حسین نقی سے باتیں (2)


٭ ”کراچی یونیورسٹی سے آپ کے Rusticate ہونے کے پیچھے کیا کہانی تھی؟“

” ہاسٹل میں بلوچ طالب علموں کا جھگڑا ہو گیا، جس پرتین بلوچ طالب علموں کو Rusticateکردیا گیا۔ بلوچ لڑکوں نے یونین کے الیکشن میں میری حمایت کی تھی، جب کہ وی سی اشتیاق حسین قریشی میری جگہ اسلامی جمعیت طلبہ کے مکرم علی خان شیروانی کی کامیابی چاہتے تھے۔ اسلامک اسٹڈیزڈیپارٹمنٹ میں میرے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا کہ میں شیعہ ہوں۔ اس لیے مجھے ووٹ نہ دیا جائے۔ شعبہ انگریزی میں مجھے کمیونسٹ قرار دے کر مہم چلائی گئی، اس سب کے باوجود میں اسٹوڈنٹس یونین کا الیکشن جیت گیا۔ ہاسٹل میں بلوچ لڑکوں کی جن سے لڑائی ہوئی تھی، ان سے صلح ہوگئی تھی لیکن وائس چانسلران بلوچ لڑکوں کو یونین کے الیکشن میں میری حمایت کی سزا دینا چاہتا تھا۔ بلوچستان سے لڑکے اسکالرشپ پر آتے تھے، ہم نے وی سی سے کہا کہ اب معاملہ ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے آپ فیصلہ واپس لے لیں۔ لیکن وہ مانے نہیں اور کہنے لگے کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اس لیے سزا ضرور ملے گی۔ میں نے زیادہ زور دیا تو کہنے لگے، ان کی جگہ کیوں نہ آپ کو Rusticateکردیں؟ میں نے کہا کہ ہاں، ضرور اگر ایسا ہوسکتا ہے تو مجھے کردیں لیکن بلوچ طالب علموں کو نہ کریں، اس پروہ مان گئے اور مجھے تین برس کے لیے Rusticate کر دیا، اس وقت میں کراچی یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کررہا تھا۔

٭ ”صحافت میں کیسے آئے؟“

” یونیورسٹی سے فارغ ہونے پر سوچا کہ ”جنگ“ اخبار جوائن کر لوں۔ سجاد باقر رضوی کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو وہ کہنے لگے کہ صحافت ہی کرنی ہے تو انگریزی صحافت میں جاﺅ۔ اردو اخبار میں بیکار ہے۔ پی آئی ڈی کے ضیائ الحسن موسوی کی وساطت سے ”پی پی آئی“ میں گیا۔ ایجنسی کے جنرل منیجر جاوید بخاری سے ملا تو انھوں نے کہا کہ تم لیڈر ٹائپ آدمی ہو، صحافت کرلو گے؟ میں نے جواب دیا: ’وہ الگ بات ہے، لیکن جو کام میرے ذمے لگائیں گے وہ کروں گا۔ ‘اس پر ان کا کہنا تھا کہ دو سال جم کرکام کرو، اور اس دوران میں اور کچھ نہ کرنا۔ دو سال خوب کام کیا۔ رپورٹنگ کی۔ سب ایڈیٹری کی۔ اکثر دفتر میں سو جاتا تھا۔ کچھ عرصہ کراچی میں کام کیا۔ پھر حیدرآباد تبادلہ ہوگیا، ادھر سے تبادلہ ہوا تو لاہور آ گیا۔ یہاں نیوز ایجنسی کا چیف رپورٹر بنا اور جب اسے چھوڑا تو بیورو چیف کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ “

٭ ” منور حسن بھی تو کبھی این ایس ایف میں آپ کے ساتھیوں میں شامل تھے، ان سے بعد میں ملناجلنا رہا؟

” منور حسن جماعت اسلامی کے سیکرٹری بننے کے بعد ہمارے گھر آئے تو کہنے لگے کہ اب ہم دونوں امریکا کے خلاف ہیں، اس لیے اب ہم دونوں ساتھ بھی کچھ کرسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ امریکا کی مخالفت کی تمھاری وجہ اور ہے اور ہماری وجہ اور ہے۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود ہمارے سوشل تعلقات ہمیشہ رہے۔ یہ گورنمنٹ کالج میں تھے، اور ہم تین نمبرناظم آباد میں رہتے تھے۔ دوستی ان کی نفیس صدیقی کے ساتھ زیادہ تھی۔ گورنمنٹ کالج یونٹ کے ممبر تھے۔ مارشل لا لگا تو ان کے بھائی جو انجینئرتھے، اور پشاور میں تعینات تھے، وہ ان کو اپنے ساتھ لے گئے تھے، اب بعد میں کہیں میں نے ان کا بیان پڑھا کہ پشاور میں انھوں نے مولانا مودودی کے مضامین پڑھے اور متاثر ہوئے۔ پشاور سے واپس آئے تو این ایس ایف کے بجائے جمعیت میں چلے گئے۔ “

