جنرل ضیاالحق کے اطوار: جنرل کے ایم عارف کی زبانی


ضیا کے ملاقاتی ان کا بہت سا وقت لے لیا کرتے تھے۔ ان کا ملٹری سیکرٹری ہمیشہ بوکھلایا رہتا تھا کہ کب پہلا ملاقاتی فارغ ہو اور وہ باقی منتظر ملاقاتیوں کی لمبی فہرست میں سے کسی دوسرے کو اندر بھیجیں۔ یہ میلہ اکثر بھرا رہتا۔ وہ بالعموم آدھی رات کے بعد سویا کرتے۔ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد دو اڑھائی گھنٹے پھر نیند کرتے اور سرکاری کام کاج صبح ساڑھے دس بجے شروع کرتے۔ عام طور پر وہ صبح کے وقت کچھ کچھے کھچے رہتے، نجانے کیوں؟ (جنرل عارف صاحب نے کچھ پیچیدہ اشارہ دے دیا ہے۔ صبح کے وقت کھنچے کھنچے رہنے والوں کے اشغال تو عام طور سے جنرل ضیا سے منسوب نہیں کئے جاتے۔۔۔۔ مدیر)

وہ اپنے سٹاف کو دن بھر کے کاموں کی ایک طویل فہرست دے دیا کرتے اور پھر اس میں کوئی معمولی سی فروگزاشت ہو جاتی تو اس پر خفا ہوتے۔ لیکن ایک آدھ گھنٹے بعد ہی یہ خفگی دور ہو جاتی اور وہ ایک مختلف شخص بن جاتے۔ ملنسار اور خوش طبع!

جوں جوں دن ڈھلتا، خوشی سے ان کا چہرہ کھلنے لگتا۔ چونکہ وہ ہر کام میں حد درجہ نفاست مانگتے تھے اس لیے ان کا سٹاف ہمیشہ اضطراب میں رہتا۔ وہ دوسروں سے تو انتہائی منظم اور منضبط انداز کار کا تقاضا کرتے لیکن خود اس نظام کی کبھی پیروی نہ کرتے۔ ان کی شخصیت کا یہ تضاد ناقابل فہم تھا۔

ضیا اپنے ملٹری سیکرٹری اور دیگر سٹاف کا انتخاب نہایت احتیاط سے کرتے۔ وہ ان کے ساتھ ہمیشہ پدرانہ شفقت سے پیش آتے اور انہیں گھر کے افراد تصور کرتے۔ ان کا ملٹری سیکرٹری ہمیشہ مخمصے میں رہتا تھا۔ جنرل ضیا بہت سی باتوں میں قوانین و ضوابط کی پروا نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے سرکاری اور ذاتی اخراجات میں شاذ ہی کبھی امتیاز کیا ہو۔ ان سے وفاداری کا تقاضا تھا کہ ان کا ملٹری سیکرٹری اس قسم کی نادانستہ فروگزاشتوں کی نشاندہی کرے تاہم وہ جب بھی ایسا کرتا ضیا ناراض ہو جاتے۔ اگر ان کا سٹاف ان کے وضع کردہ اسلوب کار سے انحراف کر بیٹھتا تو ضیا برافروختہ ہو جاتے۔ یہی دباؤ تھا جس کی بنا پر یکے بہ دیگرے تین ملٹری سیکرٹری میرے پاس درخواست لے کر آئے کہ میں ان کی پوسٹنگ کروا دوں۔ ان کے خیال کے مطابق وہ صدر کا اعتماد کھو چکے تھے۔ ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ بعض اوقات جب صدر اہم ترین پالیسی امور میں مستغرق ہوتے ہیں تو اچانک نہایت معمولی قسم کے واقعات پر چونک اٹھتے ہیں۔ مثلاً کھانے کا مینیو، فلاں مہمان کا تحفہ اور سڑک پر کھڑے فلاں کانسٹیبل کی ڈھیلی ڈھالی وردی جیسے انہیں ایک دم یاد آ جاتی تھی۔ اس ملٹری سیکرٹری نے ضیا کو “شاہ معمولیات” KING OF TRIVIA کا لقب دے رکھا تھا!

