آ وائرس مجھے مار!


دس برس پہلے تک برطانوی کھیتوں کے اوپر ہیلی کاپٹر کی ہم شکل ٹڈیاں دیکھنا محال تھا مگر درجہِ حرارت میں اضافے کے سبب ماحولیاتی تبدیلیاں آنے سے میں نے لندن سے باہر چند زرعی علاقوں میں بچشم ان حیاتیاتی ہیلی کاپٹروں کو اڑتے دیکھا کہ جنھیں ہم بچپن میں رحیم یار خان کے کھیتوں میں پکڑنے کے لیے دوڑا کرتے تھے۔

اب تک بالائی یورپ میں مچھر اور مکھی کا وجود نہیں مگر جس تیزی سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے نہ صرف جنوبی کرے کی یہ سوغاتیں یورپ میں پناہ گزیں ہوں گی بلکہ ملیریا، کالرا اور ڈینگی بھی دنیا کے جنوبی خطوں سے سرد شمالی علاقوں کی جانب مراجعت کرتا نظر آئے گا۔

اگرچہ دنیا نے اینٹی بائیوٹک کی ایجاد کے بعد سے پچھلے اسی برس میں کئی بنیادی اور خطرناک بیماریوں سے نجات حاصل کر لی ہے۔اور اب ایسی داستانیں کسی اور دنیا کی لگتی ہیں جیسے تیرہویں تا پندھرویں صدی کا یورپی پلیگ کہ جسے کالی موت کا نام دیا گیا اور اس نے یورپ کی آدھی آبادی چٹ کردی۔یا پہلی عالمی جنگ کے آخری برسوں میں پھیلنے والا انفلوئنزا جو لاکھوں لوگوں کو ساتھ لے گیا۔یا پھر منحوس چیچک کہ جس سے اس زمین کو پاک کرنے کا دعویٰ کر دیا گیا ہے اور اب اٹھانوے فیصد کرہِ ارض سے پولیو کو جہنم رسید کرنے کی خبر سنائی جا رہی ہے۔

بلاشبہ موذی امراض کے خلاف یہ انسانی کامیابیاں عظیم الشان ہیں۔پر بیماریوں سے جاری اس جنگ کے بیچ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آپ وائرس اور خطرناک بکٹیریا کو موثر طبی ہتھیاروں سے پسپا ضرور کر سکتے ہیں لیکن یہ یقین کرنا پرلے درجے کی نادانی ہو گی کہ آپ کسی بھی وائرس یا بکٹیریا  کی سو فیصد نسل کشی کر سکتے ہیں۔وائرس اور بکٹیریاز بھی اپنے وجودی تحفظ کے بارے میں اتنے ہی مکار اور چالاک ہوتے ہیں جتنے کے خود حضرتِ انساں۔وہ بھی ہماری طرح پیچھے ہٹنے ، اوٹ کر لینے اور بھیس و حلیہ بدل بدل کے حملہ آور ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔

بہت سے وائرس اور بکٹیریا اپنی سخت جانی میں عمرِ خضر کے تصور سے بھی آگے ہیں۔امریکی ریاست نیو میکسیکو کے لیچ اوگیلا نامی غار میں ایک ہزار فٹ اندر پائی جانے والی تاریکی اور ٹھنڈک کے سبب ایسے بکٹیریاز کا وجود ہے جنہوں نے چار ملین برس سے روشنی نہیں دیکھی۔

ایڈز کے وائرس پر قابو پانے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ یہ خود کو درپیش خطرے کے اعتبار سے شکل بدل بدل کے اپنا کام جاری رکھتا ہے۔یہی مکاریاں کینسر کی بہت سی اقسام میں بھی پائی جاتی ہیں۔اگر انسان نے اینٹی بائیوٹک کی پانچویں نسل تیار کر لی ہے تو وائرس بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے انھوں نے بھی اپنے مزاحمتی عمل کو جدیدیا لیا ہے۔

اب تو ایک سپر بگ بھی سامنے آگیا ہے جس کے آگے ہر نسل کی اینٹی بائیوٹک ہیچ ہے۔بعض بکٹیریاز تو خود کو اتنا بدل چکے ہیں کہ ان پر کم ازکم اٹھارہ اقسام کی اینٹی بائیوٹک ادویات قطعاً بے اثر ہیں۔دسمبر دو ہزار سولہ میں سامنے والی ایک برطانوی طبی رپورٹ میں ’’پینیبیسیلس ایس پی ایل سی ٹو تھری ون’’ نام کے ایک بکٹیریا کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا کیونکہ یہ جوان کا بچہ اینٹی بائیوٹک کی ستر فیصد اقسام سے پنجہ لڑا سکتا ہے۔

آپ میں سے بیشترنے فلم جراسک پارک تو ضرور دیکھی ہوگی کہ کس طرح ڈائنوسار کے لاکھوں برس پرانے انڈے کو سائنس کی مدد سے دوبارہ متحرک کر لیا جاتا ہے اور پھر اس دنیا میں ڈائنوسار ایک بار پھر پیدا ہوکر تباہی مچا دیتے ہیں۔کہنے کو تو یہ محض ایک فکشن ہے لیکن بری خبر یہ ہے کہ یہ فکشن نہیں ہے۔

دو ہزار پانچ میں ناسا کے سائنس دانوں نے الاسکا کے ایک منجمد جوہڑ میں بتیس ہزار برس سے دبے بکٹیریاز کو زندہ کر لیا۔یہ اس دور کے جانباز ہیں جب کرہِ ارض پر اونی کھال والے گرانڈیل ہاتھی ( میمتھ ) کا راج تھا۔ دو ہزار سات میں انٹارکٹیکا کے ایک گلیشییر میں منجمد آٹھ ملین برس پرانے بکٹیریا کو کامیابی سے متحرک کرنے کا تجربہ ہوچکا ہے۔دو ہزار چودہ میں روسی ماہرینِ حیاتیات نے سائبیریا کی برف میں دبے تیس ہزار برس پرانے دو وائرس زندہ کرنے کا کامیاب تجربہ کیا۔

اگرچہ ہر وائرس اور بکٹیریا طویل عرصے تک زندہ رہنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور نہ ہی ان میں سے اکثر کو دوبارہ متحرک کیا جا سکتا ہے۔مگر کئی وائرس ایسے سخت جان ہیں کہ اگر انھیں روشنی ، مناسب درجہِ حرارت اور متوازن موسم میسر آجائے تو وہ خود بھی متحرک ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہی وہ خدشہ ہے جو ماحولیاتی سائنس دانوں کو مارے دے رہا ہے۔یعنی برف پگھلنے کے سبب قدیم دور کی بیماریوں کا بھنڈار دوبارہ کھل سکتا ہے کہ جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ ان کا نیا مزاج اور توڑ کیا ہوگا۔

شمالی روس میں بیسویں صدی کے شروع میں اینتھریکس کی وبائی چپیٹ میں آ کر ایک ملین سے زائد رینڈئیرز ختم ہوگئے اور ان کے ڈھانچے ٹنڈرا کے خطے میں سات ہزار مختلف مقامات پر برف میں دب گئے۔اس کے بعد علاقے میں ایسا کوئی وبائی واقعہ نہیں ہوا۔مگر گذشتہ برس اگست میں سائبیریا کے جزیرہ نما یمال سے خبر آئی کہ ایک بارہ سالہ بچہ اینتھریکس سے ہلاک اور بیسیوں دیگر علیل ہو گئے۔

تحقیقات سے بھید کھلاکہ اس علاقے میں گذشتہ برس برف پگھلنے کے سبب پچھتر سال پہلے منجمد ہونے والے اینتھریکس سے متاثرہ ایک رینڈئیر کاڈھانچہ نمودار ہوگیا۔ تازہ وبا میں اس علاقے کے دو ہزار رینڈئیر متاثر ہوئے اور ان کے ذریعے وائرس زمین اور پانی کے ذریعے انسانی خوراک تک پہنچ گیا۔

اٹھارہ سو نوے میں سائبیریا کے دریائے کولیاما کے کنارے آباد ایک قصبے کی چالیس فیصد آبادی چیچک چاٹ گئی۔ لاشیں دریا کے کنارے برفیلی قبروں میں دفن کی گئیں۔اب آرکٹک سرکل کے درجہ حرارت میں پچھلی تین دہائیوں میں تین گنا اضافے سے دریائے کولیاما کے کناروں کے کٹاؤ میں تیزی آنے کے سبب یہ انسانی ڈھانچے ٹھنڈی تاریک برفیلی تہہ سے نکل کے نمودار ہو گئے ہیں۔تاحال ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ان ڈھانچوں کو متاثر کرنے والا چیچک کا وائرس پھر سے کلبلا رہا ہے مگر وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں کہ ’’یو نیور نو۔۔‘‘

آرکٹک سرکل کے اندر آنے والے شمالی سائبیریا اور امریکی ریاست الاسکا میں درجہِ حرارت میں تیزی سے اضافے کا ایک سبب اس علاقے میں تیل اور گیس کی تلاش اور ٹرانسپورٹ کی ماضی و حال کی دیوانہ وار سرگرمیاں اور بڑھتی ہوئی انسانی نقل و حرکت ہے۔خود کردہ را علاج نیست۔۔

چنانچہ الاسکا میں چیچک اور ببونک پلیگ کے علاوہ انیس سو اٹھارہ کے اسپینش فلو سے مرنے والے مقامیوں کی اجتماعی برفیلی قبروں کے کئی آثار ابھر رہے ہیں۔ اب ان قبروں میں دبے وائرس آگے چل کے کیا گل کھلا سکتے ہیں۔ فی الحال اللہ بہتر جانتا ہے۔

( اگلے مضمون میں یہ جانیں گے کہ اس ماحولیاتی آپا دھاپی میں پاکستان کس گنتی شمار میں ہے؟ ہے بھی کہ نہیں؟)۔

(بشکریہ ڈیلی ایکسپریس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).