ملالہ پاکستان میں تعلیمی انقلاب لانے کی اہل ہے


نو اکتوبر 2012 کا غمگین دن تھا جب ٹی وی پر خبر آئی کہ ملالہ یوسفزئی کو نہایت قریب سے نشانہ لے کر سر میں گولی مار دی گئی ہے۔ خبر سن کر ایسے صدمہ ہوا جیسے ہماری اپنی سگی بیٹی کو گولی ماری گئی ہو۔ اس کی عمر تقریباً اتنی ہی تھی جتنی ملالہ کی ہے۔ کون ظالم سکول جانے والی اتنی چھوٹی بچی کو بھی ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنا سکتا ہے؟ یہ سوال ذہن میں گونجنے لگا۔

خاص طور پر پشتون معاشرے میں یہ بات بالکل ہی ناقابلِ یقین تھی۔ پختون معاشرے میں بعض روایات نہایت محترم سمجھی جاتی ہیں۔ پختون ولی کی روایات کو نظرانداز کرنے والا قابلِ نفرت ہوتا ہے۔ پختون ولی کہتی ہے کہ ہر پختون کا یہ فرض ہے کہ عورت کی ناموس کا ہر قیمت پر تحفظ کرے اور اسے کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچنے دے۔ خواہ یہ عورت اپنی ہو یا پرائی، اس کی ناموس و حفاظت پختون ولی میں مقدس قرار دی گئی ہے۔

روایت ہے کہ جن خاندانوں کی دشمنی چل رہی ہو، پہلے ان کی خواتین باہر نکلتی ہیں اور ارد گرد کے علاقے کے ہر گوشے کا معائنہ کرتی ہیں کہ ادھر کوئی دشمن تو گھات لگائے نہیں بیٹھا ہے اور علاقہ ہر طرح سے محفوظ ہے۔ کسی بھی صورت میں کوئی شخص کسی عورت پر فائر نہیں کر سکتا ہے۔ مرد اسی وقت باہر نکلتے ہیں جب عورتیں سب ٹھیک ہونے کا اشارہ دیتی ہیں۔

پختون ولی کی ایک اہم شق ننواتی ہے۔ اس میں کوئی ظلم زیادتی کرنے والا مظلوم سے معافی مانگتا ہے۔ اس کی ایک شکل یہ ہوتی ہے کہ مجرم کے گھر کی خواتین سر پر قرآن رکھ کر آگے چلتی ہیں اور پیچھے ان کے مرد۔ پشتون معاشرے میں اس کے بعد عورت کے احترام کے سبب معاف کر دینے کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں ہوتا ہے۔ ہاں اگر زنا بالجبر یا عورت کو نقصان پہنچانے کا معاملہ ہو تو پھر معافی نہیں ہے۔ لیکن خواتین کے ذریعے اس طرح سے معافی مانگنا بہت بے عزتی سمجھا جاتا ہے اور ایسا کم ہوتا ہے۔ عام حالات میں دشمنی ختم کرنے کے لئے قبائلی بزرگوں کے ذریعے ننواتی کی درخواست کی جاتی ہے۔ بہرحال اس سے علم ہوتا ہے کہ عورت کا کتنا احترام کیا جاتا ہے۔

ملالہ کے نام کی پشتون معاشرے میں ایک اور اہمیت بھی ہے۔

دوسری اینگلو افغان جنگ کے دوران میوند کے علاقے میں جب افغانوں نے انگریزوں پر حملہ کیا، تو ایک گڈریے کی بیٹی ملالہ اس میں دوسری افغان عورتوں کی طرح زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے ساتھ تھی۔ اس کا باپ اور منگیتر جنگ لڑ رہے تھے۔ افغانوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن وہ جنگ ہارنے لگے۔ پرچم بردار بھی زخمی ہو گیا۔ اس موقعے پر ملالہ نے پرچم تھاما اور بلند آواز میں رجز پڑھنے لگی ”اے میرے محبوب اگر تو نے میوند کے میدان میں لڑتے ہوئے جا ن نہ دی اور شکست کھا لی تو بخدا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم بے غیرتی کی زندگی گزارنے پر راضی ہوگئے ہو“۔ جنگ سے بھاگتے ہوئے جوان یہ سن کر غیرت کھا گئے اور میدان جنگ میں پلٹ آئے۔ جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور افغان جنگ جیت گئے۔ ملالہ جنگ میں کھیت رہی۔ میوند کی ملالہ پشتونوں میں ایک دیومالائی شخصیت کی حیثیت اختیار کر گئی۔ ملالہ یوسفزئی کا نام بھی میوند کی ملالہ کے نام پر ہی رکھا گیا تھا۔

شاید یہی وجوہات تھیں کہ ایک چھوٹی بچی ملالہ کو گولی مارنے کے بعد طالبان کی صفوں میں بھی شدید بے چینی پیدا ہوئی۔ حتی کہ ایک اہم کمانڈر عدنان رشید نے بھی ملالہ کے نام اپنا ایک خط شائع کیا۔

ملالہ یوسفزئی کے شدید زخمی ہونے کے بعد اچانک ایک عوامی ردعمل پیدا ہوا۔ وہ ابھی سی ایم ایچ میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھی کہ اس کے خلاف سازشی تھیوریاں گردش میں آ گئیں۔ احوال ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر اس کی جعلی ڈائری شائع کی گئی جس میں ایسے جملوں کا اضافہ کیا گیا کہ ” مجھے تو برقعہ دیکھ کر ہی پتھر کا زمانہ یا د آتا ہے اور داڑھی والے دیکھ کر فرعون۔ شام کو امی، میری کزن اور میں برقعہ پہن کر بازار گئے۔ ایک زمانے میں مجھے برقعہ پہننے کا بہت شوق تھا لیکن اب اس سے تنگ آئی ہوئی ہوں کیونکہ مجھ سے اس میں چلا نہیں جاسکتا“۔ حالانکہ اس وقت بھی بی بی سی پر ملالہ کی اصل ڈائری موجود تھی جس میں یہ فقرے نہیں تھے لیکن پھر بھی طالبان کے حامیوں نے اس بھیانک جرم کی شدت کم کرنے کو اس جعلی ڈائری کا پرچار شروع کر دیا۔

