ماحولیاتی تبدیلی کا سنگین مسئلہ


محمد رفیق

\"Muhammad-Rafique\"

دہشتگردی اور عالمی معاشی اتار چڑھاؤ کے ساتھ سا تھ اس وقت ماحولیاتی تبدیلی دنیا بھر میں سب سے زیادہ زیر بحث موضوعات میں سے ایک ہے، عالمی سطح پر مقرر کئے گئے پائدار ترقی کے اہداف میں بھی ماحولیاتی تبدیلی کے عمل کو سنگین ترین مسائل کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ مسئلے کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے دسمبر 2015 میں پیرس میں ایک بین ا لاقوامی کانفرنس منعقد کی جس میں کرۂ عرض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے عمل کو روکنے اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے اہداف مقرر کئے گئے۔

ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا سبب کاربن گیسوں کے اخراج کو قرار دیا جاتا ہے جس کے باعث کرہٗ عرض کے درجہء حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے۔ امریکی اعداد و شمار کے مطابق 2012 کو گرم ترین سال قرار دیا گیا جبکہ برطانوی سائنسدانوں کے مطابق 2015 یورپ کے لئے گرم ترین سال ثابت ہوا اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کی 2016 میں گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہو گا۔

تحقیق کے مطابق زمین پر بڑھتے ہوئے درجہء حرارت کے باعث برف کے گلیشئروں کے پگھلنے کے عمل میں اضافے کی وجہ سے آئندہ چند سالوں کے بعد انسانوں، جانوروں اور نباتات کے لئے دستیاب قابل استعمال پانی کے ذخائر میں شدید کمی واقع ہونے کا امکان ہے، دریاؤں میں سیلابی صورتحال پیدا ہونے اور سمندروں کی سطح میں بلندی کے باعث ساحل سمندر پر واقع شہروں کے ڈوب جانے کا خدشہ ہے۔ماحولیاتی تبدیلی کے مزید ممکنہ اثرات میں بارشوں کے برسنے کے معمول میں تبدیلی، خشک سالی، فصلوں کی کاشت کے سیزن میں تبدیلی اور خوراک کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشے کے ساتھ ساتھ معمولات زندگی میں تبدیلی اور صحت کے مسائل میں اضافہ شامل ہیں۔

ماہرین کے مطابق دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ کاربن گیسوں کا اخراج ہے۔ صنعتی دور کے بعد سے بنی نوع انسان نے تقریباً دو ہزار گیگا ٹن کاربن ماحول میں داخل کی جو کہ کرہء عرض کے ماحول کی کاربن جزب کرنے کی صلاحیت سے تقریباً دوگنا زیادہ ہے۔ چین، امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک ماحولیاتی آلودگی کے نصف سے زائد کے لئے ذمہ دار قرار دیے جاتے ہیں، جبکہ انڈیا اور روس بھی ماحویاتی آلودگی کے بڑے ذمہ دار ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ مزید برآں دنیا کی پچاس فیصد آبادی جو کہ سمندری ساحلوں کے قریب رہائش پزیر ہے، نے قدرتی ماحول کی تباہی کی صورت میں ماحویاتی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق وطن عزیز پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہونے والے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے ۔ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے چند مظاہر میں تھر کی قحط سالی، 2010 کی شدید بارشیں اور سیلاب اور گزشتہ سال کراچی میں شدید گرمی کے باعث چودہ سو سے زاید ہلاکتیں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی ساحل پر واقع مچھیروں کی بستی ابراہیم حیدری کے مکین سمندر کی سطح میں اضافے، ساحلی جنگلات کے کٹاؤ اور بڑھتی آلودگی کے باعث مچھلی کے شکار میں کمی کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں۔

ماحولیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ کرۂ عرض پر درجہء حرارت میں اضافے کی صورت میں پاکستان، جو کہ جغرافیائی طور پر گرم خطہ میں واقع ہے، شدید گرمی کی لپیٹ میں آسکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مون سون کے معمول میں تبدیلی کے اثرات کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔خاکم بدہن، خدشہ ہے کہ بڑھتی آبادی، معاشی عدم استحکام، دہشتگردی اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا شکار پاکستانی عوام، خصوصاً دیہات میں مقیم اکثریتی کسان، مزدور، دریائی اور سمندری ساحلوں اور کچی آبادیوں کے رہائشی لوگوں کو آنے والے سالوں میں پانی اور خوراک کی کمی، قحط سالی، موسمیاتی شدت(گرمی اور سردی)، سیلابوں اور شدید بارشوں جیسے گھمبیر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں قائم ماحولیاتی تحفظ کے ادارے (Enviornment Protection Authroirty) کی جانب سے کبھی بھی ماحولیاتی تحفط کے موجودہ قوانین پر عملدرآمد کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ گو کہ 0.05% اوسط کے ساتھ پاکستان کا شمار بین الاقوامی سطح پر کم ترین کاربن اخراج والے ممالک میں ہوتا ہے تاہم مروجہ ماحولیاتی قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں ماحولیاتی تباہی میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے جس کی بنیادی وجوہات میں جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ، بڑھتی ٹریفک، صنعتی اور تجارتی فضلہ، زراعت میں جراثیم کش ادویات اور کیمیکل کا استعمال جیسے عوامل شامل ہیں۔ مزید برآں، خطے میں بڑھتی دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ، پاک بھارت دشمنی اور جنگی جنون کا ماحولیاتی تبدیلی سے گہرا تعلق ہے۔ چائنا پاک اکنامک کوریڈور جس کا آج کل پاکستان میں بہت چرچا ہے، کے ماحولیاتی اثرات سے بھی ہمیں نمٹنا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ہمارے پڑوسی چین اور بھارت کی ابھرتی معیشتوں کے ماحولیاتی تباہی کے اثرات بھی پاکستان پر پڑیں گے۔

