مہاوٹوں کی ایک رات


1932ء کے آخر میں نو افسانوں اور ایک ڈرامے کا 134 صفحات پر مشتمل مجموعہ “انگارے” منظر عام پر آیا۔ جس کے مرتب اور پبلشر سجاد ظہیر تھے۔ اس مجموعے میں پانچ افسانے سید سجاد ظہیر کے، ایک افسانہ اور ایک ڈرامہ رشید جہاں کا، دو افسانے احمد علی اور ایک محمود الظفر کا شامل تھا۔ انگارے کے منظر عام پر آتے ہی اردو کے زیادہ تر اخبارات و رسائل نے انگارے کے خلاف مضامین شائع کئے، ان افسانوں کو خلاف مذہب اور فحش قرار دیا اور کتاب کی ضبطی کا مطالبہ کیا۔ جب انگارے کی ضبطی کا مطالبہ روز بروز بڑھتا گیا تو 15 مارچ 1933 کے سرکاری گزٹ میں ایک اعلان کے ذریعے “انگارے” ضبط کر لیا گیا، اعلان میں کہا گیا تھا کہ “انگارے” زیر دفعہ 295 الف تعزیرات ہند اس بنا پر ضبط کر لیا گیا ہے کہ یہ کتاب ایک خاص فرقہ کے مذہبی جذبات اور عقائد کو مجروح کرتی ہے۔ آئندہ اس کتاب کا فروخت کرنا یا شائع کرنا جرم تصور کیا جائے گا۔
اس مجموعے میں احمد علی کے دو افسانے “بادل نہیں آتے” اور “مہاوٹوں کی ایک رات” شامل ہیں۔ تکنیک کے میدان میں احمد علی اضافے کا باعث بنے ہیں۔ بقول ممتاز شیرین:
“احمد علی نے آزاد خیال کو سرریلزم کے ذریعے پیش کیا یعنی خیال اپنی اصلی شکل میں، جب کہ وہ کسی عقلی یا جمالیاتی یا اخلاقی پابندی یا رکاوٹ کے بغیر انسانی دماغ میں اپنا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ چنانچہ سرریلزم کی اس تحریک سے، جو مغرب میں ۱۹۱۹ء میں شروع ہوئی تھی، اردو افسانے کے آغاز ہی میں احمد علی نے روشناس کرایا”
احمد علی نے نہ صرف افسانے کے ابتدائی برسوں میں ہی سریلسٹ انداز سے متعارف کروایا بلکہ آزاد تلازمہ خیال میں لارنس اور جوائس کی تدبیرکاری کے تحت اپنا اولین افسانہ “مہاوٹوں کی ایک رات” بھی تخلیق کیا۔ “مہاوٹوں کی ایک رات” مفلسی اور امارات و ریاست کا ایک ایسا کنٹراسٹ ہے جس میں ایک طرف مفلسی اور اس کے دردناک نتائج اور دوسری طرف زندگی کی عیاشیاں ہیں۔
افسانے کے ابتدائی حصے میں غربت اور محرومی کے حوالے سے خدا، تقدیر اور جنت کے مروجہ تصورات پر طنز کے تیر برسائے گئے ہیں۔
اس افسانے میں داخلی واردات اور خارجی وقوعات جس میں ایک مفلس عورت اپنے شکستہ مکان میں اپنے معصوم بچوں کے ساتھ موسلادھار بارش کا مقابلہ کر رہی ہے بچے خوف زدہ ہیں بچوں کو تسلیاں دیتے ہوئے بھی اس کے دل میں متضاد خیالات اٹھتے رہتے ہیں۔ وہ عورت لامذہب یا ترقی پسند نہیں لیکن اس کا ایمان متزلزل ہو رہا ہے ان تمام واقعات کو ملاکر فنی چابکدستی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس طرح جنت کا نقشہ (عالم خواب) بھی نہایت خوبی سے پیش کیا گیا ہے چونکہ خواب دیکھنے والی عورت کی چھت ٹپک رہی ہے اس لئے وہ جنت کی عمارت کے بارے میں پہلا سوال ہی یہ کرتی ہے کہ یہ ٹپکتی تو نہیں؟