ایسی تصاویر شائع کی جانے لگیں جن کے ذریعے یہ ”ثابت“ کیا جا رہا تھا کہ پاک فوج کا ملالہ کو ہیلی کاپٹر میں سی ایم ایچ پشاور لے جانا ایک ڈرامہ تھا۔ کہا گیا کہ اسے گولی نہیں لگی۔ پھر وہ کئی ہفتے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو کر صحت یاب ہونے لگی تو ہسپتال کے بستر پر اس کی تصاویر کو دائیں سے بائیں پلٹ کر کہا جانے لگا کہ گولی تو دائیں جانب لگی تھی، تو پٹتی بائیں جانب کیوں ہے؟

ملالہ اس گولی سے مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو پائی۔ اس کے چہرے پر ابھی بھی کھچاؤ دیکھا جا سکتا ہے۔ مگر طالبان کے حامی اب بھی یہی کہتے ہیں کہ اسے گولی نہیں لگی اور یہ ایک امریکی ڈرامہ تھا۔ یعنی وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ملالہ پر قاتلانہ حملہ ایک ایسا امریکی ڈرامہ تھا جس میں پاک فوج، حکومت، امارات کی حکومت اور برطانوی سب شامل تھے۔ ملالہ کو اسلام اور پاکستان کا دشمن قرار دیا جانے لگا۔ جو لوگ ایسا بے بنیاد الزام لگاتے ہیں ان سے کسی ایسے کام کا ثبوت طلب کیا جائے جو ملالہ نے پاکستان یا اسلام کے خلاف کیا ہے، تو یا تو وہ یہی احوال ڈاٹ کام کی من گھڑت ڈائری پیش کرتے ہیں، یا پھر بے بسی سے دیکھنے لگتے ہیں اور آخر کار کہتے ہیں کہ ملالہ نے پاکستان کو بدنام کیا ہے۔ کمال کی منطق ہے، یعنی ایک بچی کو گولی مارنے والے پاکستان کی بدنامی کا سبب نہیں بنے، بلکہ گولی کھانے والی مظلوم ملالہ اس بدنامی کا سبب ہے۔

اب ملالہ طالبان کے خلاف مزاحمت اور بچیوں کی تعلیمم کا سمبل بن چکی تھی۔ صحت یابی کے بعد اپنی پہلی سالگرہ، یعنی 12 جولائی 2013 کو ملالہ نے اقوام متحدہ سے خطاب کیا۔ اس دن کو اقوام متحدہ نے ملالہ ڈے کے نام سے منانے کا اعلان کیا۔

ملالہ کے اقوام متحدہ سے خطاب کے وقت جنرل اسمبلی کا ہال دنیا بھر کے سربراہان مملک اور اعلی اہلکاروں سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے ملالہ کو کھڑے ہو کر خراج تحسین پیش کیا۔ اس سے کچھ روز بعد ستمبر میں وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے بھی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تھا اور ہال تقریباً خالی تھا۔ اسی سے آپ ملالہ کو دنیا بھر میں ملنے والی عزت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

ملکہ برطانیہ سے لے کر امریکی صدر تک دنیا بھر کے سربراہان مملکت ملالہ سے ملنا اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ ہمارے دوست اور مشہور صحافی فیض اللہ خان کو جب افغان حکومت نے گرفتار کیا تو پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود افغان انہیں سخت سزا دینے پر تلے ہوئے تھے۔ ایسے میں ضیا الدین یوسفزئی اور ملالہ یوسفزئی کی صرف ایک فون کال نے فیض اللہ خان کو رہائی دلوا دی۔

ملالہ اب دنیا بھر میں اور پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں وہ یہ کام اپنا نام استعمال کیے بغیر کرنے پر مجبور ہیں۔ انہیں نوبل انعام ملا تو اس کی ساری رقم انہوں نے شانگلہ میں تعلیم کے لئے مختص کر دی اور مزید رقم بھی فراہم کی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جب سوات میں ایک کالج کا نام ملالہ کے نام پر رکھنے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف احتجاج کر کے اسے ناکام بنا دیا گیا۔

ساری دنیا ہماری اس قابل فخر بیٹی کی عزت کرتی ہے مگر ہمارے اپنے ملک میں یہ حال ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے 2014 میں اس کی کتاب ”آئی ایم ملالہ“ کی پشاور یونیورسٹی میں لانچنگ کی تقریب پر پابندی لگا دی۔

اگر ہم ملالہ کے دنیا بھر میں اثر و رسوخ کی قدر کریں تو پاکستان کی یہ عظیم بیٹی تن تنہا دنیا بھر سے وسائل اکٹھے کر کے پاکستان میں ایک بڑا تعلیمی انقلاب لانے کا وسیلہ بن سکتی ہے۔ مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے ان پاکستانی ہیروز کی عزت نہیں کرتے جن کی عزت کرنے پر ساری دنیا مجبور ہوتی ہے۔

سالگرہ مبارک ہو ملالہ۔ جگ جگ جیو اور پاکستان کی عزت میں اضافہ کرتی رہو۔

12 جولائی 2017

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar