سیاسی صورتحال اور دانشمندانہ فیصلوں کی ضرورت!


منظرنامہ تبدیل ہے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد سے لے کر مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات تک کے سفر میں ’اہل ہزارہ‘ نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا۔ ناقابل تردید حقیقت یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے نسل در نسل منتقل ہونے والی ’حب الوطنی‘ کا ناجائز فائدہ اُٹھانے والوں کے چہروں سے نقاب اُلٹا‘ اور ہزارہ سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی کے ساتھ ’سیاسی تبدیلی‘ کے پہلے مرحلے کو خوش اسلوبی سے طے کیا۔ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے موقع پر ’این اے سترہ‘ ایبٹ آباد ون‘ کی نشست بطور خاص مرکز نگاہ تھی‘ جہاں سے تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی کے جملہ محرکات میں نامزد اُمیدوار ’ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون‘ کی بلا امتیاز سماجی خدمات‘ ہزارہ کے حقوق کے لئے ایک دہائی پر محیط سیاسی جدوجہد اُور جدون خاندان کا ’اثرورسوخ‘ بھی شامل تھا‘ جس کی بدولت مسلم لیگ (نواز) کے 69 ہزار 568 ووٹوں کے مقابلے ڈاکٹر اظہر نے 96 ہزار 185 ووٹ حاصل کرکے ایک ایسی تاریخی کامیابی حاصل کی‘ جس کی پورے ہزارہ ڈویژن میں مثال نہیں تھی اور یہ فتح صرف انتخابی کامیابی کی حد تک ہی محدود نہ سمجھی جائے بلکہ اُس وقت مسلم لیگ (نواز) کی ہزارہ سیاست سے پاؤں اکھاڑ دیے گئے تھے۔ اے کاش کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت چار سالہ دور میں ’این اے سترہ‘ پر حاصل انتخابی کامیابی کی اہمیت کا ادراک کر سکتی اور اِس نشست سے وابستہ صوبائی اسمبلی کے چار حلقوں پر اگر مقامی کارکنوں کو خاطرخواہ اہمیت دیتی‘ تنظیم سازی اور ترقیاتی حکمت عملی میں ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے تحریک کے ’سیاسی مستقبل‘ کو مدنظر رکھا جاتا تو آج صورتحال زیادہ موافق ہوتی! جون دوہزار چودہ میں ہوئے صوبائی اسمبلی کی نشست ’پی کے پینتالیس‘ کے ضمنی انتخابی مرحلے میں اگر کسی مقامی اُمیدوار کو تحریک نامزد کرتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ مسلم لیگ (نواز) کو آٹھ یونین کونسلوں پر مشتمل سرکل بکوٹ کے اِس اہم حلقے پھر سے پاؤں جمانے کا موقع مل سکتا!

مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد ایبٹ آباد سے منتخب ہونے والے مشتاق احمد غنی (پی کے چوالیس)‘ قلندر خان لودھی (پی کے چھیالیس)‘ سردار ادریس (پی کے اڑتالیس) اُور ڈاکٹر اظہر جدون (این اے سترہ) نے نہایت ہی رازداری سے ایک ایسی حکمت عملی اختیار کی‘ جس سے ’تحریک انصاف‘ کی مخالفت کے آگے بند باندھنے میں کامیابی حاصل ہوئی اور اِسی ’’حکمت عملی کا ثمر‘‘ تھا کہ مئی دوہزار پندرہ میں ہوئے یہاں سے ’بلدیاتی انتخابات‘ کے نتائج تحریک انصاف کے حق میں رہے لیکن واضح برتری کے باوجود اگر تحریک انصاف تاحال اپنی ضلعی حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تو اِس کے درپردہ سازشوں میں ’سیاسی مخالفت برائے مخالفت‘ کے سوأ کوئی دوسرا محرک کارفرما نہیں۔ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح ’ایبٹ آباد‘ کو بھی سزا دی گئی کہ اِس نے مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات اور بعدازاں مئی دوہزار پندرہ کے بلدیاتی انتخابات میں ’تحریک انصاف‘ کو ووٹ کیوں دیا!