حسین نقی قیام پاکستان کے بعد کے حالات سے خوب اچھی طرح واقف ہیں، اور ان کے خیال میں معاشرے میں گڑبڑ اس وقت ہی شروع ہوگئی تھی، جس کی بنیاد متروکہ املاک کی نیلامی کے غلط طریقہ کار سے پڑی۔ ان کے بقول”میاں افتخار الدین نے اس وقت کہا بھی کہ متروکہ املاک کے بارے میں پالیسی ٹھیک نہیں لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی۔ ہندوستان میں ساری متروکہ املاک نیلام ہوئیں، جس میں ہر کوئی حصہ لے سکتاتھا، بولی دے سکتا تھا۔ یہاں پرتو دوگواہ لے آئیں، جو اگر گواہی دے دیں کہ ہندوستان میں آپ کا اتنے مرلے کا مکان تھا تو آپ کو اس کے بدلے میں الاٹمنٹ ہو جاتی، میاں افتخارالدین اس طریقہ کار کے خلاف تھے لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی، اور پاکستان بنتے ہی کرپشن کی بنیاد پڑ گئی۔ سابق چیف جسٹس پاکستان شیخ ریاض احمد نے کچھ عرصہ قبل کہا بھی ہے کہ پاکستان بننے کے وقت سے تالے ٹوٹ رہے ہیں۔ قائد اعظم کی فکر کو ہم نے ملک بننے کے فوراً بعد رد کردیا۔ “

حسین نقی کے خیال میں، ضیاء آمریت نے ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور ان کی افغان پالیسی کا خمیازہ قوم ابھی تک بھگت رہی ہے۔

سوویت یونین کے گرم پانیوں تک آنے کی بات سے متعلق سوال پر کہنے لگے ” ہمارے ہاں سوویت یونین کے افغانستان آنے کا مقصد گرم پانیوں تک رسائی کی خواہش بیان کیا جاتا ہے۔ یہ بات میرے خیال میں درست نہیں۔ اس بات کوتو لڑنے کا بہانہ بنایا گیا، سوویت یونین آپ کے ملک پر حملہ تو نہیں کرنا چاہتا تھا۔ سوویت یونین کے ہمسائے میں آنے سے ہم پریشان ہوگئے جبکہ ہمارے ملک میں تو 1947 ء کے بعد سے سپر پاور بیٹھی تھی۔ اب تو ساری چیزیں سامنے آرہی ہیں۔ اب توامریکا کے بڑے لکھنے والوں نے مان لیا ہے کہ افغانستان میں مداخلت کی وجہ یہ نہیں تھی، کہ وہ گرم پانیوں میں آنا چاہتے تھے۔ وہ تو پہلے سے جاپان کے اردگرد تھے، مشرق وسطیٰ میں وہ تھے، گلف کے ماﺅتھ پران کے جہاز کھڑے تھے۔ بحرہ ہند میںان کے جہازتھے۔ بحرہ عرب میں ان کے جہاز تھے۔ “

ایک سویلین حکومت سے دوسری کو انتقال اقتدار کی روایت کو وہ جمہوریت کے لیے مثبت پیش رفت سمجھتے ہیں۔ ان کی دانست میں، آصف علی زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ بھٹو کے مقابلے میں زیادہ ہوشیاری سے کیا۔ وہ نواز شریف کو عمران خان سے زیادہ ماڈریٹ مسلمان تصور کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ” اپنے گذشتہ دور حکومت میں تو نوازشریف امیر المومنین بننے چلے تھے لیکن اب وہ کچھ بدلے ہیں، انھوں نے انتخابی جلسوں میں مذہب کا نام استعمال نہیں کیا، جبکہ عمران خان نے تو اپنے ایک جلسے میں اسٹیج پر نماز پڑھی۔ ڈرون کے معاملے میں بھی وہ اسے گرانے کی بات کرکے ایک طرح سے Extreme پوزیشن لے رہے ہیں۔ “ وہ نوازشریف کی بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی پالیسی کوبھی سراہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ نوازشریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں جب بھارت سے تناﺅ کم کرنے کی کوشش کی تو لیفٹ نے اسے سپورٹ کیا اور اس اقدام کے حق میںسب سے زیادہ کالم عبداللہ ملک نے لکھے تھے۔

 کچھ لکھنو کے بارے میں

لکھنو میں پیدا ہوا۔ ادھر ہی پلا بڑھا۔ والد سید محمد نقی، وکالت کرتے تھے۔ معروف افسانہ نگارعلی عباس حسینی، والد کے دوست اور ہم جماعت رہے۔ ہم چھ بھائی اور ہماری چھ بہنیں تھیں۔ 1936ء میں پیدا ہوا۔ بہن بھائیوں میں میرا پانچواں نمبر ہے۔ ہم بہن بھائیوں کا اسکول میں داخلہ عموماً براہ راست چھٹی جماعت میں ہوا۔ اس سے قبل سب گھر میں پڑھا۔ میں نے بھی پانچویں تک گھر میں تعلیم حاصل کی۔ چھٹی جماعت میں شیعہ اسکول میں داخلہ لیا۔ یہیں سے میٹرک کیا۔ شیعہ اسکول لکھنو شہر میں جس جگہ واقع تھا، ادھر شیعہ بہت کم تھے، اس لیے سنی اور ہندو طالب علم بھی تھے۔ کالج کے پرنسپل علامہ ابن حسن چارجوی، مسلم لیگ کے ابتدائی لوگوں میں سے تھے، تقسیم کے بعد ان کا کراچی میں انتقال ہوا۔ ماحول میں بڑی کشادگی اور مذہبی رواداری تھی۔ ایک بار کامرس کے استاد طاہر صاحب سے بدسلوکی ہوئی تو سنی ہونے کے باوجود ان کے حق میں ہڑتال ہوئی۔

Bossainabad Gate Lucknow

انٹرمیڈیٹ کے لیے شیعہ کالج کا انتخاب کیا۔ شیعہ اسکول، شیعہ کالج میں ہی تھا۔ اس درس گاہ میں تیسری جماعت سے بی ایس سی تک پڑھایا جاتا۔ ادھرکے ایک ہندو استاد رام لال محرم میں ہمارے ہاں مجلسوں میں آتے تھے، ہماری والدہ انھیں محب اہل بیت سمجھتی تھیں۔ ہماری والدہ تعلیم کے بہت زیادہ حق میں تھیں، خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں، ہمارے والد سے ایک بار انھوں نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اگر بیٹیوں کو تعلیم نہ دلائی تو وہ انھیں لے کر علی گڑھ چلی جائیں گے۔ وہ بڑیdominatingخاتون تھیں، ان کے پاس کافی مکانات تھے، اس لیے وہ بیٹیوں کی تعلیم کے لیے اپنے کہے پر عمل کر گزرتیں، ہمارے والد کو ان کی بات ماننا پڑی بصورت دیگر انھیں اکیلے رہنا پڑتا۔ میرا مشاہدہ ہے، ماں لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں۔ باپ خلاف ہوتے ہیں۔ بچپن اور لڑکپن کا زمانہ لکھنو میں گزرا۔ یہ شہر ٹیلوں پر بنا ہے۔ ہمارا گھر وزیر گنج میں ہے۔ چھوٹا بھائی اب بھی ادھر رہتا ہے۔ لکھنو کے قریب کاکوری بڑی مشہوربستی ہے، جہاں کے سیخ کباب بہت مشہور ہیں۔ اتنے نرم کباب آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔ 1946ء کا الیکشن اچھی طرح یاد ہے، لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے بھی لے کر گیا۔

میں نے لکھنو  میں ایک بار بھی پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ کا نعرہ نہیں سنا۔ لکھنو میں تقسیم کے وقت فسادات نہیں ہوئے تھے، اور میرا

