جے آئی ٹی کی رپورٹ ناقابلِ تردید حد تک پکی ہے اور بچنا ناممکن


پانامہ جے آئی ٹی رپورٹ کے حوالے سے اگر کسی کو یہ شبہ ہے کہ اس کے مندرجات کسی بھی فورم پر بآسانی جھٹلائے جاسکتے ہیں تو اس نے شاید ابھی تک جے آئی ٹی رپورٹ نہیں پڑھی

جے آئی ٹی رپورٹ ایک اعلیٰ معیار کی تحقیقاتی رپورٹ ہے جسے کسی بھی فورم پر چیلنج کرنا ممکن نہیں، یہ غیر معمولی تحقیقاتی کام ہے اور بطور صحافی میں سمجھتا ہوں کہ کم ازکم سیکھنے کے لیے صحافت کے نوواردوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے

اگر رپورٹ کے مندرجات کو جھٹلانے کی کوشش کی گئی تو شریف فیملی کے جے آئی ٹی کے روبرو ویڈیو بیانات ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق میاں نواز شریف ڈھائی گھنٹوں تک اپنے خالو میاں حسین کو پہچاننے سے انکار کرتے رہے

حسین نواز نے جے آئی ٹی میں گلف اسٹیل ملز کے دستاویزات جمع کرائے جن پر شہباز شریف کے دستخط تھے، شہباز شریف گواہی دینے آئے تو اپنے دستخط کو پہچاننے سے انکار کردیا

لندن فلیٹس کے حوالے سے حسین نواز نے کہا کہ 1994 تک ان کے پاس صرف ایک فلیٹ تھا مگر حسن نواز کے مطابق 1994 تک ان کے پاس تین فلیٹ تھے

میاں نوازشریف نے تو سرے سے ہی فلیٹوں کے متعلق کچھ جاننے سے انکار کردیا

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق کیپٹن صفدر نے کہا کہ لندن فلیٹس کے بارے میں 2007 میں انہیں پہلی بار پتہ چلا جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق 2006 کی ٹرسٹ ڈیڈ میں ان کا نام بطور گواہ موجود ہے

ان سارے بیانات کی ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے، کیلبری فونٹ کا معاملہ اٹھا کر شریف خاندان نہیں بچ سکتا، اس لیے اب اس سے آگے بڑھ کر قوم، اپوزیشن اور شریف خاندان کو سوچنے کی ضرورت ہے

پہلے یہ کہ شریف خاندان کو کیا سوچنا چاہیے

نوازشریف استعفیٰ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، اگر وہ استعفیٰ دیتے ہیں تو وہ دراصل جے آئی ٹی رپورٹ کے مندرجات کو تسلیم کرلیں گے اور ان کے حریف عمران خان نہ صرف ان کے متبادل بن جائیں گے بلکہ شریف خاندان کی سیاست کے خاتمے کا غالب امکان پیدا ہوجائے گا

نوازشریف کے لیے یہ بہت اچھا ہوگا کہ عدالت انہیں نا اہل قرار دیدے، اس سے براہ راست ان کے حریفوں کو فائدہ نہیں ہوگا اور یہ عوام میں سیاسی شہید بن جائیں گے

شریف خاندان کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے وہ پانامہ جے آئی ٹی کو اپنے اور جمہوری حکومت کے خلاف سازش باور کرائیں اور ایسا کرنے میں وہ اب تک کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں

اپوزیشن کے لیے ضروری ہے کہ وہ وزیراعظم پر اتنا دباؤ ڈالے کہ وہ عدالت کی جانب سے نا اہل کرنے سے پہلے خود مستعفیٰ ہوجائیں، یہ وقت تحریک انصاف کے لیے بہت نازک ہے، اگر پی ٹی آئی نے اپنے کارڈز صحیح کھیلے تو وہ اگلے 40 برسوں تک پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی ہوگی اور اگر مسلم لیگ نون پانامہ کے معاملے کو سازش باور کرانے میں کامیاب ہوگئی تو پی ٹی آئی پاکستان تحریک استقلال، پاسبان اور جماعت اسلامی کی صفوں کے درمیان اپنی جگہ بنالے

مسلم لیگ نون کے فصلی بٹیرے اس وقت اڑان بھرنے کے لیے تیار ہیں اور یہ وقت پیپلزپارٹی کے لیے بہت اچھا ہے، انہوں نے اس سارے تنازع سے خود کو خوب صورتی کے ساتھ دور رکھا اور اب یہ مسلم لیگ نون کے الیکٹیبلز کا سودا کرکے اگلے عام انتخابات میں اچھے نتائج دے سکتے ہیں

قوم کے مختلف طبقات ہیں، سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا طبقہ تو وہی سوچ رہا ہے جو اس طبقے کی حمایت سے لطف اندوز ہونے والی سیاسی جماعت کی فکر ہے مگر عام ووٹرز کے لیے یہ فیصلہ ضروری ہے کہ وہ کسی بھی مسلط کردہ بیانئے سے خود کو دور رکھے

ایسا نہیں ہے کہ شریف خاندان دودھ کا دھلا ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے خلاف باقاعدہ مہم جوئی نہ کی جارہی ہو اور یہ ممکنہ باقاعدہ مہم جوئی کرنے والے شاید عوام کے اجتماعی مفادات کے خلاف رہے ہیں

پاکستان کا عام ووٹرز امریکی عوام کی طرح سخت فیصلہ کرسکتا ہے کہ جب کارپوریٹ میڈیا اور مسلط کردہ بیانئے کو مسترد کرتے ہوئے امریکیوں نے احمق دکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا کیونکہ وہ ہزار خامیوں کے باوجود کم ازکم بالا ہی بالا فیصلے کرنے والا تو نہیں ہے

پاکستان کے عام ووٹرز برطانوی عوام کی طرح ایک لہر میں بہہ کر یورپی یونین میں شمولیت کے خلاف بھی ووٹ دے سکتے ہیں، یہ ان کا انتخاب ہے، عوام کے انتخاب اور اختیار کو دنیا میں کوئی مائی کا لعل چیلنج نہیں کرسکتا، لڑائی کا فاتح کون ہے، عام آدمی فیصلہ کرے گا

اور عین ممکن ہے کہ عام آدمی کے ممکنہ فیصلے سے باخبر اشرافیہ مردم شماری کے بعد حلقہ بندیوں کا بہانہ بنا کر عام انتخابات نہ ہونے دے، اگر پاکستان میں کوئی عبوری سیٹ اپ آتا ہے تو یہ میاں نوازشریف کی نا اہلی کہلائے گی

آصف زرداری نے میموگیٹ سے لے کر سوئس عدالتوں کو خط تک کے ایشوز کا سامنا کیا مگر اگلی جمہوری حکومت تک اقتدار منتقل کرکے ایوان صدر سے رخصت ہوئے

میاں نوازشریف ایک ایسے وقت میں جب ملک کے تمام اہم اداروں پر ان کے رشتے دار قابض ہیں، اگر حکومتی مدت کا یہ آخری سال نہیں نکال سکتے تو اسے سراسر نا اہلی کہیں گے

عبوری سیٹ اپ آنے کی صورت میں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلزپارٹی کی نئی سیاسی قیادت کو اپنی صلاحیتوں کا جوہر ثابت کرنے کا ایک اچھا میدان میسر آسکتا ہے جبکہ تحریک انصاف اس عبوری سیٹ میں ممکنہ طور پر اشرافیہ کی منظور نظر ہوسکتی ہے، عبوری سیٹ اپ کا نگران وزیراعظم محمد خان جونیجو کی طرح ایک کٹھ پتلی ہوگا

یہ موجود سیاسی صورت حال کے وہ امکانات ہیں، جن کے علاوہ شاید ایک کرشماتی صورت یہ ہے کہ میاں نوازشریف کی ان لوگوں سے ڈیل ہوجائے جو ممکنہ طور پر سازش کررہے ہیں

اگر عام انتخابات ہوتے ہیں تو رائے عامہ میں اتنی شدید تقسیم ہے کہ کوئی سیاسی جماعت سادہ اکثریت نہیں لے سکے گی اور لولی لنگڑی پارلیمان کے ارکان اشرافیہ کے رحم وکرم پر ایک دوسرے کے کردار کی دھجیاں اڑارہے ہوں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).