بیگم جونا گڑھ کا عدالتی فیصلہ


اولاد ہونے کے بعد انسان کس طرح بدل جاتا ہے یہ بات سمجھ سے باہر ہے ۔ ابھی سال دو سال پہلے آپ چھڑے چھانٹ تھے ، راتوں کو دو بجے سے پہلے گھر حاضری ممکن نہیں تھی، اماں ابا جو مرضی کہتے رہیں ان کی بات ہوا میں اڑانا فرض ہوتا تھا، دے چائے پہ چائے ، سگریٹ پہ سگریٹ، ہر چاند رات کو باہر نکلنا اور نکلے ہی رہنا فرض ہوتا تھا۔ عام دنوں میں بھی دوست یار بیٹھے ہیں، محفل جمی ہے ، کون کافر اٹھنا چاہتا ہے ؟ گھر سے فون پر فون آ رہے ہیں لیکن بھائی لوگ جوکر دبا کر بیٹھے ہیں، دکی (تاش کا ایک کھیل) ختم ہو گی تو اٹھیں گے ۔ اچھا بھئی دکی ختم ہو گئی لیکن اب تو کھانے کا وقت ہے ، پانچ چھ لوگ دو موٹر سائیکلوں پر چڑھے ، ہارنے والوں کی شامت آئی اور باہر جا کے ڈنر پھڑکا لیا۔ اب گھر جائیں گے ، کچھ مخصوص باتیں سنیں گے اور کان لپیٹ کر سو جائیں گے ۔ باتیں اس قسم کی ہوں گی؛

“بیٹا تمہارے ابا کہہ رہے تھے کہ یہ بہت زیادہ آوارہ گرد ہو گیا ہے ، اسے کہو شریفوں کے بچے رات کو دیر سے گھر نہیں آتے ۔ فلاں آنٹی کے بچوں کو دیکھ لو، کبھی سنا ہے وہ رات کو دیر تک گھر سے باہر نکلے ہوں یا ان کے دوست کبھی ان کے گھر اکٹھے ہوئے ہوں۔ وہ تو بے چارے نو بجے کے بعد جو بستر میں جاتے ہیں تو فجر کے وقت آنکھ کھلتی ہے ۔ بیٹا کچھ پڑھ لو، گھر میں ٹک جایا کرو، وہ برابر والے انکل نے ابا کو بتایا تھا کہ پچھلے بدھ کو تم دوستوں کے ساتھ سینما میں تھے (وہ کس کے ساتھ تھے ، یہ نہیں بتایا؟)، بیٹا عمر پڑی ہے یہ سب کچھ کرنے کو، بس دو چار سال ہیں، دل لگا کر پڑھ لو گے تو کل کو اچھی نوکری لگ جائے گی ۔۔۔۔ الخ”

اس پوری کلاس کے بعد گرم دودھ بھی ملتا تھا، کھانا بھی وقت پر اور گرم گرم، ابا بھی ایک دو دن بعد سیٹ ہو جاتے تھے اور کل ملا کر سمجھ یہ آتا تھا کہ استاد کوئی سرخاب کا پر ہے اپنی ذات شریف میں جو ماں باپ ناراض رہ ہی نہیں سکتے ، یوں پگھل پگھل جاتے ہیں جیسے کوئی شکایت کبھی نہ ہوئی ہو۔ جب اولاد ہوئی تو یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ پگھلنا کیا ہوتا ہے ۔ آپ بچوں سے ناراض کیسے نہیں رہ سکتے ۔ بندہ سو سو پردے ڈالتا ہے ، درگزر کرتا ہے ، اسے خود پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ پیار کم بخت ختم ہونے میں نہیں آتا، سو بار ڈانٹ دیں گے تو ڈیڑھ سو بار خیال آئے گا کہ یار چلو اب جا کے منا لیں، پتہ نہیں کھانا کھایا ہو گا یا نہیں، بس بہت ہو گئی، پیار سے سمجھا دیں گے اور اینڈ رزلٹ وہی نکلتا ہے جو آپ کے ساتھ آپ کے ماں باپ کا تھا۔ بے انتہا شفقت، شدید محبت، حد درجہ الفت اور جگر کے ٹکڑوں کا نام اولاد ہوتا ہے ۔ کوئی شک؟

