بنایا میرا مزار تو مینار کھا گئے


\"farnood\" مرحوم دفنائے جا چکے۔ اب گرد بیٹھ رہی ہے، تو مطلب کی بات پر آجاتے ہیں۔ کیا حرج ہے اگر پچھلے کالم پر ایک دو گرہیں لگاتے ہوئے جائیں۔ گرہیں چار بھی لگ جائیں تو کیا حاصل، دلیل سننے سے تو سنجیدہ نمائندوں نے بھی انکار کردیا ہے۔ فرماتے ہیں یہ عشق کی منزل ہے، یہاں دلیل کا کوئی گزر نہیں۔ الہامی طبعیتوں کا رویہ آج کا نہیں ہے، برسوں سے چلا آرہا ہے۔ اسی رویئے نے جب جنید جمشید کا گھیراؤ کیا، تو سفید پوش عاشقوں کو ہم نے دلیل سے بات کرتے دیکھا تھا۔ سبز پوش عاشقوں کا کہنا البتہ یہ تھا کہ ہم جنید جمشید کی معافی بھی قبول نہیں کریں گے۔ میرے مستانوں نے تب بھی دلیل سے بات کی تھی جب ملتان شریف میں صرف میلاد کا اشتہار پھاڑنے پر جماعت اسلامی کے ایک کارکن کو قتل کردیا گیا تھا۔ اس بیچ ایک آواز ممتاز قادری کے وکیل اور سابق جج جسٹس میاں نذیر اختر کی سنائی دیتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگر فرد یہ سمجھے کہ قانونی طور پہ کسی شخص کی سزا قتل ہی ہے تو وہ قتل کر سکتا ہے۔ فرد پہ مقدمہ چلے گا، لیکن قانون ہاتھ میں لینے پر اس کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔ وجہ؟ کیونکہ یہ قتل اس نے اشتعال میں کیا۔ جسٹس صاحب کی غزل کا حاصل کلام شعر یہ ہے کہ ممتاز قادری گورنر کی حفاظت کا پابند تھا، گستاخ رسول کا نہیں، سلمان تاثیر گورنر ہونے کا حق کھو چکا تھا۔ جج صاحب کیا فرما رہے ہیں؟ وہ دراصل یہ فرما رہے ہیں کہ اگر کوئی سبز پوش عاشقِ رسول جنید جمشید کو عشق رسول کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے، تو اس میں حرج کی ایسی کوئی بات نہیں، اور یہ کہ اگر ملتان میں عاشقوں کے ایک ہجوم نے میلاد کا اشتہار پھاڑنے پہ جماعت اسلامی کے کارکن کو جان سے ماردیا ہے، تو کارِ ثواب سمجھ کر اسے ٹھنڈے پیٹوں ہضم کرلینا چاہیئے۔ قاضی شریح مجھے اس بات کا حق بھی دے رہے ہیں کہ اگرمیری نظر میں ثروت اعجاز قادری صاحب نبی کی گستاخی کےمرتکب ہوئے ہیں، تو میں ان کے سینے میں عشق کی اٹھائیس گولیاں اتار سکتا ہوں۔ اس ملک میں عاشقوں کو کسی چھلنی سے گزار کر خالص عاشقوں کی کوئی صف ترتیب دی جائے تو اس میں لشکر جھنگوی سپاہ محمد اور سنی تحریک کے کارکن نمایاں ہوں گے۔ جسٹس صاحب کی خواہش یہ ہے کہ ہم اپنے بچے ان عاشقوں کے رحم وکرم پہ چھوڑ دیں۔ حاصل کلام شعر میں بھی دراصل یہ فرما رہے ہیں کہ چونکہ آئینی طور پہ جنرل ضیا اور جنرل مشرف ملک کے صدر نہیں ہیں، سو ان کے محافظین اگر انہیں قتل کردیں تو اسے آئین کا اور عشق کا تقاضا ہی سمجھیئے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ جج صاحب نے الحاج پیر علاؤالدین کی طرح اپنی تئیں طے کرلیا کہ سلمان تاثیر گستاخی کے مرتکب تھے۔ جبکہ کسی بھی شرعی اور غیر شرعی دلیل یا ثبوت کے مطابق انہیں مجرم ثابت کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ معرفت کے کسی نامعلوم مقام پر کھڑے ہوکر دلیل سننا مشکل ہے۔ وہ کیسے؟ اب اس ’’کیسے‘‘ کو سنتا کون ہے۔ کچھ بھی صفائی دے دیجئے، کچھ بھی دلیل رکھ دیجیئے، خنجر بدست عاشق ایک ہی رٹ لگائے ہوئے سر پہ کھڑا ہے کہ چپ رہو کوئی وضاحت نہیں سنی جائے گی۔ کیوں بھئی؟ کیونکہ یہ عشق کے معاملات ہیں، یہاں دلیل نہیں، صرف گولی چلے گی۔ بات یہ ہے کہ بندوق اٹھتی ہی تب ہے جب دلیل نہیں ہوتی۔ چلاتے ہوئے گلے دراصل اسٹیل کے برتن ہوتے ہیں جو خالی ہونے کی وجہ سے بہت کھنکتے ہیں۔ کوئی مال مصالحہ بھر لیا جائے، تو آواز بھی بیٹھ جاتی ہے ایک ٹھہراؤ بھی آجاتا ہے۔ دلیل سے بے بہرہ آوازوں کو تنکوں کا سہارا ہوتا ہے۔ یہ کہنے سے بھی وہ خود کو باز نہیں رکھ سکتے کہ

’’ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ کون حق پرتھا‘‘

دلیل ہوتی تو جنازوں کا سہارا ہی کیوں لیا جاتا۔ مولوی صاحب نے مجھے بتایا کہ لیلۃ القدر کو جو روح پرواز کرتی ہے، بغیر کسی حساب کتاب کے بہشت میں پہنچتی ہے۔ اب خدا کے حکم سے ملکہِ ترنم نور جہاں کا انتقال لیلۃ القدر کو ہوا، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا، مولوی صاحب سر گرفتہ ہوگئے۔ کہنے پہ مجبور ہوئے کہ ہو سکتا ہے نور جہاں کی کوئی نیکی کام آگئی ہو۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ ہمارے شہدا کی قبروں سے خوشبو آتی ہے۔ میں مگر حیران ہوں کہ کسی سبز پوش شہید کی قبر سے کسی سفید پوش کو خوشبو کیوں نہیں نہیں آتی؟ کسی سبز پوش کی ناک کسی سفید پوش شہید کی قبر سے اٹھتی مہک سونگھنے سے قاصر کیوں ہے؟ کہتے تھے غازی عبدالرشید کی قبر سے مہینہ بھر خوشبو آتی رہی۔ عینی شاہدین جانتے ہیں کہ لال مسجد سے اٹھائی گئی لاشیں جب پولیس لائن قبرستان میں دفنائی جارہی تھیں تو لوگ ناک پہ کپڑا رکھے ایک طرف ہوگئے تھے۔ اب آپ ہی کے طے کردہ معیار کے ساتھ ہم کیا کریں؟ ہم تو سڑجانے والی جلاشوں پہ بھی بدگمانی کو تیار نہیں، مگر آپ مجبور کر رہے ہیں تو میری خطا کیسی؟ اب آپ سوچے سمجھے بغیر امام احمد ابن حنبل کا قول لے آئے کہ

’’ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ کون حق پہ تھا کون باطل پہ‘‘

سوال یہ ہے کہ امام احمد ابن حنبل کا واسطہ دیسی لبرلز، سیکولرز اور خدا بیزاروں سے پڑا تھا؟ یہ جملہ انہوں نے کیا تاتاریوں کے لئے کہا تھا؟ آپ بھول رہے ہیں امام احمد ابنِ حنبل کا متھا خداوندانِ منبر ومحراب سے جا لگا تھا۔ آپ تاریخ کی ادھڑی ہوئی کتابوں کے اوراق جوڑ کر دیکھئے گا کہ کن کے کہنے پہ امام کا منہ کالا کر کے گدھے پہ بٹھایا گیا. یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جب لگاتار ایک ردھم میں کوڑے امام کی پشت پہ پڑتے تھے تو سبحان اللہ ماشااللہ کی فلک شگاف تائیدیں کہاں سے اٹھتی تھیں۔ بھئی میرے امام تو نئے دور میں ایک نئی بات کرنے والے آدمی تھے۔ امام ابوحنیفہ کو جیل میں میاں محمد نواز شریف نے نہیں ڈالا تھا۔ تب سماج میں کوئی ’’موم بتی مافیا‘‘ نہیں تھا کہ جب امام شافعی کو علاقہ بدر ہونا پڑا۔ ان کی آواز ’’اگربتی مافیا‘‘ کی اکثریت نے دبا دی تھی۔ شاہ کے مصاحب جب امام کے سامنے اِتراتے پھرتے تھے، تب وہ کہتے کہ کوئی بات نہیں پیارے، کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں۔ ایک وقت آئے گا جب لوگ ہماری بات سنیں گے۔ جیتے جی نہ سہی، پسِ مرگ ہی سہی۔ ذرا ہاتھ پاؤں کھول دیجئے تو آپ ہمارے جنازے دیکھئے گا کہ کون جبر کے ساتھ ہے اور کون صبر کے ساتھ۔ امام کو کیا خبر تھی کہ وہ دن بھی آئے گا کہ یہی ’’اگربتی مافیا‘‘ میرے جملے کو تقدیس کا درجہ دے کر پیش کرے گا۔ دلیل کے بجائے سطحی معیار تشکیل دیتے وقت خیال رکھنا چاہیئے کہ سوال اٹھتے ہیں۔ آپ ہی کے بلیغ استدلال نے یہ سوال اٹھا دیا کہ حضرت عثمانؓ کے جنازے میں صرف پانچ لوگ ہی کیوں شرکت کر سکے؟ مدینہ میں دفن کے واسطے کوئی زمین دینے کو تیارکیوں نہ تھا؟ پھر یہ کیا کہ جنازہ اٹھ رہا ہے تو رات کی تاریکی میں چھتوں سے پتھراؤ ہورہا ہے؟ اب اگر مصر کی شہرہ آفاق گلو کارہ ام کلثوم، جسے مفتی اعظم نے فاحشہ کہا تھا، کے جنازے میں پیتالیس لاکھ مسلمان شرکت کریں تو بتلایئے جنت کے کون سے دروازے پہ دھرنا دیں؟ عالی جاہ ! ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہیئے؟

آئینہ تو ابھی دبیز پردے میں ہے، احباب برا مان گئے۔ ممتاز قادری پہ ہم نے کوئی تنقید نہیں کی، کر بھی نہیں سکتے۔ ممتاز قادری کی نیت پہ کون شک کرسکتا ہے؟ جس راہ کا اس نے انتخاب کیا، وہ نیک نیتی ہی سے ملتی ہے۔ تنقید کے ہم اس لئے بھی روادار نہیں کہ وہ ہماری طرح ہی ایک ترکھان کا بچہ تھا۔ ایک ممتاز ہی کیا، اس جیسے ہر مخلص نوجوان کے لئے ہم ھمدردی کے جذبات رکھتے ہیں۔ اس درد کو ہم نہ سمجھیں تو کون سمجھے، کہ آخر دودھ کے دانت ہم نے بھی الجہاد الجہاد کے بے سمت نعروں پہ توڑے ہیں۔ ہماری تو عقل داڑھ بھی عین اس وقت نکلی کہ جب کتاب چھوڑ کر ایم اے جناح روڈ پہ ٹائر جلا رہے تھے۔ ماضی میں کیوں جائیں؟ کل کی بات کیوں کریں؟ آج کی بات ہے تو آج ہی کی مثال لیتے ہیں۔ ویڈیو ریکارڈ پہ موجود ہے جس میں مفتی حنیف قریشی صاحب کی جمناسٹک تقریر سنی جا سکتی ہے۔ اول وہ منبر سے اچھلے، پھر مائک کو زور سے پٹخا، پھر پگڑی ہوا میں اچھا لی، پھر زلفیں بکھیریں، پھر لرزتے برستے چیختے چلاتے گورنر کو مخاطب کر کے کہا ’’واللہ ہم کسی قانون کو نہیں مانتے ہم کسی دستور کو نہیں مانتے رب کعبہ کی قسم ہم سینہ چھلنی کرنا جانتے ہیں‘‘۔ آپ وہ تقریر سنیئے گا ذرا۔ ایک باشعور نوجوان تو مفتی صاحب کے ذہنی توازن کے لئے فکرمند ہوجائے گا، مگر ممتاز قادری کیا کرے؟ اس نے وہی کیا، جوتقریر سننے کے بعد اسے کرنا چاہیئے تھا۔ سوال یہ ہے کہ مفتی صاحب نے کیا کیا؟ کورٹ میں بیان حلفی جمع کروا کر ممتاز قادری سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ یہ سمجھانے کے لئے میرے پاس سطور نہیں بچیں کہ لاتعلقی کا اظہار کس ہلاکت خیزاذیت کو جنم دیتا ہے۔ اب جب مزار بننے جا رہا ہے تو پہلی اینٹ رکھنے کے لئے مفتی صاحب پھر سے حاضر ہیں۔ لنگر کھلے گا تو پھر لہو گرمانے آئیں گے۔ کیوں نہیں آئیں گے، پنجاب کے سینے پہ وہ مزار کھڑا ہونے کو ہے جس کا مینار قیامت کی شام تک زیر تعمیر ہی رہے گا۔ ہاتھی اگر مفتی ہو تو کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ ہاتھی اگر ناخواندہ ہو تو زندہ لاکھ کا مرا ہوا سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ یہ سب اپنی جگہ، مگر اے جوانو۔! مگر اے جوانو !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
11 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments