ایک صوفی کی پیش گوئی بمع تحقیق و ملی نغمہ


اکثر آپ اپنی گنہ گار آنکھوں سے کئی مظاہر دیکھ چکے ہوں گے، لیکن پھر بھی میری بات سے اتفاق کرنا، آپ کے لیے مشکل ہی ہوگا۔ میری تحقیق ہے، کہ ملی نغموں کی اس دھرتی پر ہمیشہ سے صوفیوں کا راج رہا ہے۔ آپ کوئی بھی رائے قائم کرنے سے قبل میری اس تحقیق پر اک نظر کیجیے۔

یہ سچ ہے کہ یہاں غیر ملکی اور ملکی بادشاہوں نے حکومتیں قائم کیں؛ اشوکا، موریہ، بابر، سوری، سام راج اور سوا راج۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ ہی صوفیوں نے بھی اپنا کام جاری رکھا۔ آج کل کی تعریف کے مطابق دیکھا جائے، تو ان صوفیوں نے ہمیشہ ریاست کے اندر ریاست بنائے رکھی۔ اب پوچھیے صوفی کا کام کیا ہوتا ہے۔ دیکھیے! سب سے پہلے تو صوفی کے گرد تقدیس کا ہالہ ہوتا ہے، کچھ تو یہ ہالہ بنایا جاتا ہے، اور کچھ اس کے معصوم مرید خود ہی بنا لیتے ہیں۔ مریدین اس ہالے کا اتنے ترانے گاتے ہیں، کہ ہالہ سب کو دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس طرح کسی دانا کے لیے ہالے کے اندر موجود خاکی بدن تک پہنچنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ صوفی کوئی غلط قدم بھی اٹھائے تو یقین ہونا چاہیے کہ وہ دھرتی کے باسیوں کی فلاح ہی کے لیے اٹھاتا ہے۔ صوفی نماز پڑھے، نہ پڑھے؛ روزہ رکھے، نہ رکھے؛ وہ اہل ایمان ہی سے اٹھایا جائے گا۔ اس پر شک کرنا خدا پر شک کرنے جیسا ہے۔

تاریخ میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے، لیکن اپنی ضرورتوں کے لیے ان صوفیوں ہی کے محتاج رہے۔ بل کہ ان صوفیوں نے کئیوں کو تخت پر بٹھایا، کئیوں کو معزول کیا۔ بادشاہ تو دنیا کے ذلیل کاموں سے جڑے ہوتے ہیں، جب کہ یہ اللہ کے نیک بندے یعنی صوفی، دھرتی کی جغرافیائی سرحدوں کے علاوہ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی کرتے آئے۔ سدا سے بادشاہ ان صوفیوں کے دربار پر حاضری دیتے آئے، کبھی سرعام ملتے تو کبھی چھپ چھپا کے؛ چھپ چھپا کے ملنے والے وہ شہزادے ہوتے جنھیں تخت نشین ہونے کی جلدی ہوتی، صوفی انھیں دعا دیتے، اور دیکھنے میں آیا ہے کہ صوفی کی تھپکی کے بعد یک دم ان کا ستارہ چمکنے لگتا۔ بادشاہ، شہزادے، امرا، وزیر و درباری سب صوفیوں کے گن گاتے نہ تھکتے۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا، کیوں کہ صوفی کام کاج تو کرتے کوئی نہیں، ہاں یہ سننے میں عام ہے، کہ صوفی ہیں تو دھرتی سونا اگلتی ہے، اور یہ بھی کہ صوفی نہ ہوتے تو بستی کو کب کا سیلاب بہا لے جاتا۔ لہاذا ان صوفیوں کو دان کرنا ہر ایک کا فرض منصبی ہے۔

آپ نے ان برگزیدہ ہستی کا واقعہ تو سن رکھا ہوگا، جو دریا کے پار ڈیرا لگائے ہوئے تھے، کیوں کہ ایک اور برگزیدہ ہستی پہلے سے شہر پر راج کر رہی تھی۔ جونھی پہلے صوفی کا وصال ہوا، ندی پار بیٹھے صوفی نے شہر میں انٹری دی۔ اب شہر پر ان کا راج ہونے جا رہا تھا۔ ایسے کئی واقعات ہیں، صوفی بدلتے رہتے ہیں، ایک کے بعد دوسرا، لیکن تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ صوفی کسی بھی مملکت پر اپنا راج پاٹ نہیں چھوڑتے۔ یہ بھی ہے کہ ہر نیا صوفی اپنے سے پہلے گزرنے والے صوفی کی تقدیس پر حرف نہیں آنے دیتا۔ یہ ایک ان لکھا قاعدہ ہے، اگر یہ روایت پڑ جائے کہ گزرے ہوئے صوفیوں کا احتساب ہونے لگے، تو حاضر سروس صوفیوں کا آیندہ کل خطرے میں پڑ جائے گا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بادشاہ کے فاخرانہ لباس پر انگلیاں اٹھتی آئیں، اس کے خزانوں کا حساب ہوتا رہا، اس کی حرم میں کتنی کنیزیں ہیں، کتنے بچے اور کس کا کس سے معاشقہ ہے، رعایا کو سب کی سب، کسی نہ کسی خفیہ ذرائع سے خبر ہو جاتی۔ ادھر صوفیوں کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے، چوں کہ ان کے گرد تقدس کا ہالہ محو رقصاں ہوتا تو کسی کی جرات نہ ہوتی کہ اس نوری ہالے کے پیچھے موجود خاکی وجود سے سوال کر سکے۔ ان کی اولاد کے لیے پردے کا اہتمام ہوتا، یوں رعایا کو علم ہی نہ ہوتا، کہ صوفی کے بچے کس دیس میں ہیں، اور ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں۔ کوئی کم زور ایمان کا شہری، کار قضا نامناسب سوال کر ہی بیٹھے تو عجب جادو سا دیکھنے میں آیا ہے؛ آن کی آن میں اس سوال کرنے والے کو کوہ قاف کی پریاں اٹھا لے جاتیں، پھر اس کی کوئی خبر آئے نہ آئے، کچھ کہنا مشکل ہے۔ ہر صاحب حیثیت ان صوفیوں کو اپنی بساط سے بڑھ کے خراج دیتا آیا، تا کہ اُن کا کاروبار سلامت رہے۔ وہ ایسا نہ کریں تو صوفی جلال میں آ کے بد دعا دے سکتا ہے۔ صوفیوں کی بد دعا سے رعایا سے لے کر امرا، وزیر، بادشاہ تک لرز جاتے تھے، اور اب تک لرزتے ہیں۔ اور تو اور قاضی الوقت بھی صوفیوں کے سامنے دم نہیں مار سکتا۔ کیوں کہ قاضی کو بھی اپنے بچوں کو پردیس میں پڑھانا ہوتا ہے، صوفیوں کی بد دعا لے کر کون محفوظ رہ سکا ہے۔

یہ واضح ہو کہ صوفی کبھی سازش نہیں کرتے۔ ولی عہد کی جگہ دوسرے شہزادے کے سر پہ ہاتھ رکھنا دعا کہلاتا ہے محلاتی سازش نہیں۔ آپ تاریخ کا اسی باریک بینی سے مطالعہ کیجیے، جس باریک بینی سے میں کر چکا ہوں، تو یہ انکشاف ہوگا، جو بادشاہ صوفی کی دعا سے تخت نشین ہوتا آیا، وہ صوفی کی مراعات میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ جب جب تخت نشین بادشاہ ان کا مرید رہا، صوفی نے اس بادشاہ سے کوئی تغرض نہیں رکھا؛ جب بادشاہ نے یہ سمجھا کہ وہ رعایا کے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتا ہے، صوفی کی اس بادشاہ سے ان بن ہو گئی۔ وجہ یہ ہے کہ صوفی سمجھتے ہیں، بادشاہ کوئی بھی ہو، راج انھی کا چلے گا۔ بادشاہ کو غلط فہمی ہو جائے کہ راج وہ کر رہا ہے، تو صوفی اس کی غلط فہمی دور کرنے میں سستی سے کام نہیں لیتا۔

ایک بار میں نے ذکر کیا تھا کہ میرے پاس ٹایم مشین ہے، جس میں سوار ہو کے میں اتہاس میں سفر کر سکتا ہوں۔ صوفیوں پر تحقیق کرتے میں ایک ایسے دور میں پہنچا، جہاں بادشاہ اور شہزادی کو مقدموں کا سامنا تھا، اسی دور میں میری ملاقات ایک صوفی صاحب سے ہو گئی۔ ان صوفی صاحب کا نسب اس سلسلے سے ہے، جو پرتھوی کی رکھشا کی ضمانت لیے ہوئے ہیں۔ اللہ کے برگزیدہ بندے سے میں نے سوال کیا کہ وقت کے بادشاہ اور ان کی نیک پروین کو جس کڑے امتحان میں ہیں، اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ ان کے چہرے پر جلالی کیفیت کا ظہور ہوا۔ کمالی لہجے میں فرمایا، ”ہم نے بادشاہ سے ناراض ہو کر اس کو بد دعا دی تھی، کیوں کہ بادشاہ نے ہمارے پیش رو کو قاضی کے سامنے پیش کیا تھا، کہ اس کا حساب کرو، اور اسی بد دعا کے نتیجے میں قاضی اور بادشاہ کے بیچ میں ٹھن گئی۔ اب جو کام قاضی کے کرنے کا ہے، وہ قاضی ہمی پر ڈال رہا ہے، تو بولو کب تک ہم ملنگ بنے گھومتے رہیں گے؟ “ باوجود بسیار کاوش کے، میں ان صوفی صاحب کی مبہم پیش گوئی سے کوئی مطلب نہ اخذ کرسکا۔ اللہ کی برگزیدہ ہستیوں کی باتیں، اللہ ہی جانے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran