احتساب جب امیر شہر کے گھر تک پہنچے گا


پاکستان کے حکمران اور طاقتور طبقے کا المیہ یہ ہے کہ یہ خود کو احتساب سے بالاتر سمجھتا ہے اور یہی چیز پاکستان کے آدھے سے زیادہ مسائل کی جڑ ہے۔

جب آپ کو معلوم ہو کہ احتساب کرنے والا کوئی نہیں، ایسی کوئی طاقت نہیں، جو محاسبہ کر سکے گی، ایسی کوئی عدالت، نظام یا ادارہ یا شخصیت نہیں ہے، جس کے سامنے آپ کو جواب دینا ہے، تو آپ کا جو دل چاہے گا آپ کریں گے۔ پھر آپ منی لانڈرنگ بھی کریں گے، پھر آپ ٹھیکے بھی اپنی مرضی کے لوگوں کو دیں گے، پھر پولیس بھی ماورائے قانون کارروائیاں کرے گی، پھر گاڑیاں بھی جعلی نمبر پلیٹ کی چلیں گی، پھر ریکارڈ میں ٹیمپرنگ بھی ہو گی، پھر افسران کے تبادلے بھی آپ اپنی مرضی سے ہوں گے، پھر ایم پی اے اور ایم این ایز اپنے علاقے کا تھانیدار بھی اپنی مرضی سے لائیں گے، پھر جو کمزور ہوگا، وہ دس روپے کی چوری میں بھی جوتے کھائے گا اور جو طاقتور ہو گا وہ کروڑوں کے ڈاکے ڈال کر بھی پروٹوکول کے ساتھ عدالت میں جائے گا، پھر جو کمزور ہوگا، وہ اپنی بیٹی کی عزت لٹنے پر بھی تھانے میں شکایت درج کروانے کے لیے ناک کی لکیریں نکالے گا اور ڈاکو قاتل تھانے میں بیٹھ کر بھی چرغے، پیپسی اور ووڈکا پیئں گے۔

یہ سب کیوں ہے؟ کیوں کہ پاکستان کا قانون صرف ملزم کے حیثیت دیکھ کر حرکت میں آتا ہے۔ آپ غریب ہیں تو الٹا ٹانگ دیا جائے گا، امیر ہیں تو سیلوٹ پر سیلوٹ ملیں گے۔

یہ اس وجہ سے ہے کہ قانون طاقتور طبقے کے گھر کی باندی بن کر رہ گیا ہے۔

جب احتساب نہیں ہوگا تو جمشید دستی تو جیل جائے گا لیکن زرداری صاحب سے مذاکرات ہوں گے۔

جب احتساب نہیں ہو گا تو آپ غریب ملزم کو تو عبرت کا نشان بنانے کا سوچیں گے لیکن طاقتور ملزموں اور اپنے پیٹی بھائی سیاستدانوں کو سیاسی مفاہمت کے نام پر معاف کر دیں گے۔

آپ نے ووٹ لینے تھے تو یہی زرداری صاحب تھے، جن کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے اور لوٹی ہوئی دولت واپس پاکستان لانے کا کہا گیا تھا۔ یہ آپ ہی تھے جنہوں نے احتساب اور کرپشن کا نعرہ لگایا تھا لیکن جب آپ کو ووٹ مل گئے اور اپنے سیاسی مفادات سامنے آئے تو آپ نے سب کچھ معاف کر دیا، آپ نے سب کچھ بھلا دیا۔ آپ نے تو کرپشن کے خلاف جنگ کرنی تھی اور سب کو قانون کے دائرے میں لانا تھا لیکن آپ کے اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز نے اس ملک کو ویسے ہی لوٹنا شروع کر دیا، جیسے آپ سے پہلے جاری تھا۔

کیوں؟

کیوں کے آپ کے انصاف کے معیار غریب کے لیے کچھ اور۔ اور اپنے طاقتور بھائیوں کے لئے کچھ اور ہیں۔
ہم نے آج تک یہی دیکھا ہے کہ پرویز مشرف جتنے مرضی قوانیں توڑیں، وہ بالآخر فوج کی حفاظت میں دبئی چلے جاتے ہیں۔
نواز شریف اور ان کے اہلخانہ جو مرضی کر لیں وہ چارٹرڈ طیارے پر جدہ اور پھر لندن چلے جاتے ہیں۔

زرداری صاحب جمہوریت کی بقاء کے نام پر جتنے مرضی خلاف قانون کام کر لیں وہ پرائیوٹ جیٹ سےآرام سکون کے ساتھ دبئی روانہ ہو جاتے ہیں۔
ہم نے یہی دیکھا ہے کہ سیاسی مفاہمت اور جمہوریت کے نام پر حکمران طبقے کے سو قتل اور اربوں ڈالر کی کرپشن بھی معاف کر دی جاتی ہے۔
یہ ہے پاکستان کا قانون، یہ ہے پاکستان کا انصاف اور یہ ہی پاکستان کا احتساب، جو صرف غریبوں کو دیکھ کر حرکت میں آتا ہے۔

یہ نہیں کہ غریب ملزمان کو چھوڑ دیا جائے یہ معصوم ہیں، نہیں ایسا ہر گز نہ کیجئے۔ لیکن پانچ روپے کی چوری والے کے ساتھ ساتھ پانچ ارب کی چوری والے کو بھی تو پوچھیے کہ بھائی جان آپ تو اس ملک کے قانون ساز اور رول ماڈل ہیں آپ نے ایسا کیوں کیا؟

اشرافیہ کے وقت کیوں عدلیہ اور قانون کے پاوں میں گھنگرو ڈال دیے جاتے ہیں، ان بڑے مگر مچھوں کے سامنے کیوں سارے کے سارے قانون ایک طوائف کی طرح ان کا دل بہلانے کے لیے رقص کرنا شروع کر دیتے ہیں؟

یقین کیجیے میرا نہ تو تحریک انصاف سے تعلق ہے اور نہ ہی کسی دوسری جماعت سے۔ مجھے کسی جماعت یا فوج سے کوئی لینا دینا نہیں۔

میں بس اتنا جانتا ہوں کہ اگر آج پاکستان میں طاقتور شخصیات کو احتساب کے دائرے میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو مجھے اس سے کوئی اعتراض نہیں۔

یہ احتساب عمران خان کے لیے بھی ہو تو میں اس کی حمایت کروں گا، پرویز مشرف جیسی مقدس گائیوں کا بھی ہو تو میں انصاف کا نعرہ لگاؤں گا، یہ زرداری صاحب، نواز شریف صاحب، نذیر، بشیر، میرے، میرے بھائی، جس کے خلاف بھی ہو، میں احتساب کے حق میں ہوں گا۔ جو بھی قانون کے خلاف جائے اس کا احتساب ہونا چاہیے اور یہ بلا تفریق ہونا چاہیے۔ میں اگر سرخ بتی پر نہیں رکتا تو مجھے جرمانہ ہونا چاہیے لیکن اگر ایک وزیر یا فوجی نہیں رکتا، اسے بھی جرمانہ ہونا چاہیے۔

بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر شناختی کارڈ بنوانے کے لیے مجھے لائن میں لگنا پڑتا ہے تو ایک ایم این اے یا وزیر کو بھی لگنا چاہیے۔

اگر عدالتیں اور شریف خاندان اقتدار میں آنے کے بعد زرداری صاحب کی ٹیم اور حکومت کو سیاسی مفاہمت کے نام پر معاف کر دیں گے اور زرداری صاحب یہی کام اپنی حکومت آنے کے بعد کریں گی اور پرویز مشرف کو بچانے کے لیے بوٹوں والے متحرک ہو جائیں گے تو پھر بیچارہ غریب ہی بچتا ہے۔ آپ اس سے ٹیکس لیں، اس سے ٹانگیں دبوائیں، اس سے اپنے حقے کی چلمیں بھروائیں، اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے نعرے لگوائیں، اسے الٹا لٹکائیں یا پھر اسے فٹبال بنا کر ”ٹُھڈے“ ماریں کون پوچھنے والا ہے۔

دوسری طرف یہ عوام کی بھی اپنی مرضی ہے کہ انہوں نے کس کا ساتھ دینا ہے؟

آپ احتساب بلا تفریق کے لیے آواز بلند کریں یا پھر ان حکمرانوں، طاقتور اشرافیہ اور بوٹوں والوں کو اجازت دیں کہ وہ اس وقت تک آپ کے سروں پر ایسے ہی تیل میں بھیگی جوتیاں مارتے رہیں، جب تک آپ کے دماغ ٹھکانے نہیں آ جاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).