La Martiniere College Lucknow

پاکستان آنے کاas suchکوئی ارادہ نہیں تھا، یہ تومجھ سے جو فوری بڑی بہن تھیں، ان کی میرے کزن سے شادی ہوئی تھی، تو میں ان کے ساتھ آگیا اور پھر یہیں ٹھہر گیا۔ یہاں یہ فائدہ تھا کہ ماں باپ سے دور رہ کرکچھ پابندیوں سے آپ بچ جاتے ہیں، جیسے باہر نہیں رہنا اور سورج غروب ہونے پر گھر واپس آنا وغیرہ ہے۔ بعد میں میرے تایا اور چچا سب آ گئے۔ چھوٹے چچا ستر کی دھائی میں آئے۔ میرے والداور بھائی ہندوستان میں رہے۔ میرا ادھر جانا رہا۔ ابھی کچھ ماہ قبل بھی وہاں سے ہو کرآیا ہوں۔ اس زمانے اور اب کے لکھنو میں بڑا فرق آیا ہے مثلاً، ہمارے خاندان میں کوئی بچہ ٹوپی پہنے بغیر گھرسے باہر نہیں جا سکتا تھا۔ بڑوں کے سامنے بولتے نہیں تھے۔ بحث نہیں کرتے تھے۔ لقمہ چباتے وقت خیال رکھا جاتا کہ منہ سے آوازنہ آئے۔ اب بھی بعض روایات کا پاس کیا جاتاہے۔

مثلاً بولنے میں اب بھی بداحتیاطی نہیں ہوتی، برا لہجہ اور خراب زبان استعمال نہیں کرتے۔ بڑے سے اونچی آواز میں بات کرنا اب بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ میرے بھائی پھاٹک بند کرنا بھول بھی جاتے ہیں مگر کبھی چوری نہیں ہوئی۔ محلے داروں کا اب بھی بہت خیال کرتے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں اب اونچی اونچی عمارتیں بن گئی ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔ لکھنو میں جو خاص کردار ہوتے تھے، وہ اب بھی مل جاتے ہیں، 1952ء میں لکھنو میں پاکستان ٹیم نے پہلی بار ٹیسٹ میچ جیتا تو میں شہر میں ہی تھا۔ وہ ٹیسٹ مجھے یاد ہے۔ میچ میں پاکستان کی کامیابی کے لیے ہم نماز میں باقاعدہ دعا مانگتے تھے۔ پاکستانی کھلاڑی بہت مقبول تھے، جس ہوٹل میں پاکستان ٹیم ٹھہری تھی، سیکڑوں مسلمان ادھر جمع ہوجاتے اور ان کے حق میں نعرے لگاتے۔ میں نے میچ گراﺅنڈ میں جا کر دیکھا۔ ہمارے ایک ماموں جو سیتا پور میں زمیندار تھے، وہ کھیلوں کے بڑے شیدائی تھے، ان کی وجہ سے کرکٹ میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس زمانے میںحنیف محمد۔ فضل محمود، خان محمد۔ نذرمحمد سب بہت مقبول تھے۔

نذرمحمد اسٹائلش بیٹسمین تھے، اس ٹیسٹ میں انھوں نے سنچری بنائی اور بیٹ کیری بھی کیا۔ امیرالٰہی کا گگلی کرنے کا انداز ابھی تک یاد ہے۔ بھارتی کھلاڑیوں میں لالہ امرناتھ، ونومنکنڈ، پولی امریگر اور گپتے بڑے اچھے کھلاڑی تھے۔ کرکٹ سے اب بھی دلچسپی ہے۔ ریڈیو پر میچوں کی کمنٹری بہت سنی۔ بچپن میں پہلی بار لکھنو  میں ہی مضمون لکھا، جو اردو میں تھا۔ میرے والد شیعہ کالج کی مینجمنٹ کمیٹی میں تھے۔ میں بھی ادھر پڑھتا تھا، اس لیے ادارے کی بہت ساری ایسی چیزوں کے بارے میں جانتا تھا، جو ٹھیک نہیں چل رہی تھی، میں نے ان مسائل پر مضمون لکھا اور لکھنو سے نکلنے والے شیعوں کے اخبار”سرفراز“ میں چھپوا دیا۔ میرے والدکو یقین نہیں آیا کہ یہ میرا لکھا ہوا ہے، اس لیے کہنے لگے کہ یہ کسی نے مجھے لکھوایا ہے، اس پر میری والدہ جو میری بڑی حامی تھیں، انھوں نے مجھے کہا کہ ان سے کہو میں ابھی آپ کو لکھ کر دکھا سکتا ہوں، میں نے یہ چیلنج قبول کیااور والد کے میز پر بیٹھ کر نیا مضمون لکھ ڈالا، جس پرمیری والدہ نے والد سے کہا کہ اب بتاﺅ! تم کہتے تھے، یہ خود نہیں لکھ سکتا، اس نے لکھ دیا نا۔ پاکستان آکر تعلیم سے ٹوٹا ناتا دوبارہ جوڑااور اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ کراچی یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کے دوران Rusticate کردیا گیا۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2