فطرت نے انہیں عجیب قوت برداشت سے نوازا تھا۔ وہ ساری ساری رات جاگتے لیکن ان کے چہرے پر کوئی تکان کی علامت نہ ہوتی۔ دوران سفر وہ خوب سویا کرتے اور اکثر کرسی پر بیٹھے بیٹھے اونگھ لیا کرتے۔ کتابیں جمع کرنے کا انہیں بہت شوق تھا۔ مگر انہیں پڑھتے کبھی کبھار ہی تھے۔ فائل ورک سے ان کو نفرت تھی۔ ان کی سرکاری ڈاک ہمیشہ جواب طلب رہتی۔ میز پر فائلوں کے انبار لگے رہتے۔ ان انباروں کو صاف کرنے کے لیے ان کو یہ باور کروانے میں سرتوڑ کوششیں کرنی پڑتیں کہ وہ ادھر بھی کچھ توجہ دیں۔ یہ کوششیں اور کاوشیں جب حد سے بڑھ جاتیں تو شدید ذہنی کوفت لاحق ہونے لگتی۔

عنفوان شباب میں ضیا بہت تنک مزاج بھی تھے اور جلدی طیش میں بھی آ جاتے۔ کوئی غلط کام جو انہیں ناگوار خاطر ہوتا ان کے گرم خون میں حدت پیدا کر دیتا اور ان کا پارہ چڑھ جاتا۔ پھر جب تک وہ لاف کام (لام کاف گالی گلوچ کو کہتے ہیں۔۔۔ مدیر) کا سارا زور بیان صرف نہ کر لیتے ان کو چین نہ آتا۔ ایک موقع پر ایک آفیسر کی انہوں نے کھڑے کھڑے تنزلی کر دی تھی۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ اور مزاج میں تبدیلی آ گئی۔ عمر تجربے اور ذمہ داریوں نے انہیں نرم خو بنا دیا تھا اور بہت زیادہ متحمل اور بردبار ہو گئے تھے۔

ضیا نہ تو وقت کی قدر کرتے تھے اور نہ پابندی وقت ان کا خاصہ تھا۔ البتہ نماز اور سفارتی فرائض کی ادائیگی اس سے مستثنیٰ تھیں۔ ان کی یہ عادت اتنی نمایاں تھی کہ حیرت ہوتی تھی کہ فوجی ملازمت پر وہ کیسے برقرار رہے اور اعلی ترین عہدے پر کیسے پہنچ گئے۔ ان کے اس تضاد طبع کی کوئی عقلی وضاحت نہیں کی جاسکتی۔ شاید یہ ان کی محض خوش نصیبی تھی۔

بریگیڈئیر محمود علی درانی تین سال سے زیادہ عرصے تک ضیا کے ملٹری سیکرٹری رہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ ضیا کی سب سے زیادہ قابل تعریف خصوصیات کیا تھیں تو انہوں نے جواب دیا کہ انکسار، صبر و تحمل، دباؤ میں پرسکون رہنا، غریب غربا سے ہمدردی، شفقت اور مذہب سے گہرا لگاؤ ان کی خوبیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ جب ان سے ضیا کی شخصی کمزوریوں کے بارے میں استفسار کیا گیق تو کچھ تامل کے بعد بولے کہ لیت و لعل، منافقت کا رجحان اور اعلی ذہانت کا فقدان ان کی قابل ذکر کمزوریاں کہی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور بھارت کے ساتھ کامیاب خارجہ تعلقات، افغان پالیسی، اشاعت اسلام اور ملک کے اندر معاشی استحکام ان کے دور کے کارہائے نمایاں کہے جا سکتے ہیں۔

اور جہاں تک ان کی ناکامیوں کا تعلق ہے تو ان میں سندھ کی صورت حال، سیاسی نظام کا کمزور ہونا، شخصیت پرستی کا فروغ، فوجی اور سول اداروں کا انحطاط اور اہم معاملات کو دبائے رکھنا شامل ہے۔ درانی سے سوال کیا گیا کہ ایسے تین لوگوں کے نام بتائیں جنہوں نے ضیا کی شخصیت کو سب سے زیادہ ضعف پہنچایا تو انہوں نے مسٹر محمد اسلم خٹک، لیفٹینیٹ جنرل رفاقت اور لیفٹینینٹ جنرل حمید گل کا نام لیا۔ اس طرح ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ ایسے تین اشخاص کی نشاندہی کریں جنہوں نے ان کے دور اقتدار کو طول دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

سب سے پہلے انہوں نے مسٹر غلام اسحاق خان کا نام لیا۔ جنہوں نے ملک کی مالی اور اقتصادی پالیسیاں وضع کیں اور ضیا کی بھرپور تائید و حمایت کی۔ دوسرا نام لیفٹینینٹ جنرل غلام جیلانی خان کا تھا جنہوں نے انیس سو اسی کے وسط سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا نظم و نسق خوش اسلوبی سے چلایا اور جب رخصت ہوئے تو ہر طرف امن و امان کا دور دورہ تھا۔ اور تیسرا نام جو انہوں نے بتایا بہتر معلوم ہوتا ہے اسے حذف کر دیا جائے۔  (سبحان اللہ! جنرل خالد محمود عارف کا انکسار۔ کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو بتائے نہ بنے۔۔۔۔ مدیر)

بحوالہ: ضیاالحق کے ہمراہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).