الغرض اس افسانے کا اختتام تنہائی اور لایعنیت کا احساس لئے ختم ہو جاتا ہے اس کا معاشی اور معاشرتی تاثر فرد کی تنہائی میں ڈھل جاتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
“نہ تسلی نہ تشفی نہ دلاسا” تنہائی، تنہائی، رات اندھیری اور بھیانک رات، ارے لادو کوئی
جنگل مجھے ۔ ۔ ۔ ۔۔ جنگل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے ۔ ۔ ۔ ۔ بازار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا بازار ۔ ۔ ۔ ۔ موو ۔ ۔ ۔ ۔ اوجھ۔ ۔ ۔ رات”

٭٭٭ ٭٭٭

مہاوٹوں کی ایک رات

گڑ گڑ! گڑڑڑ! الہی خیر! معلوم ہوتا ہے کہ آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ کہیں چھت تو نہہں گر رہی۔ گڑڑڑڑ! اس کے ساتھ ہی ٹوٹے ہوئے کواڑوں کی جھریاں ایک تڑپتی ہوئی روشنی سے چمک اٹھیں۔ ہوا کے ایک تیز جھونکے نے ساری عمارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ سو سو سو درد! کیا سردی ہے! یخ جمی جاتی ہے۔ برف جمی جاتی ہے، کپکپی ہے کہ سارے جسم کو توڑے ڈالتی ہے۔
ایک چھوٹے سے مکان ۲۴x ۲۴ فٹ اور اس میں بھی آدھے سے زیادہ میں ایک تنگ دالان اور اس کے پیچھے ایک پتلا سا کمرہ، نیچا اور اندھیرا۔ کوئی فرش نہیں۔ کچھ پھٹے پرانے بورئیے اور ٹاٹ زمین پر بچھے ہیں جو گرد اور سیل سے چپ چپ کر رہے ہیں۔ کونوں میں بغچیوں اور گودڑ کا ایک ڈھیر ہے۔ ایک اکیلا کاٹھ کا ٹوٹا ہوا صندوق، اس پر بھی مٹی کے برتن جو سالہا سال کے استعمال سے کالے ہو گئے ہیں اور ٹوٹتے ٹوٹتے آدھے پونے رہ گئے ہیں۔ ان میں ایک تانبے کی پتیلی بھی ہے جس کے کنارے جھڑ چکے ہیں۔ برسوں سے قلعی تک نہیں ہوئی اور گھستے گھستے پیندا جواب دینے کے قریب ہے۔
چھت ہے کہ کڑیاں رہ گئیں ہیں اور اس پر بارش! یا اللہ کیا مہاوٹیں اب کے ایسی برسیں گی کہ گویا ان کو پھر برسنا ہی نہیں۔ اب تو روک دو۔ کہاں جاؤں، کیا کروں۔ اس سے تو موت ہی آ جائے! تو نے غریب ہی کیوں بنایا۔ یا اچھے دن ہی نہ دکھائے ہوتے یا یہ حالت ہے کہ لیٹنے کو جگہ نہیں۔ چھت چھلنی کی طرح ٹپکے جاتی ہے۔ بلی کے بچوں کی طرح سب کونے جھانک لیے لیکن چین کہاں۔ میرا تو خیر کچھ نہیں، بچے نگوڑ ماروں کی مصیبت ہے۔ نہ معلوم سو بھی کیسے گئے ہیں۔
