علمائے کرام عورتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ (1)


علمائے کرام کے بارے میں عوام میں یہ توقع پائی جاتی ہے کہ وہ دینی اعتبار سے تقویٰ کے علاوہ روزمرہ اخلاق میں بھی بلند مقام رکھتے ہیں۔ بچوں پر شفقت کرتے ہپں، عورتوں کا احترام کرتے ہیں، نوجوانوں کے مسائل کو سمجھ کر ان کی رہنمائی کرتے ہیں، ہم عصر علوم پر گہری نظر رکھتے ہیں تاکہ روزمرہ مسائل کے بارے میں باخبر آرا قائم کر سکیں۔ ان سے دیانت داری کی توقع کی جاتی ہے۔ ماضی کے بزرگوں کے اتباع میں حریت فکر کی توقع بھی علمائے کرام سے کی جاتی ہے۔ یہ سمجھنا تو مناسب نہیں کہ علما کے لئے غربت اور عسرت کوئی لازم امر ہے تاہم حب مال و متاع کی امید علما سے نہیں کی جاتی۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ علما قانون کے پابند ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں معاشرے میں رہنما کا درجہ دیا جاتا ہے۔ عقیدے کے اختلاف کے باوجود رواداری اور امن پسندی کو ایک عالم کی شان سمجھا جاتا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ ملک کے کونے کونے میں ایسے ہزارہا علمائے کرانم موجود ہیں جو ان خوبیوں سے متصف ہیں۔ پشاور کے مولانا حسن جان شہید کو کون نہیں جانتا۔ لاہور کےعالم دین مولانا سرفرازنعیمی نے دیانت اور حق گوئی کی اعلیٰ  مثال پیش کرتے ہوئے شہادت پائی۔ ابھی حال ہی میں چترال کے ایک عالم دین نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایک فاترالعقل انسان کی جان بچائی۔

یہ سب روشن مثالیں ہیں۔ تاہم ماننا چاہیے کہ ہمارے ملک میں ایسے دینی پیشواؤں کی بھی کمی نہیں جو اپنے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرے میں انتشار اور اشتعال پھیلاتے ہیں۔ اپنے ذاتی رسوخ کو بڑھانے کے لئے معاشرے میں افتراق پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان کے ایک غیر سرکاری ادارے مشعل بکس نے کچھ عرصہ قبل ایک تحقیق کی کہ علمائے جمعہ کے خطبات میں عورتوں اور دوسرے معاشرتی طبقآت کے بارے میں کیا لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں چیدہ چیدہ علما کے خیالات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔ ریکارڈ درست رکھنے کے لئے متعلقہ عالم دین کا نام اور ان کی مسجد کی نشاندہی بھی کی جا رہی ہیں۔ ان خطبات کی آڈیو رئیکارڈنگ موجود ہے۔ اس مشق کا مقصد کسی کو اشتعال دلانا نہیں اور نہ ہی علمائے کرام کے بارے میں نفرت پیدا کرنا ہے بلکہ اس کا مقصد ایسا سماجی شعور پیدا کرنا ہے جس میں عوام علمائے دین سے زیادہ ذمہ داری اور بہتر اخلاقی معیارات کا تقاضا کر سکیں۔  (مدیر)

٭٭٭  ٭٭٭

مولانا محمد صادق قاسمی

جامعہ مسجد جنازہ گاہ نور شاہ، بہاولپور

ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ آدمی اپنی بیوی کی غلامی کرے گا اور ماں کے سر پہ جوتے مارے گا۔ دوست سے دوستی نہیں نبھائے گا اور اپنے باپ کی داڑھی پکڑ کر جوتے مارے گا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی اولاد جہنم میں جائے گی۔

آج کل بہنیں اپنے بھائیوں کو سہرے یا ماہئیے سناتی ہیں، اللہ و اکبر، ناچتی اور جھومر ڈالتی ہیں، کپاس کے موسم میں ان کو سڑکوں پر چلتے ہوئے ٹرالوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں، اللہ معاف کرے، میں ایک سڑک پر جا رہا تھا کہ ایک بوڑھی عورت ٹرالی کے اوپر ناچ رہی تھی۔ خدا کی قسم دنیا سے شرم و حیا ختم ہو چکا ہے۔

شریف آدمی ہوٹل میں بیٹھ کر چائے بھی نہیں پی سکتا، اللہ معاف فرمائے کوئی ہوٹل ایسا نظر نہیں آتا جہاں آپ کو ملنگ، عورت اور کیسیٹیں دیکھنے کو نہ ملتی ہوں۔

٭٭٭ ٭٭٭

مولانا عبدالغفور حقانی

جامعہ عثمانیہ، شور کوٹ، کبیروالا روڈ، جھنگ

فرعون کے گھر میں جانماز بچھا ہوا ہے۔ اس نے خود دیکھا کہ اس کی بیوی سجدہ کر رہی ہے۔ آج عورتیں اللہ کا سجدہ نہیں کرتی ہیں، آج زیادہ تر گھر اور محلے بے نماز ہیں اسی لیے گھروں میں جھگڑے، نحوست اور پریشانیاں پائی جاتی ہیں۔ آج عورتیں تعویذوں کے پیچھے بھاگتی ہیں کہتی ہیں مولوی صاحب تعویز دے دو۔ ان کو معلوم نہیں کہ وہ نماز نہیں پڑھتیں اس لیے ان کے گھر کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ اللہ کی طرف سے بے برکتی آئی ہوئی ہے اگر نماز پابندی سے پڑھیں تو کسی تعویذ کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔

٭٭٭ ٭٭٭

مولانا عبدالحفیظ فیصل آبادی

جامعہ مسجد اہل حدیث، قصور

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت کا خاوند کسی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر جانے لگا تو اس عورت نے پوچھا کہ آپ کب تک واپس آئیں گے؟ خاوند نے کہا میرا جلد واپس آنے کا ارادہ نہیں ہے، ممکن ہے میں ڈیڑھ سال تک گھر سے باہر رہوں۔ عورت کہنے لگی کہ اگر آپ میرے متعلق کچھ کہنا چاہیں تو بتا دیں۔ خاوند نے کہا کہ تم نے میری عدم موجودگی میں گھر سے باہر قدم نہیں رکھنا ہے۔ عورت نے کہا میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گی۔ خاوند گھر سے چلا گیا۔ اس کے برعکس ہماری عورتیں کہتی ہیں کہ گھر والا گھر نہیں اور ہمیں کسی کا ڈر نہیں۔ اس زمانے اور آج کے زمانے میں یہ فرق ہے۔ کہتے ہیں یہ جہان میٹھا ہے اور آنے والا وقت کسی نے دیکھا نہیں ہے۔ گھر والا گھر میں نہیں ہے اور ہمیں کسی کا ڈر نہیں ہے کا یہی مطلب ہے۔

میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ کرنے کا حکم ہوتا تو کوئی صحابی نبی کو سجدہ نہ کرتا بلکہ بیوی اپنے خاوند کو سجدہ کرتی۔

٭٭٭ ٭٭٭

مولانا منور احمد

جامعہ مسجد مدنی، ساہیوال

گرمی کا موسم آ گیا اور مادر پدر آزادی کے حامل گھرانوں کو ایک اور موقع مل گیا ہے کہ وہ بے پردگی اور عریانی پھیلائیں۔ ایسے کپڑے پہنتی ہیں کہ بازوؤں کے مسل اور ہر چیز نظر آتی ہے۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایسی عورتیں ہوں گی جنہوں نے لباس تو پہنا ہوا ہو گا مگر عریاں ہوں گی۔ غیر مردوں کو اپنی طرف مائل کر رہی ہوں گی اور خود غیر مردوں کی طرف مائل ہونے والی ہوں گی۔ انہیں جنت کی ہوا بھی نہیں پہنچے گی۔ کہتے ہیں کہ یہ ترقی ہے۔

جو ننگے ہیں بازو اور برہنہ سینے

وارث ہیں سب بے غیرت کمینے

سینے کو تانے چلی جا رہی ہے

زمیں بار حیا سے تھرا رہی ہے

٭٭٭ ٭٭٭

مولانا عبدالوحید

جامع مسجد اہل سنت، گنڈا سنگھ والا، قصور

اگر ماں قرآن پڑھنے والی ہو تو بیٹا بھی قطب الدین پیدا ہوتا ہے۔ میری ماؤ، بہنو، اولاد کا تم پر حق یہ ہے کہ تم ان کو نمازی اور قرآن کا قاری بناؤ۔ جن عورتوں کے دودھ میں پاکیزگی ہوتی ہے ان کے بچے جب مصلوں پر آتے ہیں تو نمازی ہوتے ہیں اور جب میدان میں جاتے ہیں تو غازی ہوتے ہیں۔ اللہ اللہ، محمد بن قاسم نے بہت پیاری بات کی تھی۔ ایک عورت کا دوپٹہ جب اتارا گیا تو اس نے کہا تھا کاش آج کوئی ماں کی عزت والا جوان ہوتا۔

٭٭٭ ٭٭٭

مولانا سجاد الرحمن

جامعہ حنفیہ بورے والا، وہاڑی

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو عورتیں لباس پہننے کے باوجود ننگی گھومتی ہیں، یعنی اس قدر باریک اور تنگ لباس پہنتی ہیں کہ ان کے جسم کی نمائش ظاہر ہوتی ہے، یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عورت کا بازو کتنا موٹا اور کتنا چھوٹا ہے، پستان کیسے ہیں اور جسم کیسا ہے۔ ایسے لباس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عورت کی ٹانگیں کیسی ہیں، یعنی کتنی لمبی اور کتنی چھوٹی ہیں۔ آج کی عورت جسم کے ساتھ چپکنے اور لپٹنے والا لباس پہنتی ہے۔ اس لڑکی کا باپ بڑا دیوث اور بے غیرت ہے جو اس کے ایسے لباس کو برداشت کر لیتا ہے۔ ایسی عورتیں نخرے کرتی ہیں اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں۔ لوگ بھی ان کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ ان عورتوں کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ جس راستے پر عام لوگ چل رہے ہوں اس پر چلنے کے بجائے عورتوں کو ایک کنارے پر چلنا چاہئیے۔

آج کا دور اس کے بالکل برعکس ہے۔ آج مرد گھر میں بیٹھا ہے اور عورت مارکیٹوں اور بازاروں میں گھوم رہی ہے۔ آج مارکیٹ اور بازار میں عورت کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ مرد کو خود بچ کر نکلنا پڑتا ہے۔ آج کل دکانیں اور گلیاں عورتوں سے بھری ہوئی ہیں اور مرد خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

مثال کے لیے ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ کے واقعہ پر غور کریں جس کا ایمان لوٹنے کے لیے ایک عیسائی حکمران نے ایک خوب صورت عورت کو بناؤ سنگھار کروا کے اس کے پاس بھیجا۔ عیسائی حکمران نے حضرت عبداللہ کو گرفتار کر کے ایک کمرے میں بند کر دیا تھا۔ ان کے پاس شراب اور سور کا گوشت رکھ دیا تاکہ وہ کھا لیں، جب حضرت عبداللہ نے ان چیزوں کی طرف نہ دیکھا تو عیسائی بادشاہ نے ایک خوبصورت لڑکی ان کے کمرے میں بھیج دی۔ وہ کمرے میں داخل ہوئی تو حضرت عبداللہ نے آنکھیں بند کر لیں۔ کیوں کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے ایمان کو لوٹنے کی کوشش کی جائے لیکن تم اس کی حفاظت کرنا۔

وہ عورت بار بار اپنے کپڑے اتارتی اور ننگی ہو کر حضرت عبداللہ کے سامنے آ کر کہتی اے عبداللہ میں تمہارے لیے بن سنور کر آئی ہوں جب کہ تم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور میری طرف دیکھتے بھی نہیں ہو۔ حضرت عبداللہ جانتے تھے کہ آنکھ سے دیکھنے سے ہی گناہ کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ اگر آنکھ سے نہ دیکھا جائے تو تمام گناہوں سے بچا جا سکتا ہے۔ آنکھ سے دیکھنے ہی سے عشق اور خواہش پیدا ہوتی ہے۔ کسی کو دیکھنے کے بعد اس سے بات کرنے کو جی چاہتا ہے اور بات کرنے سے گناہ کا ارادہ کیا جاتا ہے۔

٭٭٭ ٭٭٭

مولانا محمد سعید

جامع مسجد اللہ والی، نیو ماڈل منگرال ٹاؤن، راولپنڈی

مرد نے اپنے بوجھ کو عورت پر ڈالنے کے لیے یورپ میں تحریک آزادی نسواں کا نعرہ لگایا تاکہ مرد کے کندھوں پر پڑے بوجھ کو صنف نازک کے نازک کندھوں پر ڈال دیا جائے۔ اسے بتایا گیا کہ تو قیدی اور غلام ہے۔ تیرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ تو مرد کی طرف دیکھتی ہے کہ اگر وہ تیری ہتھیلی پر کچھ لا کر رکھے گا تو تیرا نظام زندگی چلے گا۔ اسے بتایا گیا کہ تو ہمیشہ سے مرد کی محتاج ہے۔ تو باہر کیوں نہیں نکلتی۔ تجھے بھی قدرت نے دو ہاتھ، دو پاؤں، دو آنکھیں اور ایک زبان دی ہے۔ تو بھی کمائی کر کے خودمختار زندگی گزار سکتی ہے۔ تو ہر ضرورت کے لیے اپنے خاوند کی طرف دیکھتی ہے کہ وہ تمہیں چار پیسے دے گا تو تمہاری ضرورت پوری ہو گی۔ اسے بتایا گیا کہ اپنے بچوں کو روٹی پکا کر کھلانا تیرا کام نہیں، اس سے تیری صلاحیتیں ختم ہو گئی ہیں۔ یہ بہت زبردست نعرہ ہے۔ عورت اس نعرہ سے متاثر ہو گئی۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).