تحریک انصاف کے خلاف ضلع ایبٹ آباد میں سازشوں کی کمی نہیں اور اِس بات کا کماحقہ ادراک مرکزی و صوبائی قیادت کو کرنا ہوگا کہ اگر اُنہوں نے آئندہ عام انتخابات میں ایبٹ آباد کے کسی بھی حلقے سے غیرمقامی اُمیدوار نامزد کیے تو اُنہیں انتخابی معرکے میں شکست ہوگی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے منسوب یہ بیان تحریک انصاف کے کارکنوں میں تشویش کا باعث بنا ہے کہ وہ بذات خود ’این اے سترہ‘ کے لئے اُمیدوار ہوں گے! ماضی میں ایسے ہی یک طرفہ اور غلط فیصلوں کی وجہ سے نہ صرف ہزارہ بلکہ دیگر اضلاع میں تحریک انصاف کو شکست ہوئی جیسا کہ ’این اے ون‘ اور ’پی کے پینتالیس‘ کی مثالیں (حاصل نتائج) ہمارے سامنے ہیں! تحریک انصاف کی مخالف سیاسی قوتیں پہلے سے زیادہ متحد ہیں اور بالخصوص جوں جوں ’پانامہ کیس‘ اپنے منطقی انجام کے قریب پہنچ رہا ہے‘ تحریک مخالف ’اِنتخابی اتحاد‘ تیاری کے مراحل سے گزر رہے ہیں! سیاسی بصیرت‘ دانشمندی اور موجودہ نازک گھڑی پھونک پھونک کر قدم رکھنے اور خوب تول کر بولنے کی ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی و صوبائی قیادت آئندہ عام انتخابات سے متعلق قبل ازوقت بیانات نہ دے کیونکہ بیانات سے مخالفین کو منصوبہ بندی اور پیش بندی کرنے کا موقع ملتا ہے جبکہ فوری بیانات داغنے سے مقامی کارکنوں اور قیادت پر بھی دباؤ بڑھ جاتا ہے‘ جنہیں تحریک کے قائد سے منسوب بیان کا سیاق و سباق معلوم نہیں ہوتا۔ دوئم انتخابی حکمت عملی پر مشاورتکیے بناء کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کیا جائے‘ جس سے بعدازاں رجوع کرنا پڑے۔ سوئم کسی بھی سیاسی جماعت کا سب سے بڑا اثاثہ اُس کے کارکن ہوتے ہیں‘ تحریک انصاف کی تنظیم سازی مکمل کرنا اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ خواتین نوجوانوں اُور رضاکاروں کی منظم و فعال تنظیمیں ہی آئندہ عام انتخابات میں کارآمد و کارگر ثابت ہو سکتی ہیں۔ چوتھی ضرورت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا ضلع ایبٹ آباد کی سطح پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور نمائندہ اداروں (پریس کلبس اور یونین) کے درمیان دھڑے بندیاں ختم کرنے میں کردار ادا کرے‘ جس کا فائدہ تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین اُٹھا رہے ہیں اور بالخصوص اخبارات کو ’منفی پراپگنڈے‘ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت کے پاس مالی وسائل بھی ہیں اور ایسے آئینی اختیارات بھی جن کے ذریعے ’پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا‘ کی پیشہ ورانہ اِستعداد میں اضافہ اور وقتی مفادات پر مبنی سوچ کی اصلاح ممکن ہے۔ پریس کلبوں اور یونین سے غیرمتعلقہ افراد کا اخراج صحافت کی اہمیت اور شعور اُجاگر کرنے سے باآسانی کیا جاسکتا ہے۔ افراد کی بجائے اگر اداروں کو مضبوط کیا جائے تو یہ نہ صرف تحریک انصاف بلکہ ملک میں جمہوریت کے لئے نیک شگون ہوگا کیونکہ ’’جرائم‘ سیاست اور صحافت‘‘ کے درمیان گٹھ جوڑ آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کے لئے لاعلاج ’دردسر‘ ہوگا‘ لیکن فی الوقت اِس مرض کی علامات کا احساس نہیں کیا جا رہا۔ سوشل میڈیا پر انحصار کرنے والی ’تحریک انصاف‘ دیگر ہم عصروں سے پہل کرتے ہوئے جماعتی سرگرمیوں پر مبنی اخبار اور ٹیلی ویژن چینل بھی متعارف کرا سکتی ہے جس سے غیرمصدقہ بیانات اور اِن کی آڑ میں سازشیں کرنے والوں کا مقابلہ اور توڑ کیا جاسکتا ہے۔ وقت ہے کہ انتخابات کی بجائے سیاست میں سرمایہ کاری کی جائے۔

ایبٹ آباد کے مقامی سیاسی حالات‘ خاندانوں کے اثرورسوخ اور تحریک انصاف کے موجودہ منتخب نمائندوں (مشتاق غنی‘ قلندر لودھی‘ سردار ادریس اُور ڈاکٹر اظہر) کی دامے درہمے سخنے کوششوں کو معمولی نہ سمجھا جائے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے پاس ’غلطی کی گنجائش‘ نہیں رہی اور اگر ماضی کی طرح ’جذباتی اور مزید غلط فیصلے‘کیے گئے تو تحریک انصاف کم سے کم ایبٹ آباد کی سطح پر آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کا ’نادر موقع‘ ہمیشہ کے گنوا دے گی۔

(مضمون نگار سیاسی و سماجی اور صحت‘ تعلیم‘ ماحول اور سیاحت کے موضوعات پر لکھتے ہیں‘ ان کا ٹوئٹر ہینڈلر @peshavar ہے۔ )

شبیر حسین امام

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شبیر حسین امام

شبیر حسین امام کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے اور وہ اپنے علاقے کے مسائل کے بارے میں لکھنا پسند کرتے ہیں

shabbir-hussain-imam has 3 posts and counting.See all posts by shabbir-hussain-imam