نہیں ہے ، شک کس کو ہو سکتا ہے ، اچھا اس پیار، محبت، الفت، شفقت وغیرہ کا ایک ذرہ برابر بھی کبھی محسوس کیا ہے ان بچوں کے لیے جو تپتی سڑک پر وائپر تھامے نظر آتے ہیں، جو ورکشاپ میں گرم انجن پر جھکے ہوتے ہیں، جو درزی کی دکان میں کترنیں لپیٹ رہے ہوتے ہیں، جو گاڑی روکتے ہی دیوانہ وار آپ کے آس پاس اکٹھے ہو جاتے ہیں اور آپ کو دہی بڑوں یا سموسوں کی پلیٹ لا کر دیتے ہیں، جو تندور ہوٹلوں میں بیٹھنے سے پہلے آپ کی میز پر سلاد رائتہ رکھ جاتے ہیں یا وہ بچے جو اپنی ماؤں کے ساتھ آپ کے گھروں میں آ کر کام کرتے ہیں؟ مشکل ہے کہ اس محبت کی ایک رمق بھی ان بچوں کے لیے محسوس ہوئی ہو۔ یہ بے چارے ویسے بھی عام طور پر کالے پیلے سے ہوتے ہیں، اے سی میں پلنے والے بچوں سے ذرا مختلف دِکھتے ہیں، پھر ان کے کپڑے بھی پرانے ہوتے ہیں، کبھی کبھار گھر میں پانی آتا ہے ، تو نہاتے بھی کم ہی ہیں، لیکن جو بیچارا صاف ہو گا‘ اس غریب کے بھی سر میں اتنا تیل ڈلا ہو گا کہ نازک مزاج اشرافیہ کو سمجھ نہیں آئے گا کہ اس سے کام کروانا ہے یا اسے تلنا ہے، تو وہ معمولی سی غلطی پر بھی اسے تلنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

لاہور میں رہنے والی معزز رکن اسمبلی شاہ جہان صاحبہ کے یہاں سولہ سالہ گھریلو ملازم کی تشدد زدہ لاش ابھی کل پرسوں برآمد ہوئی اور ماتم کرنے والوں کو بیگم جونا گڑھ یاد آ گئیں۔ پاکستان بنے ابھی کوئی چار پانچ برس ہی ہوئے تھے کہ ان کے محل سے بھی اسی طرح ایک لاش برآمد ہو گئی۔ چودہ پندرہ کا سن، نام بانو بیگم، ولدیت کیا فرق پڑتا ہے ، پتہ گور غریباں، نے چراغ نے گلے ۔ اس بے چاری سے کچھ

begum junagarh

غلطی ہوئی تو بیگم صاحبہ نے اسے ایک دوسری ملازمہ سے اتنا پٹوایا کہ اس نے مرنے میں ہی عافیت جانی۔ رات کو فٹا فٹ لاش پائیں باغ میں دفنا دی گئی۔ لواحقین نے بہت زیادہ شور مچایا تو عقدہ اور قبر کشائی ہوئی، سب کچھ کھل گیا۔ یہ عدالت، یہ ملزم، یہ جرم، یہ ثبوت ۔۔۔ لیکن فیصلہ کیا سنایا گیا؛ “بانو بیگم کا قتل بیگم جونا گڑھ نے خود تو نہیں کیا مگر وہ اس جرم کی محرک تھیں اس لیے وہ سزا کی مستحق ہیں۔ لیکن چونکہ وہ ایک اعلیٰ سماجی رتبے کی حامل ہیں اس لیے وہ جتنا عرصہ قید میں گزار چکی ہیں اور ان کی جتنی بدنامی ہو چکی ہے ، وہی ان کی سزا ہے ۔ اب انہیں تابرخواست عدالت قید کی سزا دے کر رہا کر دیا جائے۔” گویا ایک ملازم کے قتل کی سزا بس اتنی ہے کہ بیگم صاحبہ جیسے تیسے عدالت میں وقت گزار لیں، باہر نکلیں گی تو سب کچھ دھل جائے گا۔ معاف کیجے گا یہ لیڈی میکبتھ کے ہاتھوں جیسے دھبے ہیں جو ہم سب کی ذات پر سوالیہ نشان کی طرح پڑے ہوئے ہیں!

سن باون سے اب تک بہت سے ایسے واقعات ہو چکے ، کسی ایک صاحب حیثیت کو بھی قرار واقعی سزا ملتی تو اب تک یہ معاملہ کافی حد تک قابو آ چکا ہوتا لیکن جہاں چار چھ ماہ گزرے کوئی نہ کوئی بانو بیگم یا اختر جیسا بدنصیب سامنے آ جاتا ہے ، جو ظاہرہے ہماری طرح گوشت پوست کا نہیں ہوتا، نہ ان کی کوئی ماں ہوتی ہے ، نہ باپ ہوتا ہے ۔ وہ جو سرخاب کا پر ہماری ذات میں ہوتا تھا، ان میں وہ بھی نہیں ہوتا، یہ تو بے چارے ماں باپ سے نخرے کرنے جوگے بھی نہیں ہوتے ، ان کی آوارہ گردیوں پر بھی کسی کو پیار نہیں آتا، ان سے کچھ ٹوٹے گا تو ان کے ہاتھ ہی توڑے جائیں گے یا پھر موڈ ہوا تو اتنا مارا جائے گا کہ دم نکل جائے ۔

اختیار اور پیسہ ہر ایک کا ولی وارث ہے ۔ اگر آپ کسی پوزیشن پر ہیں، آپ کا بینک اکاؤنٹ تگڑا ہے تو آپ کے بچے کبھی بانو یا اختر کی طرح نہیں مریں گے ، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کوئی بھی بہانہ ڈھونڈ کر خالق حقیقی سے جا ملیں، دنیا بہرحال آپ کے رہنے کی جگہ نہیں ہے!

بشکریہ روز نامہ دنیا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain