نواز شریف کی ڈنڈا ڈولی


ابھی نواز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال کر اپنی حلف والی شیروانی بھی نہیں اتاری تھی کہ مشورے اور مطالبے شروع ہو گئے کہ میاں صاحب اگر استعفیٰ دے دیں تو ان کے اور ملک کے لیے اچھا ہو گا۔

حکمرانوں سے مطالبہ کرنا کہ وہ حکمرانی چھوڑ دیں ہمارے جمہوری کلچر کا حصہ رہا ہے لیکن جتنی شدت سے یہ مطالبہ نواز شریف سے کیا جاتا ہے شاید ہی کسی اور رہنما سے کیا جاتا ہو۔
ہر خاندان میں ایک ایسا بچہ ہوتا ہے جو ڈرائنگ روم میں بڑوں میں گھس کر بیٹھنے کا شوقین ہوتا ہے اور بڑے اسے بار بار کہتے ہیں بیٹا باہر جا کر کھیلو۔ لیکن یہ بھی ایک ڈھیٹ بچہ ہے جسے بڑوں میں گھسنے کا شوق ہے۔

پاناما کا نام جیسے ہی سامنے آیا تو یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ اگر نواز شریف استعفیٰ دے دیں تو ان کی عزت میں اضافہ ہو گا اور اب جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر رہی سہی عزت بچانی ہے تو استعفیٰ دیں۔

میرے جیسے دو ٹکے کے صحافی بھی جنھیں پتہ ہے کہ یہاں ایک سنتری بھی استعفیٰ نہیں دیتا وہ بھی بڑے دل گداز مشورے دے رہے ہیں کہ اگر نواز شریف استعفیٰ دے دیں تو سسٹم بھی بچ جائے گا اور اگلے انتخابات میں انھیں اخلاقی برتری بھی حاصل ہو گی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی نزلہ بخار کے مریض سے کہا جاتا ہے کہ یخ بستہ سمندر میں کود جاؤ آرام بھی آجائے گا، لوگ واہ وا بھی کریں گے۔

قانون زیادہ نہیں جانتا، پاکستان میں اخلاقی فتح کا مطلب ہوتا ہے عبرتناک شکست۔ اپنی سیاسی روایت سے صرف اتنا جانتا ہوں کہ جب استعفیٰ لینے والوں نے لینا ہوتا ہے تو وہ لے کر چھوڑتے ہیں۔ ابھی نواز شریف کو فارغ کر کے شہید بنانے کا وقت نہیں آیا، ابھی ان کے گلے میں کرپشن کی تختی ڈالنے کا وقت ہے۔ یہ نعرے لگانے کا وقت ہے کہ دیکھو دیکھو کون آیا۔ اور چنو ایسے وزیر اعظم۔
ایک دفعہ میں نے پہلے بھی ان وزیراعظم کو ڈنڈا ڈولی ہوتے دیکھا تھا۔ زندگی ہمیشہ طاقت کے مراکز سے دور گزری ہے۔ کسی سیاسی لیڈر کو کبھی پریس کانفرنس میں دیکھا ہو تو دیکھا ہو، نہ کبھی بالمشافہ ملاقات، نہ لنچ، نہ ڈنر، آف دی ریکارڈ کا نام سن کر ہی ڈر لگتا ہے۔ ذرائع کو بھی بس یہی سمجھتا ہوں کہ اسلام آباد کے کسی صحافی نے سنی سنائی بات ہمیں آگے سنا دی۔

تو یہ حسن اتفاق ہی تھا کہ جب جنرل مشرف کی دھمکیوں اور سعودی انٹیلیجنس چیف کی وارننگ کے باوجود لندن سے اسلام آباد آنے کے لیے نواز شریف ایک جہاز میں سوار ہوئے تو میں بھی اس جہاز میں تھا۔ ان کے کچھ قصیدہ گو صحافی آگے پیچھے موجود تھے۔ پتہ نہیں نواز شریف کو کیا امید تھی کہ ان کے حامی ساری رکاوٹیں توڑ کر اسلام آباد پہنچیں گے۔ لیکن ایئرپورٹ کے ارد گرد کرفیو کا سماں تھا۔ جہاز اترا تو وردی والوں کا ایک دستہ آگے بڑھا۔ نوازشریف کے حامیوں نے مطالبہ کیا کہ وردی والوں کا دستہ ہٹایا جائے۔ فوراً سول کپڑوں میں ایک دستہ آن موجود ہوا۔ میرے جیسے کند ذہن کو بھی اندازہ ہو گیا کہ یہ بڑے حساس قسم کے سویلین ہیں۔ نواز شریف جہاز سے نیچے اترے تو ہلکی پھلکی نعرے بازی۔ نواز شریف کے پیچھے لندن سے ان کے ساتھ آیا ہوا ایک دیو ہیکل باڈی گارڈ۔ میں متجسس کہ آج تاریخ بنتے دیکھوں گا۔

اگلے چند گھنٹوں تک راولپنڈی ایئرپورٹ کے لاؤنج میں میں نے اعصاب کی جنگ دیکھی۔ آرڈر یہ تھے کہ نوازشریف کو جہاز پہ چڑھاؤ اور واپس بھیجو۔ ساتھ شاید یہ بھی ہدایت تھی کہ اگر کوئی زور زبردستی کرنی پڑے تو دیکھنا کہ میڈیا والوں کے سامنے نہ ہو۔ ایک طرف نوازشریف اڑے رہے دوسری طرف حساس بھائیوں نے ایک ان دیکھا سا آپریشن کر کے زیادہ تر میڈیا والوں کو ادھر ادھر کر دیا۔ کوئی باتھ روم گیا تو واپس نہیں آیا، کسی کا پاسپورٹ اچک لیا گیا، کسی کا کیمرا۔

جب میڈیا تتربتر ہوا تو اعصاب کی جنگ کے بعد اصلی والی جنگ شروع ہوئی، یعنی لاتوں اور گھونسوں والی۔ میں نے حساس بھائیوں کو کبھی ایکشن میں نہیں دیکھا اور متاثر ہوا۔ چند ہی لمحوں میں نوازشریف کا ساڑھے چھ فٹ لمبا باڈی گارڈ زمین پہ تھا، ساتھی تتر بتر تھے اور خود نواز شریف کو دھکم پیل اور ڈنڈا ڈولی کر کے اس جہاز کی طرف لے جایا جارہا تھا جو رن وے پر تیار کھڑا تھا۔
تو اب جبکہ ان کی پچھلی اور آنے والی نسلوں کی ’کرپشن اور جھوٹ ثابت ہو چکے‘ تو ان پر ’مقدمہ چلنا چاہیے، جیل ہونی چاہیے، ڈس کوالیفائی ہونا چاہیے۔ ‘ اور اگر وہ استعفیٰ دینے پر تیار نہ ہوں تو ڈنڈا ڈولی والے آپشن پر غور کیا جائے۔ اس دفعہ میڈیا سے چھپانے کی بھی ضرورت نہیں۔ میڈیا اس نیک کام میں خود ہاتھ بٹانے کے لیے بےقرار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).