وہ بوسے جو ہمیشہ یاد رہیں گے


ہر سال چھ جولائی کو بوسے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ’کِس ڈے‘ مغربی معاشروں کی طرح نہیں منایا جاتا۔ چند ناقابل فراموش بوسوں کی تصاویر۔

الٹا لٹک کر بوسہ

2002ء میں ریلیز ہونے والی فلم اسپائڈر مین میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ٹوبے میگوئر نے اس کِس سین کو یاد کرتے ہوئے بتایا، ’’بارش ہو رہی تھی اور میری ناک میں بار بار پانی داخل ہو رہا تھا۔ پھر جیسے ہی کرسٹین ڈنسٹ نے کِس کرنے کے لیے میرا ماسک اوپر کیا تو اس لمحے میری سانس مکمل طور پر رک گئی تھی۔‘‘

جنگ کے خاتمے کا بوسہ

چودہ اگست 1945ء کے دن دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی شکست کے بعد نیو یارک کے ٹائمز اسکوائر سے گزرتے ہوئے امریکی نیوی کے ایک سیلر نے راستے میں کھڑی ایک خاتون کو بانہوں میں لیتے ہوئے اس کے چہرے کو چوم لیا۔ ٹائم اسکوائر پر آج بھی کئی جوڑے اس طرح کی تصاویر کھنچواتے ہیں۔

اسیکنڈل کِس

2003ء میں ایم ٹی وی میوزک ایوارڈ کی تقریب کے دوران میڈونا نے برٹنی اسپیئرز اور کرسٹینا ایگلیئرا کو اسٹیج پر کِس کیا۔ برٹنی اور کرسٹینا نے میڈونا کے لیے ایک مختصر سا گیت گنگنایا تھا، جس پر میڈونا نے اس بوسے کے ذریعے ان دونوں کا شکریہ ادا کیا۔

پاپائے روم زمین چومتے ہوئے

پاپائے روم جوہانس پال دوئم نے تقریباً تمام ممالک کے دورے کیے۔ انہوں نے جب بھی کسی نئے ملک میں قدم رکھا انہوں نے اس سرزمین کو پہلے چوما۔ کچھ مزاح نگار کہتے ہیں جوہانس پال دوئم کی جانب سے زمین چومنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ جہاز سے بخیر و عافیت باہر آنے پر بہت خوش ہوتے تھے۔

فنی شاہکار میں بوس و کنار

یہ معروف آسٹریئن مصور گستاو کلمٹ کا شاہکار ہے۔ ’کِس‘ کے عنوان سے انہوں نے یہ تصویر 1908ء یا 1909 کے درمیان بنائی تھی۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والے رنگ قرون وسطٰی کی یاد دلاتے ہیں، جب مسیحی مصور اس طرح کے سنہرے رنگوں کو استعمال کرتے ہوئے تصاویر بناتے تھے۔

’جیک اور رُوز‘

ٹائیٹینک فلم کا انتہائی رومانوی منظر تھا، جب کیٹ ونسلیٹ (رُوز) اور لینارڈو ڈی کاپریو (جیک) نے جہاز کی اگلے حصے پر کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو بوسہ دیا تھا۔ فلم میں رُوز اور جیک کو یہ علم نہیں تھا کہ ایک دوسرے کے ساتھ یہ ان کی آخری رات تھی۔ ڈوبتے ہوئے سورج نے اس منظر کو مزید رومانٹک بنا دیا تھا۔

جانور بھی پیچھے نہیں

جہاں تک بوسے لینے کی بات ہے تو اس میں جانور بھی انسانوں سے پیچھے نہیں۔ تاہم اس تصویر میں دکھائی دینے والی گورامی نسل کی یہ مچھلیاں ایک دوسرے کو پیار سے چوم نہیں رہیں۔ ان دونوں کے مابین لڑائی ہو رہی ہے اور یہ اس وقت تک اپنے منہ ایک دوسرے سے جوڑے رکھیں گی جب تک کوئی شکست نہ تسلیم کر لے۔ چین میں ویلنٹائن ڈےپر یہ مچھلیاں تحفے میں دی جاتی ہیں۔

