہ مرد اور وہ سیاسی جدوجہد کے میدان میں جنس کی تفریق نہیں کرتا، یہ نہیں دیکھتا کہ بات عورت نے کہی ہے یا مرد نے، وہ محض یہ سوچتا ہے کہ کہا کیا گیا اور اس کے حقوق کے لیے کس قدر آگے بڑھ کر بات کی گئی ہے۔ 1964 میں محترمہ فاطمہ جناح نے جس جمہوری قافلے کی سربراہی کی وہ غیر جمہوری قوتوں کی سازشوں سے منزل تک نہیں پہنچا لیکن ان کے اس عظیم الشان اقدام اور سیاسی پہل کاری نے پاکستانی عورت کی سائیکی پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے۔

محترمہ فاطمہ جناح نے سیاسی جدوجہد کا آغاز 1939 سے کیا تھا۔ اپنی پہلی سیاسی تقریر انھوں نے بمبئی میں کی تھی، جس میں مسلم خواتین کو آزادی کی تحریک میں حصہ ڈالنے کے لیے پہل کاری کا پیغام دیا تھا۔ وہ ہمیں کوئٹہ، کراچی، دلی اور لاہور میں خواتین کو متحرک کرتی اور انھیں ایک جمہوری جدوجہد میں سرگرمی سے حصہ لینے پر اکساتی دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان وجود میں آجاتا ہے تو لاہور میں تقریر کرتی ہیں۔

فروری 1948 میں سبی، بلوچستان خواتین کے پہلے عام اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’حصول آزادی کی جدوجہد میں آپ خواتین نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو عورتوں کو شدید مصائب اور تکالیف سے گزرنا پڑا اور کافی قربانیاں دینی پڑیں۔ اب جب کہ حالات زیادہ پرسکون ہیں میں چاہتی ہوں کہ آپ میدان عمل میں آئیں اور عورتوں اور بچوں کی معاشی اور تعلیمی ترقی کے لیے ممکنہ جدوجہد کریں۔‘‘

23 مارچ 1948 کو ڈھاکہ پہنچتی ہیں تو خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’ڈھاکہ میں آپ نے زنانہ نیشنل گارڈ قائم کرکے نہایت ضروری اقدام کیا ہے جس کے لیے آپ کو مبارک باد دیتی ہوں‘‘۔ وہ اس بات پر بھی اصرار کرتی ہیں کہ مشرقی اور مغربی حصے کی خواتین مل کر جدوجہد کریں۔

سیاسی طور پر ان کا شعور نہایت پختہ تھا اور وہ پاکستان میں آمریت کے بڑھتے ہوئے قدموں کی چاپ سن رہی تھیں۔ اسی پس منظر میں قائداعظم کی ساتویں برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے 11 ستمبر 1955 کو انھوں نے واضح الفاظ میں کہا ’’بحرانوں کا ایک سلسلہ ہے جو ملک کی بنیادوں کو ہلائے دے رہا ہے اور جس کے ذریعے ہمارے قومی کردار کا امتحان لیا جارہا ہے۔ آہ! کیسے کیسے مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک شخص (غلام محمد، اس وقت کا گورنر جنرل پاکستان) ہے، جو اپنے ضمیر کے خلاف بولتا اور اس کے خلاف کام کرتا ہے۔ قوم کی توجہ آئینی مسائل سے ہٹانے اور گھناؤنی سازشوں اور اپنے اقتدار اور اختیار میں روز افزوں اضافے کے معاملات کو چھپانے کی خاطر اس نے بہت سے مسائل کھڑے کر رکھے ہیں۔ گزشتہ موسم خزاں میں جمہوریت کو اس وقت شدید ترین دھچکا لگا، جب دستور ساز اسمبلی جو ہماری سیاسی آزادی کا نشان ہے، اسے تحلیل کردیا گیا۔ اس اقدام کے پس پردہ جو مقصد بھی کارفرما ہو بہرحال اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوریہ پاکستان کی صورت میں ہماری آزادی کی تکمیل کا کام تاخیر کا شکار ہوگیا ۔ میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ براہ کرم معاملے کی سنگینی اور شدت کو سمجھیے اور متعلقہ لوگوں پر زور دیجیے کہ جمہوریہ پاکستان کے آئین کی تیاری کے کام کو اولین ترجیح دیں۔‘‘

14 اگست 1957 کو ایک تقریر میں انھوں نے کہا ’’پاکستان میں عام آدمی کی زندگی پس پردہ سازشوں، مفادات کے حصول کو دوام دینے کی خاطر کیے جانے والے مکروہ سمجھوتوں کے نتیجے میں زہر آلود ہوچکی ہے۔ پاکستان کی تخلیق کا سہرا عوام کے سر ہے اور اقتدار اعلیٰ کے اصل مالک یہی عوام ہیں۔ مگر انھیں ان کے اس جائز حق سے محروم رکھنے اور اپنے جمہوری حقوق کے استعمال سے روکنے کے لیے تسلسل اور تواتر سے کوششیں کی جارہی ہیں۔ آپ کے پاس ایک ایسا دستور ہے جو آپ کے حقوق اور آزادی کی ضمانت فراہم کرتا اور جمہوری اداروں کے قیام کے لیے طریق کار مہیا کرتا ہے۔

اس کے باوجود ایسی کوششیں کی جارہی ہیں جن کے ذریعے آپ کی جمہوری خواہشات اور آرزوؤں کو دبایا جاسکے۔ آپ کو بے حد چوکنا اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ذرا سی غفلت بھی ناقابلِ بیان نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ غیر جمہوری رویوں اور اقدامات کو مزید ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہ کیا جائے۔‘‘ محترمہ فاطمہ جناح نے جس پس منظر میں یہ بات کہی تھی کیا ویسا ہی منظرنامہ آج جولائی 2017 میں ہمیں نظر نہیں آ رہا؟

بشکریہ: روز نامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).