سردی ہے کہ اف! بوٹی بوٹی کانپی جاتی ہے اور اس پر ایک لحاف اور چار جانیں! اے میرے اللہ ذرا تو رحم کر۔ یا وہ زمانہ تھا کہ محل تھے، نوکر تھے، گرش اور پلنگ تھے۔ آہ! وہ میرا کمرہ! ایک چھپر کھٹ سنہری پردوں سے زرق برق، مخمل کی چادریں اور سنبل کے تکیے۔ کیا نرم نرم توشک تھی کہ لیٹنے سے نیند آ جائے اور لحاف آہ! ریشمیں چھینٹ کا اور اس پر سچے پھٹے کی گوٹ۔ انائیں مامائیں کھڑی ہیں، بیوی سر دباؤں، بیوی پیر دباؤں؟ کوئی تیل ڈال رہی ہے کوئی ہاتھ مل رہی ہے۔ گدگدا گدگدا بسترا، اوپر سے یہ سب چونچلے، نیند ہے کہ کہکشانی کپڑے پہنے سامنے کھڑی ہے۔
سبز شیشوں پر نیلے، سرخ اور نارنجی عکس، بڑے بڑے ہشت پہل جواہرات کے سابوت ڈلے جگمگ جگمگ کر رہے ہیں۔ دستر خوان پر چاندی کی طشتریاں، ایک جھلملاہٹ، قورما، پلاؤ، بریانی، متنجن، باقر خانیاں، میٹھے ٹکڑے۔۔۔۔
ایک باغ درختوں سے گھرا ہوا جن کے کاہی پتوں پر تاروں کی چمک شبنم میں اور تارے چمکا رہی ہے۔ واہ واہ، کیا خوش نما پھل ہیں۔ آم منھ لال، کلیجہ بال۔ ماں کا بغدو بچہ، سیب کیسے خوبصورت ہیں۔ اندھیرے اندھیرے، درختوں میں سرخ اور گلابی اور پستئی لٹکے ہوئے ہیں۔ ڈالیوں سمیت جھکے ہوئے ہیں۔ ارے بیر تو دیکھو، کیسے موٹے موٹے اور عنابی ہیں، شیخپورے کے سے۔ ایک نہر، اندھیری رات میں چاندی کی چادر بچھی ہوئی ہے۔ شاید دودھ ہے، کہیں جنت تو نہیں؟ ایک کشتی بڑی آہستگی سے، بطخوں کی سی نزاکت سے بہتی ہوئی، جلدی آؤ، جلدی بیٹھ جاؤ، بہشت کی سیر کرائیں۔
کیا بیویاں ہیں، پاک صاف، بلور جیسی گوری۔ اجلے براق کپڑے، نزاکت ایسی جیسی ہوا کی۔ کشتی بہتے ہوئے چراغ کی طرح پانی پر چلی جا رہی ہے۔ دونوں طرف کھلے کھلے میدان جو ہری ہری دوب سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ بیچ بیچ میں پھولوں کے رنگین تختے اور پھلوں کے درخت دکھائی دیتے ہیں۔ جانور چہچہا رہے ہیں، شور مچا رہے ہیں۔ تو کیا یہ جنت ہے؟ کیا ہم جنت میں ہیں؟
ہاں بہشت، خدا کے نیک اور پیارے بندوں کی جگہ۔ کشتی کچھ چھوٹے چھوٹے سیپ کی طرح چمکدار اور گنبدوں کی طرح گول مکانوں کے سامنے سے گزرے۔ کیا خوب صورتی اور کیا چمک ہے۔ نگاہ تک نہیں ٹھہرتی، ٹپکتے تو نہ ہوں گے؟ کیا ان میں مجھ کو بھی جگہ ملے گی۔ خدا کے نیک اور سچے بندوں کے لیے ہیں۔ پاک بندوں کے لیے۔
پیٹ میں ایک کھرچن، کلیجہ میں ایک تناؤ، انتڑیاں بل کھا رہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوا کہ گود میں کسی نے کچھ رکھ دیا۔ یہ ایک موتی کی طرح سفید اور سیپ کی طرح بڑا پھل تھا۔ ڈنڈی میں دوہرے ہرے پتے بھی لگے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ابھی ابھی ڈال سے توڑا گیا ہو۔ آہا، کیا مزہ ہے! کاش کہ اور ہوتے۔ گود بھرے ہوئی تھی۔ کشتی دو پہاڑوں کے بیچ سے گزر رہی تھی۔ ایک موڑ تھا، تھوڑی دیر میں جب موڑ ختم ہوا تو یکایک دور کے ایک اونچے

Dr_Rashid_Jahan

پہاڑ سے بجلی سے زیادہ تیز روشنی کی لپٹیں آگ کی طرح اٹھتی ہوئی دکھائی دینے لگیں۔ آنکھیں چکا چوند ہو کر بند ہوں گئیں۔ اندھیرا گھپ تھا۔ ایک شور کی آواز گرج سے بھی زیادہ تیز آنے لگی، صور پھنک رہا تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ کشتی والی بیویاں ادھر ادھر دوڑ رہی تھیں۔ اتنے میں پھر ایک تیز روشنی ہوئی۔ سورج گر رہا تھا۔ یکایک قریب ہی سے ایک ایسی آواز آئی جیسے کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹ رہا ہو۔ ایک زلزلہ آ گیا۔ کشتی لوٹ گئی اور سب دریا کے اندر ڈوب رہے تھے۔
گڑڑڑڑ! ٹپ ٹپ کی آواز چاروں طرف سے آ رہی تھی۔ اماں! اماں! ابھی کانوں میں سنسناہٹ باقی تھی، دل گزوں اچھل رہا تھا، کیا ہے بیٹا؟ کیا ہے؟ ڈر لگ رہا ہے۔ یہ آواز کاہے کی تھی؟ کچھ نہیں بیٹا، گرج ہے۔ تینوں بچے چمٹے ہوئے ایک کونے میں سکڑے پڑے تھے۔ ٹپکا ان کے لحاف تک پہنچ چکا تھا۔ مریم کا کونا خوب بھیگ گیا تھا، بے چاری نے اٹھ کر بچوں کو اور پرے سرکایا۔ اب وہ بالکل دیوار کے برابر پہنچ گئے تھے۔
یا اللہ اگر یہ ٹپکا اسی طرح بڑھتا رہا تو اب کے بھیگنا ہی پڑے گا۔ اماں! سردی لگ رہی ہے۔ صدیقہ اس کے برابر لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے اسی کو چمٹا کے لٹا دیا۔ رٌوئی نہیں تو دوئی ہی سہی۔ ادھر دونوں لڑکے چمٹے پڑے تھے۔ لپٹے ہوئے جیسے سانپ درخت سے لپٹ جاتا ہے۔
یا اللہ رحم کر، خدا غریبوں کے ساتھ ہوتا ہے، ان کی مدد کرتا ہے، ان کی آہ سن لیتا ہے، کیا میں غریب بھی نہیں۔ خدا سنتا کیوں نہیں؟ ۔۔۔۔ کوئی امیر کیوں؟ کوئی غریب کیوں؟ اس کی حکمت ہے اچھی حکمت ہے۔ کوئی جاڑے میں اینٹھیں، لیٹنے کو پلنگ تک نہ ہوں۔ اوڑھنے کو کپڑے تک نہ ہوں۔ سردی کھائیں۔ بارشیں سہیں۔ فاقے کریں اور موت بھی نہ آئے۔ کوئی ہیں کہ لاکھوں والے ہیں، ہر قسم کا سامان ہے، کسی بات کی تکلیف نہیں۔ اگر وہ تھوڑا سا ہی ہم کو دے دیں تو ان کا کیا جائے گا۔ غریبوں کی جانیں پل جائیں گی لیکن ان کو کیا پڑی؟ کس کی بکری اور کون ڈالے گھاس؟ ہم کو بنایا کس نے؟ اللہ نے، تو پھر ہماری پرواہ کیوں نہیں کرتا، کس لیے بنایا؟ رنج سہنے اور مصیبت اٹھانے کے لیے۔ ارے کیا انصاف ہے؟ وہ کیوں امیر ہیں؟ ہم کیوں نہیں؟ عاقبت میں اس کا بدلہ ملے گا ۔۔۔۔ ضرورت تو اب ہے۔ بخار تو اس وقت چڑھا ہوا ہو اور دوا دس برس بعد کی ملے گی؟ باز آئے ایسی عاقبت سے، جب کی جب بھگت لیتے، اب تو کچھ ہو ۔۔۔۔ اور مذہب ہے کہ وہ بھی یہ ہی سکھاتا ہے۔ یہ ہی پڑھاتا ہے، پھر کہتے ہیں کہ علم کا خزانہ ہے اور پھر افلاس کا بہانہ ہے۔ بے وقوفوں کی عقل ہے، آگے بڑھتے ہوؤں، اوپر چڑھتے ہوؤں کو پیچھے کھینچتا ہے۔ ترقی کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے، غریب رہو۔ غربت میں ہی خدا ملتا ہے، ہم نے تو پایا نہیں، امیروں سے کیوں نہیں روپیہ دلوا دیتا؟ دولت کا کیا ہو گا، صرف اتنا چاہئیے کہ اوقات بسر ہو جائے۔ آخر امیر ہی دولت کا کیا کرتے ہیں؟ تہہ خانوں میں پڑی زنگ کھاتی ہے۔ کسی کا خرچ بھی ٹھیک نہیں، جو ہے بے تکے پن سے اٹھتا ہے، لیٹتا ہے، سرکار ہی کچھ کیوں نہیں کرتی اور انہیں تو سب کو برابر روپیہ دلا دے۔ اور اگر اتنا نہیں تو آدھا ہی صرف ہم کو مل جائے لیکن سرکار کی جوتی کو کیا غرض پڑی جو اپنی جان ہلکان کریں۔ اس کے خزانے تو پر ہیں۔ بیٹھے بٹھائے روپیہ مل جاتا ہے اس کو کیا۔ موت تو ہماری ہے، جب پڑے تو جانے۔ اونٹ جب پہاڑ کے نیچے آتا ہے تو بلبلاتا ہے۔ ابھی تو ۔۔۔۔۔

اماں! ہاں بیٹا کیا ہے؟ اماں بھوک لگی ہے بھوک، مریم کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی، یا الہی کیا کروں؟ بے چارے بچے! میاں یہ بھی کوئی بھوک کا وقت ہے، بھوک نہ ہوئی دیوانی ہو گئی، سو جاؤ، صبح ہوتے ہی کھانا۔ نہیں اماں میں تو ابھی کھاؤں گا۔ بڑے زور کی بھوک لگی ہے۔ نہیں بیٹا یہ کوئی وقت نہیں ہے لیٹ جاؤ۔ وہ دیکھو کڑک ہوئی۔ بچہ بے چارہ کڑک کی آواز سنتے ہی سہم کر لیٹ گیا۔ کہاں سے لاؤں؟ کیا کروں؟ بارش نے تو دن بھر نکلنے بھی نہ دیا کہ کسی کے ہاں جاتی اور تھوڑا بہت جو کچھ مل جاتا لا کر سیتی۔ بے چاری فیاض بیگم کے ہاں بھی جانا نہ ہوا۔ وہ ہی بے چارے بچا کھچا جو کچھ ہوتا ہے برابر دے دیتی ہیں۔ اب جو اگر کل بھی کہیں سے کام نہ ملا تو کیا ہو گا؟ آخر کہاں تک مانگ مانگ کے لاؤں، دیتے دیتے بھی تو لوگ اکتا جاتے ہوں گے۔
اماں بھوک لگی ہے۔ دیکھو تو پیٹ خالی پڑا ہے۔ کل دن سے نہیں کھایا اور نیند بالکل نہیں آتی، کلیجہ منہ کو آ رہا ہے۔
بے چاری آخر کو اٹھی اور دیوے کی مدھم روشنی میں ٹٹولتی ہوئی صندوق کی طرف گئی کہ اگر کچھ مل جائے تو بچے کو دے۔ آخر تو صرف پانچ برس کی جان ہے۔ کاش! میں نے ان بچوں کو جنا ہی نہ ہوتا۔ میں تو مر گر کے کاٹ ہی لیتی لیکن ان کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی۔ ایک سوکھی ہوئی روٹی ایک ہنڈیا میں پڑی پا گئی اس کو توڑ کر پانی میں بھگویا اور بچے کے سامنے لا رکھی۔ پیٹ بڑی بری بلا ہے۔ بے چارہ کتے کی طرح چمٹ گیا۔ تھوڑی کھانے کے بعد بولا، اماں ذرا سا گڑ ہو تو دے دو۔ مریم پھر کھڑی ہو گئی کہ شاید گڑ کی ڈلی بھی مل جائے۔ اتفاق سے ایک چھوٹی سی ڈلی پا گئی۔ بچے نے جو ہو سکا کھایا۔ دو چار نوالے جو بچے تھے مریم اپنے آپ کو ضبط نہ کر سکی اور تھوڑا تھوڑا کر کے کھا گئی۔۔۔۔
کڑک اور چمک رک چکی تھی۔ بارش بھی کم ہو گئی تھی۔ پھر صدیقہ سے چمٹ کر لیٹ گئی اور اکیلی تھی۔
آہ، کاش کہ وہ ہوتے، آہ، وہ ہوتے، وہ وہ وہ، رات کو آئے کچھ نہ کچھ لیے چلے آتے ہیں۔ کیا لائے ہو؟ حلوہ سوہن ہے۔ وہ ہی نگوڑا پپڑی کا ہو گا تم جانتے ہو کہ مجھے حبشی پسند ہے۔ لو! پھر چیخنے لگیں، دیکھا تو ہوتا۔ آہ، وہ جھگڑے اور وہ ملاپ، ساون اور بھادوں کے ملاپ، کیا دن تھے، اب تو ایک خواب ہیں۔ پھر چاندنی راتوں میں پھول والوں کی سیر، اے کاش وہ ہوتے، وہ ٹانگیں ایک سرسبز درخت، گوشت اور ہڈی اور گودے کا۔ اس کا رس خون سے زیادہ گرم اور اس کی کھال گوشت سے زیادہ نرم۔ ایک تنا سبک اور مضبوط اور دو ڈالیں اور ایک تنا، ایک دوسرے میں پیوند۔ ایک دوسرے سے چمٹی ہوئی، ایک دوسرے میں ایک دوسرے کی روح، جڑی ہوئی بل کھائی ہوئی، ایک دوسرے کی جان اور ایک ایک دوسرے میں ایک تیسری روح کی امید، ایک پوری زندگی کا خزانہ، ایک لمحہ کا سرمایہ، پرنیستی میں ہستی کی طاقت۔ آہ! وہ ٹانگیں، دو ناگ بل کھائے ہوئے، اوس سے بھیگی ہوئی گھاس پر مست پڑے ہیں۔ ایک سوئی کے ناکے میں تاگا اور دو انگلیاں، تیز تیز چلتی ہوئی، سپاٹے بھرتی ہوئی، نرم نرم روئیں دار مخمل پر گلکاریاں کر رہی ہیں۔ ایک مکڑی اپنی جگہ قائم جالا بن رہی ہے۔ اوپر نیچے ہو رہی ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ مکھی جال میں پھنس چکی ہے اور لعاب ہے کہ تار بنا جاتا ہے۔ جال بنا جاتا ہے۔ ایک ڈول کنوئیں کی گہرائی میں لٹکا ہوا، تہہ تک پہنچا ہوا۔ اس کی ملائم ریت کی گرمی محسوس کر رہا ہے۔ پانی کی سطح پر چھوٹے چھوٹے دائرے جو بڑھتے بڑھتے سارے میں پھیل گئے، دیواروں سے ٹکرانے لگے، باہر جانے لگے، اندر واپس آنے لگے، ایک سنسنی اور حرارت سارے میں پھیلا رہے ہیں۔ دو جڑواں درخت، ایک پیپل اور ایک آم۔
ایک ہی جڑ میں اگے ہوئے، ایک ہی تنے سے پیدا، ایک ہی زندگی کے ہمراز تھے کہ اگ رہے تھے۔ ایک دوسرے کا سہارا، ایک دوسرے کی تسلی، ایک ہی ہوا میں سانس لیتے۔ ایک ہی سوت کے پانی سے جیتے تھے۔ آہ! وہ جسم۔ اور اب تو پیپل کو بجلی نے جلا ڈالا۔ جڑ سے مسل ڈالا۔ مگر آم ہے کہ قسمت کا مارا اب تک کھڑا ہے۔ کاش کہ اس پر بھی بجلی گری ہوتی۔ لنجا اکیلا مرجھایا ہوا، ابھی تک ٹھوکریں کھانے کو زندہ ہے۔ اگر وہ ہوتے ۔۔۔۔۔
لحاف میں ایک حرکت، صدیقہ نے ایک کروٹ لی۔
آہ زمانہ کسی کے بہلاوے میں نہیں آتا۔ کسی کے پھسلاوے میں نہیں آتا۔ اور میں ایک اکیلی ہوں۔ آہ! میں اکیلی ہوں۔ اس سے تو زندگی کا لطف نہ ہی دیکھا ہوتا۔ جو آج یہ تنہائی محسوس نہ ہوتی۔ میرے دل میں کوئی جگہ خالی نہ ہوتی۔ محبت کی جگہ۔ امید بھی کیا جھونٹے جھلاتی ہے۔ کبھی پاس آتی ہے کبھی دور جاتی ہے۔ لیکن امید کاہے کی؟ اب تو ایک مایوسی ہے کہ سارے میں پھیلی ہوئی ہے۔ بادلوں کی طرح امڈی ہوئی ہے۔ وہ سوت کی رسی کا جھولا، چار ہم جولیاں، ٹپھڑے کے ایک ایک کنارے دو دو۔ اور پینگ ہیں کہ درخت کو ہلائے ڈالتے ہیں۔ گھنگور گھٹاؤں میں گھسے جاتے ہیں۔
جھولا کن نے ڈالو رے اموریاں، واہ! انوری اور کشور، بس اتنے ہی پینگ لے سکتے ہو؟ دیکھو میں اور کبری کتنا بڑھاتے ہیں۔ چکر نہ آ جائیں جب ہی کہنا۔ پھر ایک ہنسی کا غل، اور پھر ایک قہقہوں کا شور۔۔۔۔۔ آہ!
اب تو زندگی ایک ہوا ہے۔ باغ ارم اور حوروں کی خوش فعلیاں، پھولوں کے ہار اور اوس کا جھومر، نہ وہ بیر کی ڈالی! کہاں میرا آشیانہ، پھر ایک تپتی ہوئی چٹان، بنجر اور سخت اور اس کے پہلو سے زندگی لیکن پھر ایک نئی ہستی، پھر ایک نئی آن، من و سلوی کے مزے، دودھ کی نہروں میں نہانا اور ان میں کھیلنا۔ پھر دن عید، رات شبرات، لیکن آہ! زمانے کی ایک کروٹ۔ ابلیس اور گیہوں اور نیستی۔
تنہائی تنہائی ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ کاش کہ وہ ہوتے۔ ارے آدم، نہ پھر اذیت، مصیبت، بلائیں۔ پھر وہی خوشی اور خرمی، ایک قیامت بپا ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ اسرافیل کا شور، دجال ہے کہ سب کو پھسلا رہا ہے۔ میں تو اسی کے پاس جاؤں گی۔ امید تو ہے۔ آہ یہ تنہائی۔ امید تو ہے۔ آہ! کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا نہیں، نہ تسلی نہ تشفی نہ دلاسا۔ تنہائی تنہائی، رات اندھیری اور بھیانک رات، ارے لا دو کوئی جنگل مجھے۔ جنگل ۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔۔ بازار ۔۔۔۔ با ۔۔۔۔۔ زار ۔۔۔موڈ ۔۔۔۔ اوجھ ۔۔۔۔۔رات

پروفیسر احمد علی
Latest posts by پروفیسر احمد علی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).