بد قسمتی سے پاکستان میں عوامی اور حکومتی دونوں سطح پر ماحولیاتی تبدیلی عدم توجہی کا شکار موضوع ہے۔ وفاقی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے عنوان سے قائم وزارت تاحال غیر موثر ہے۔ دیگر پالیسیوں کی طرح ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع پر تیار کی گئی پالیسی پاکستان کی معاشی، سیاسی اور سماجی حقیقتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ترتیب دی گئی ہے، جس پر عملدرآمد تاحال شروع نہیں ہوسکا ۔ پالیسی کے مندجات پر نظر دوڑاتے ہی مجھ جیسے غیر ہنر مند فرد کو بھی یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ یہ پالیسی محض بین الاقوامی اداروں کے دباؤ کوزائل کرنے کے لئے، جیسا کہ پاکستان میں اکثر ہوتا ہے، تیار کی گئی ہے نہ کہ عمل درآمد کے لئے۔ دیگرپالیسیوں کی طرح اس پالیسی میں بھی وقت کی اہمیت کو نظر انداز کیا گیا ہے اور درکار انتظامی امور کو مبہم رکھا گیاہے، اس طرح کے حربے مسائل سے پہلو تہی کرنے اور جوابدہی کے عمل کو تکنیکی طور پر غیرموثر کرنے کے لئے اپنائے جاتے ہیں۔

حکومت پاکستان کی جانب سے 2015 کے شروع میں پیرس میں منعقدہ ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں سبکی سے بچنے کے لئے ہنگامی طور پر وفاقی سطح پر وزیر ماحولیات کا تقرر کیا گیااور وزیراعظم پاکستان بغیر کسی تیاری کے شرکت کر کے واپس آگئے۔

پاکستان بین الاقوامی سطح پر 2015 کے عالمی ماحولیاتی معاہدے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تحفظ سے متعلق متعدد معاہدوں کا فریق ملک ہے جن میں اوزون کی تہہ اور قدرتی انواع کے تحفظ جیسے معاہدے شامل ہیں۔ 21014 میں پاکستان نے یورپی یونین کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کیا جو جی ایس پی پلس کے نام سے جانا جاتا ہے، اس معاہدے کے تحت 6200 سے زائد ٹیرف لائنز میں شامل پاکستانی مصنوعات بغیر کسی ڈیوٹی یا کم شرح ڈیوٹی پر یورپی ممالک میں فروخت کی جاسکتی ہیں تاہم اس معاہدے کی رو سے پاکستان کو 27 بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد یقینی بنانا ہو گا۔ ان معاہدوں میں سات معاہدے انسانی حقوق، آٹھ معاہدے محنت کشوں کے حقوق اور سات معاہدے ماحولیات سے متعلق بھی شامل ہیں۔ معاہدوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کے یورپی یونین کیساتھ ترجیحی تجارتی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔

صورتحال کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو ایک ہمہ جہت اور قابل عمل ماحولیاتی تحفظ کی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس پر فی الفور عمل کرتے ہوئے ملک کو درپیش ماحولیاتی تبدیلی سے جڑے مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کی جاسکیں۔ حکمت عملی کے ترجیحی نقات میں بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد، ماحولیاتی تبدیلی اور تحفظ کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون سازی اور موثر جوابد ہی کی خصوصیات کا حامل ادارارتی بندوبست کے ساتھ ساتھ کمزور اور پسماندہ طبقات کا ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے تحفظ یقینی بنانااشد ضروری ہے جس کے لئے متناسب وسائل مختص کرنا انتہائی اہم امرہے۔ صورتحا ل کا تقاضہ ہے کہ ماحولیات کے تحفظ کی قومی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے کی ساتھ ساتھ دیگر پالیسیوں کو بھی ماحولیاتی تبدیلی پالیسی سے ہم آہنگ کیا جائے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments