ریت اور دھند کا مکان


رات کا سمے ہے، پس منظر میں پولِس وین کی گھومتی ہوئی لال بتی دکھائی دے رہی ہے۔ گھر کے برآمدے میں لکڑی کی ریلنگ پر افسردہ اور گم سم بیٹھی کیتھی کے سامنے ایک پولِس افسر آن کھڑا ہوتا ہے۔
”تم کیتھی نکولو ہو؟“
”ہاں!“
”یہ مکان تمھارا ہے؟“
جواب میں گہری خاموشی۔ یہ آغاز ہے، فلم House of sand and fog کا۔

2003ء میں نمایش کے لیے پیش کی جانے والی اس ہالی وڈ فلم کے ہدایت کار روسی نژاد Vadim Perelman ہیں۔ ہدایت کار کے طور پہ یہ ان کی پہلی فلم تھی۔ میں اکثر دوستوں‌ سے کہتا ہوں، کہ کسی کو جاننا ہو کہ ہدایت کار کیا ہوتا ہے، وہ اس فلم کو ضرور دیکھے۔ Andre Dubus III کے ناول پر فلمائی اس کہانی کا اسکرین پلے Shawn Lawrence Otto اور فلم کے ہدایت کار کی مشترکہ کاوش ہے۔ اسی ہدایت کار نے بعد میں Yolki 5 اور The life before her eyes کی ہدایات بھی دیں۔

کرشنا پنڈت بھانجی المعروف Ben Kingsley انھوں نے ”گاندھی“ فلم (1982ء) میں موہن داس گاندھی کا کردار نبھایا۔ اس فلم میں امپیریل ایرانین آرمی کے ایسے کرنل (مسعود عامر بہیرانی) کا کردار کرتے دکھائی دیتے ہیں، جو انقلاب ایران کے بعد فرار ہو کے امریکا میں پناہ گزین ہے۔ دوسری طرف کیتھی کے کردار میں دل کش و دل رُبا Jennifer Connelly ہیں۔ شہرہ آغداشلو، ایرانی نژاد امریکی اداکارہ ہیں؛ میرا خیال ہے کہ فلم بینوں سے زیادہ فلمی ناقد ان کے مداح ہیں۔ انھوں نے اس فلم میں کرنل مسعود بہیرانی کی ایرانی بیوی نادرہ کا کردار اس مہارت سے ادا کیا ہے کہ اکادمی ایوارڈ کی بہ ترین معاون اداکارہ کی کیٹگری میں اپنا نام شامل کروا لیا۔ یہی نہیں، بین کنگسلے بھی اسی فلم سے بہ ترین اداکار کے لیے نام زد ہوئے۔

فلم کا پلاٹ یوں ہے کہ نشے کی لت میں پڑی کیتھی کو اس کا شوہر چھوڑ کے جا چکا ہے؛ کاونٹی کے ٹیکس وقت پر نہ جمع کروانے کے کئی نوٹس دیے جا چکے ہیں، جس سے کیتھی بے خبر ہے۔ لہاذا اس کے مکان کی نیلامی کا اشتہار دیا جاتا ہے۔ کرنل مسعود بہیرانی اپنی بیٹی کی شادی کر چکا ہے، اور کم سن بیٹے کے مستقبل کے لیے فکرمند ہے۔ وہ اپنے گھر والوں اور حلقہ احباب سے پوشیدہ رکھتے معمولی درجے کے مزدوری کرتا ہے تا کہ کچھ رقم پس انداز کر کے بیٹے کو اعلا تعلیم دلا سکے۔ کیتھی کے مکان کی نیلامی کا اشتہار دیکھ کے وہ بھی بولی لگانے چلا جاتا ہے اور مارکیٹ ویلیو سے کم پر اس مکان کو خرید لیتا ہے۔ کیتھی اپنے وراثتی مکان کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگی ہے، وہ واویلا کرتی ہے کہ کاونٹی نے جو نوٹس بھیجے تھے وہ اس تک پہنچے ہی نہیں، بہ ہر حال سقم ہوتا ہے، تو کرنل بہیرانی سے کہا جاتا ہے، وہ کیتھی کا مکان اس کو لوٹا دے اور اپنی رقم واپس لے لے۔ کرنل بہیرانی مکان کی آرایش پر رقم خرچ کر چکا ہے، تا کہ اس جائداد کو اچھی قیمت پر فروخت کر کے اپنی حالت سنوار سکے۔ وہ اسی قیمت پر مکان لوٹانے سے انکار کر دیتا ہے، اور مارکیٹ پرایس کا مطالبہ کرتا ہے۔ اب کیتھی کو ایک لمبی قانونی جنگ لڑنا ہے، اور وہ کس مپرسی کے عالم میں ہے۔