بھائیوں کا پیار

روسی سیاستدان لیونڈ بریشنیو اور جرمن سیاستدان ایرش ہؤنیکر کی ایک دوسرے کا بوسہ لیتے ہوئے یہ تصویر دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ تصویرسابقہ مشرقی جرمنی کے قیام کے تیس سال پورے ہونے پر سامنے آئی تھی اور دیوار برلن کے بچ جانے والے ایک حصے پر ابھی تک موجود ہے۔

یہاں بوسہ نہیں لیا جا سکتا

جرمنی اور دیگر مغربی ممالک میں اکثر الوداع بھی ایک دوسرے کے گال پر پیار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے۔ لیکن برطانیہ کے وارنگٹن بینک کوئے کے ریلوے اسٹیشن پر ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں پر واضح انداز میں بوسہ لینے کو ممنوعہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ اکثر جوڑوں کا الوداع کہتے وقت ٹرین کے دروازوں پر کھڑا ہونا ہے اور یہ عمل ٹرینوں کی آمد ور رفت میں تاخیر کی وجہ بھی بنتا رہا ہے۔

ناک سے بوسہ لینا

مختلف اقوام میں محبت اور عزت و احترام کا اظہار مختلف انداز میں کیا جاتا ہے۔ چند عرب ممالک میں ناک کو ناک سے ملا کر جبکہ کچھ ملکوں میں سر کو سر سے ملا کر بھی دوسرے کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

محبت کی جیت

امریکا میں ابھی حال ہی میں ہم جنس پرستوں کو شادی کی اجازت دی گئی ہے۔ اس موقع پر مالینا اور اس کی اہلیہ کاری شہر اورلانڈو میں بوسہ دیتے ہوئے ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کر رہی ہیں۔

کِس آف لو

بھارت میں سرعام بوسہ و کنار پر پابندی ہے۔ اس قانون کے خلاف بھارتی ریاست کیرالا میں احتجاج کرتے ہوئے 2014ء میں’ کِس آف لو‘ دن منایا گیا۔ اس دن احتجاج میں شریک افراد نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور گالوں پر پیار کیا۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والی دونوں خواتین کو بعد میں پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔

بوسے کا عالمی ریکارڈ

تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے نے تقریباً پچاس گھنٹے تک بوسہ لینے ہوئے عالمی ریکارڈ بنایا۔ پتایا نامی تفریحی مقام پر ہونے والے اس مقابلے میں آکیشائی تیرانارت اور لکسانہ تیرانارت پچاس گھنٹوں سے زائد ایک دوسرے کو بوسہ دیتے رہے اور اس دوران کسی قسم کا وقفہ بھی نہیں کیا۔

اور اب آخر میں فرانس کے مجسمہ ساز اگست روداں (1840 -1917) کا سنگ مرمر سے بنایا ہوا مجسمہ بوسہ جسے عہد ساز مجسمہ ساز نے 1888ء سے 1898ء کے درمیان مکمل کیا۔ یہ مجسمہ 1901 میں نمایش کے لئے پیش کیا گیا۔ مجسمہ ساز نے اس شاہکار میں دراصل دانتے کے دو کرداروں پاولو اور فرانسسکا کو پیش کیا ہے۔ روایت کے مطابق دونوں محبت کرنے والے اپنے پہلے بوسے میں محو تھے کہ فرانسسکا کے شوہر نے دونوں کو قتل کر دیا۔ یہ مجسمہ اپنی فنی خوبی، موضوع کی رعنائی اور وارفتگی کی بنا پر عالمی فنون عالیہ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ مجسمہ ساز نے اسے کوئی نام نہیں دیا تھا لیکن فن کے پرستار اسے ایک صدی سے بوسہ (The Kiss) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).