پانامہ لیکس , اقتدار کی رسہ کشی


پانامہ لیکس نے جہاں دنیا کے کئی وزرائے اعظم کو اپنے دوست، احباب کے اس لیکس میں نام آنے پر عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور کردیا وہی پاکستان کے وزیراعظم جناب میاں محمد نواز شریف کو اپنے بچوں کے نام اس لیکس میں آنے کے بعد مشکل میں ﮈال دیا ہے۔

پاکستان میں جو لوگ دھرنوں اور ملک میں افرا تفری سے وزیراعظم کی چھٹی کروانا چاہتے تھے انھیں وزیراعظم کو تنقید کرنے کا ایک بڑا جواز مل گیا۔ جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پانامہ لیکس یا آفشور کمپنی کے حوالے سے پاکستان کے وزیراعظم کے خاندان کے افراد کا نام آنے پر آڑے ہاتھوں لےلیاگیا۔

وزیراعظم نے اسمبلی میں پانامہ لیکس کے حوالے سے صفائی دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔

پانامہ معاملے کو پہلے سیاسی جماعتوں کی جانب سے مل کر حل کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی۔ ابھی سیاسی جماعتیں اس پر مشاورت کر ہی رہی تھی کہ چنداپوزیشن ارکان کی جانب سے میاں محمد نواز شریف کی اسمبلی کی تقریر اور پانامہ لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے درخواست منظور ہونے کے بعد 5 معزز ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دیا گیا۔ پانامہ لیکس کیس کے حوالے سے بننے والے پانچ رکنی بینچ میں جسٹس آصف خان کھوسہ، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن نے دونوں فریقین کےدلائل سنے۔ سپریم کورٹ نے 126 دن میں 36 روز کیس کی سماعت کی، جس میں وزیراعظم اور ان کے بچوں کے وکلاء اور اپوزیشن ارکان کے وکلاء نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے۔ تمام دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ کے بینچ نے 23 فروری 2017 کو پانامہ کیس کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کیا جس کے 57 روز بعد 20 اپریل 2017 کو 540 صفحات پر مشتمل فیصلہ سامنے آیا۔ پانامہ کیس کے حوالے سے بینچ کی جانب سے فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم اور ان کے بچوں کے وکلاء ٹھوس دلائل یا پھر بینچ کو مطمعین کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جس کے لیے مزید تحقیقات ہونا ضروری ہیں۔ دو ججز کی جانب سے واضح کہا گیا کہ وزیراعظم آئین کے آرٹیکل 62۔ 63 کے تحت صادق اور امین نہیں رہے۔ مجموعی طور پر بینچ نے کوئی بھی حتمی فیصلہ دینے سے قبل جوائینٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے تحت مزید تحقیقات کا حکم دیا۔

پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے 5 مئی 2017 کو پانچ اہم اداروں کے نمائندوں پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جسے دو ماہ کے اندر تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ ایپکس کورٹ میں جمع کروانے کی ہدایت دی گئی۔ جے آئی ٹی نے 9 مئی 2017 سے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا۔

جے آئی ٹی کی سربراہی ایف آئی اے کے ایڈیشنل ﮈاریکٹر واجد ضیاء کررہے ہیں۔ اسکےاعلاوہ بلال رسول ایگزیکٹیو ﮈائریکٹر سیکورٹی ایکسچینج آف پاکستان، عرفان منگی ﮈائریکٹر نیب، آئی ایس آئی کے نعمان سعید، ایم آئی کے بریگیڈئر کامران خورشید اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز، شامل ہیں۔

جے آئی ٹی کے اس دو ماہ کے دوران بعض حلقوں کی جانب سے ان کی غیرجانبداری پر بھی سوال اٹھایا گیا، کسی نے جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی کوشش کی مگر جے آئی ٹی نے کام جاری رکھا، وزیراعظم اور ان کے بچوں نے بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے میں کوئی چوں چا نہیں کی، وزیراعظم نواز شریف ان کے بچے حسین نواز، حسن نواز، مریم نواز شریف سمیت جسے جے آئی ٹی نے پیش ہونے کا حکم دیا وہ جے آئی ٹی کےسامنے پیش ہوا اور سوالوں کے جوابات دیے۔

پانامہ لیکس کی جے آئی ٹی کو تحقیقات کےلیے دیا گیا وقت 10 جولائی کو ختم ہوگیا ہے اور جے آئی ٹی کی جانب سے جے آئی ٹی اپنی رپورٹ ایپکس کورٹ میں جمع کرائی جاچکی ہے۔ رپورٹ کے بعد کیا اور کب حتمی فیصلہ آئےگا کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ پانامہ لیکس کی جے آئی ٹی کا فیصلہ جو بھی ہو مگر سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کے تمام مسائل کا حل پانامہ لیکس کے فیصلے میں ہے ؟

پانامہ لیکس فیصلے کو عوام کی فتح قرار دینا عوام کےساتھ زیادتی ہوگی۔ کیونکہ پانامہ لیکس کیس ایک اقتدار کی جنگ ہے احتساب کی نہیں۔ کیا اپوزیشن جماعتوں بشمول تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے کیا پانامہ لیکس کے انکشاف کے بعد کرپشن کی روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی کی گئی؟ پانامہ لیکس میں وزیراعظم کے خاندان کے اعلاوہ جن لوگوں کے نام ہیں ان کے خلاف کارروائی یا تحقیقات کے لیے کوئی قانون سازی کی گئی ہے ؟

خدارا پانامہ کا جو بھی فیصلہ ہو عوام کےجذبات سے مزید نہ کھیلا جائے۔ اسے پاکستان یا عوام کی فتح قرار دینے کے بجائے حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ پانامہ لیکس دراصل اپنی انا کی وجہ سے تمام قومی معاملات کو پس پشت ﮈالنے والے انا پرستوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کے اعلاوہ کچھ نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).