ایک جگہ کیتھی کہتی ہے، ”مجھے اپنے ابو یاد آ رہے ہیں، انھوں نے تیس سال محنت کر کے یہ گھر بنایا، اور میں نے صرف آٹھ مہینے لگائے اسے برباد کرنے میں۔“

فلم دیکھنے لائق ہے، میں انتہائی اختصار سے اس حصے کی طرف آتا ہوں، جب کیتھی ایک پولِس افسر لیسٹر کو اپنی محبت کے جال میں الجھا کے اس کی مدد حاصل کرتی ہے۔ لیسٹر اپنے اختیار کا غلط استعمال کرتے کرنل بہیرانی کو دھمکاتا ہے، کہ تم ایرانی انقلاب کے بھگوڑے ہو، ڈی پورٹ کروا کے ایران بھجوا دوں گا، اور وہاں تمھارا کیا ہوگا، تمھیں اچھے سے معلوم ہے۔ کرنل بہیرانی کی بیوی نادرہ اس دھمکی سے خوف زدہ ہو جاتی ہے، اور شوہر سے کہتی ہے اس جھگڑے میں نہ پڑے، کیتھی کا مکان لوٹا دے۔ سخت گیر بہیرانی ہار ماننے کو تیار نہیں، وہ پولِس اسٹیشن جا کے لیسٹر کی دھمکی کی شکایت کرتا ہے۔ لیسٹر کے خلاف محکمانہ تحقیقات شروع ہو جاتی ہیں۔ ادھر قانون کی پے چیدگیوں سے متاثر، بے گھر ہوئی کیتھی سے صبر نہیں ہوتا، کرنل مسعود بہیرانی اور اس کے درمیان تلخ کلامی معمول بن چکا ہے۔ آخر وہ ہمت ہار کے بہیرانی کے گھر کے سامنے آ کر خودکشی کی کوشش کرتی ہے لیکن نشے کی زیادتی کی وجہ سے ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ کرنل مسعود بہیرانی اس کے اپنے دروازے پر ناگفتہ بہ حالت میں پا کر، اس کی مدد کو آتا ہے۔ یہاں سے فلم ناظرین کو اپنے شکنجے میں ایسے جکڑ لیتی ہے، کہ آخری فریم تک ہلنے نہیں دیتی۔ انسانی جذبوں کو کس قدر خوب صورتی سے فلمایا گیا ہے، وہ آپ خود دیکھ لیجیے گا۔

2004ء میں، میرا لاہور سے کراچی جانا ہوا تو دوستوں کے ساتھ یہ فلم دیکھی۔ دل پہ ایسا اثر کیا کہ اگلے روز شاعر و ہدایت کار ایوب خاور کو خصوصی دعوت دی کہ آپ یہ فلم ہمارے ساتھ دیکھیں۔ ہم دوستوں کا ارادہ تھا کہ خاور صاحب کو یہ فلم دکھا کے اپنے ذوق کی داد لیں گے۔ فلم دیکھتے ہم کنکھیوں سے خاور صاحب کے تاثرات دیکھتے جاتے، ابتدائی حصوں میں خاور صاحب پر غنودگی طاری رہی، وہ بے دلی سے دیکھ رہے تھے۔ ہمیں پروا نہ تھی کیوں کہ فلم کی شروعات انتہائی سست ہے۔ جب کہانی اس موڑ پر آئی جس کا اوپر بیان ہے، تو خاور صاحب چوکنے ہو کے بیٹھ گئے۔

لیسٹر، بہیرانی کے گھر پہنچتا ہے تو مکین کیتھی کی جان بچانے کی تگ و دو میں ہیں، وہ سمجھتا ہے یہ کیتھی کو مارنے چلے ہیں، وہ گن پواینٹ پر ان سب کو گھر کے غسل خانے میں قید کر دیتا ہے۔ کیتھی بے ہوش ہے، اگلے روز سلیٹر بہیرانی کے بیٹے کو یرغمال بنا کے کاونٹی کے دفتر لے جاتا ہے، تاکہ بہیرانی مکان کے کاغذات کیتھی کا نام کر دے۔ یہاں مسعود بہیرانی کا کم سن بیٹا، سلیسٹر سے پستول چھین لیتا ہے، کرنل مسعود بہیرانی راہ چلتے پولِس والوں کو مدد کے لیے پکارتا ہے، وہ غلط فہمی کی بنا پر کم سن محمد اسماعیل پر فایر کر دیتے ہیں، ایمبولینس بچے کو اسپتال لے جاتی ہے، اور بیہرانی کو پولس وین میں بٹھا کے تھانے لے جایا جاتا ہے؛ وہاں سلیسٹر اپنھے جرم کا اعتراف کر لیتا ہے، بیہرانی کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سخت جان کرنل مسعود عامر بہیرانی ایک غم زدہ باپ کی طرح اپنے بیٹے کو پکارتا ہوا، اسپتال کی راہ داریوں میں دوڑا چلا آتا ہے، یہ انتہائی الم ناک منظر ہے۔ میں نے ایک سے زائد بار یہ فلم دیکھی ہے، اور جتنی بار دیکھی ہے، اس مقام پر اپنے آنسو نہیں روک پاتا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ہمیں ایوب خاور کو سنبھالنا پڑا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائے تھے۔ میری جتنے دوستوں سے اس فلم پر بات ہوئی ہے، سبھی کہتے ہیں، ہم اس جگہ رو پڑے تھے۔

کرنل مسعود بہیرانی جس بیٹے کے روشن مستقبل کے لیے تگ و دو کر رہا تھا، اس کی لاش اس کے سامنے اسٹریچر پر پڑی ہے۔ ایسے میں وہ خدا کے سامنے گڑگڑاتا ہے۔

Please, God, don’t take my janum. I make my nazr. My Nazar, hear me, please to hear me. I will give everything to one who is less fortunate. Yes! I will make it for the broken bird. Please, God, I’m making nazr to this woman. To Kathy Nicolo. And I, to you I promise, if you heal my son, I will return her father’s house. I will also give to her all the money I have. My God, Khuda. I make Nazar only for my son. Please, I want only for my son. I beg you. I will do whatever is your will. I will purchase ten kilos of the finest seed and I will find an American mosque and I will feed them to all the birds outside. I will let the birds cover me and peck out my eyes! Please, God, my NazaVr is in your hands!

بہت کچھ تو بتا دیا پھر بھی آپ یہ فلم ضرور دیکھیے۔ فلم کے آخر میں بہیرانی گھر آتا ہے، اس کی بیوی نادرہ کو بظاہر نہیں معلوم کہ کیا قیامت بیت چکی ہے۔ لیکن ایک ماں کا دل ہے، جو جان چکا ہے، جگر کا ٹکڑا نہیں رہا۔ کرنل مسعود عامر بہیرانی قہوے میں نیند کی گولیاں ملا کر، نادرہ کو پلائے چلا جاتا ہے، ایسے میں وہ کہتی ہے۔

نادرہ: میں نے خواب دیکھا ہے، کہ ہمارا یہ مکان خالی ہے اور میں ایک پرندہ پھنس چکا ہے۔ وہ پھڑپھڑاتے ہوئے دیواروں سے ٹکرا رہا ہے، کہ باہر نکل سکے۔ میں اس وقت بھی اس پرندے کے پروں کی ہوا اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی ہوں۔ آخر میں نے کھڑکی کھول دی، اور وہ اڑ کے باہر چلا گیا۔

آخری سانسیں لیتی بیوی کو بستر پر لٹا کے کرنل مسعود فوجی وردی پہنتا ہے، موم جامے سے اپنا منہ ڈھانپ کر موت کی وادی میں چلا جاتا ہے۔ کیتھی جب ان تک پہنچتی ہے، بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ آخر میں وہی پہلا فریم کھلتا ہے، جہاں سے آغاز ہوا تھا۔

پولِس افسر: تم کیتھی نکولو ہو؟
کیتھی: ہاں!
پولِس افسر: یہ گھر تمھارا ہے؟
(گہری خاموشی، اور پھر)
کیتھی: نہیں!

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran