دلی کی سیر ۔۔۔۔۔ انگارے مطبوعہ 1936 سے ایک اور چنگاری


“اچھی بہن ہمیں بھی تو آنے دو۔” یہ آواز دالان سے آئی اور ساتھ ہی ایک لڑکی کرتے کے دامن سے ہاتھ پونچھتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ ملکہ بیگم ہی پہلی تھیں جو اپنی سب ملنے والیوں میں پہلے پہل ریل میں بیٹھی تھیں۔ اور وہ بھی فرید آباد سے چل کر دہلی ایک روز کے لیے آئی تھیں۔ محلہ والیاں تک ان کی داستان سفر سننے کے لیے موجود تھیں۔

“اے ہے، آنا ہے تو آو! میرا منہ تو بالکل تھک گیا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو سینکڑوں ہی بار تو سنا چکی ہوں یہاں سے ریل میں بیٹھ کر دلی پہنچی اور وہاں ان کے ملنے والے نگوڑے اسٹیشن ماسٹر مل گئے۔ مجھے اسباب پاس چھوڑ یہ رفو چکر ہوئی اور میں اسباب پر چڑھی برقعہ میں لپٹی بیٹھی رہی۔

ایک تو کم بخت برقعہ اور دوسرے مردوے، مرد تو ویسے ہی خراب ہوتے ہیں، اور اگر کسی عورت کو اس طرح بیٹھے دیکھ لیں تو چکر پر چکر لگاتے ہیں۔ پان کھانے تک کی نوبت نہ آئی۔ کوئی کم بخت کھانسے، کوئی آوازے کسے اور میرا ڈر کے مارے دم نکلا جائے۔ اور بھوک وہ غضب کی لگی ہوئی کہ خدا کی پناہ! دلی کا اسٹیشن کیا ہے بوا، قلعہ بھی اتنا بڑا نہ ہو گا۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی اسٹیشن ہی اسٹیشن نظر آتا تھا اور ریل کی پٹڑیاں، انجن اور مال گاڑیاں، سب سے زیادہ ڈر مجھے ان کالے کالے مردوں سے لگا تھا جو انجن میں رہتے ہیں۔”

“انجن میں کون رہتے ہیں” کسی نے بات کاٹ کر پوچھا۔

“کون رہتے ہیں؟ نہ معلوم بوا کون، نیلے نیلے کپڑے پہنے، کوئی داڑھی والا، کوئی صفا چٹ۔ ایک ہاتھ سے پکڑ کر چلتے انجن میں لٹک جاتے ہیں۔ دیکھنے والوں کا دل سن سن کرنے لگ جاتا ہے۔ صاحب اور میم تو بوا دلی اسٹیشن پر اتنے ہوتے ہیں کہ گنے نہیں جاتے۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گٹ پٹ کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ہندوستانی بھائی بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تکتے رہتے ہیں۔ کم بختوں کی آنکھیں نہیں پھوٹ جاتیں۔ ایک میرے سے کہنے لگا، ذرا منہ بھی دکھا دو، میں نے فوراً۔۔۔۔۔۔ “تو تم نے کیا نہیں دکھایا؟” کسی نے چھیڑا۔

“اللہ اللہ کرو بوا، میں ان مووں کو منہ دکھانے گئی تھی؟ دل بلیوں اچھلنے لگا” (تیور بدل کر) “سننا ہے تو سنو بیچ میں نہ ٹوکو۔” ایک دم خاموشی چھا گئی۔ ایسی مزیدار باتیں فرید آباد میں کم ہوتی تھیں اور ملکہ کی باتیں سننے تو دور دور سے عورتیں آتی تھیں۔ “ہاں بوا! سودے والے ایسے نہیں جیسے ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ صاف صاف خاکی کپڑے اور کوئی سفید، لیکن دھوتیاں کسی کسی کی میلی تھیں۔ ٹوکرے لیے پھرتے ہیں۔ پان، بیڑی، سگریٹ، دہی بڑے، کھلونا ہے کھلونا، اور مٹھائیاں چلتی ہوئی گاڑیوں میں بند کیے بھاگے پھرتے ہیں۔ ایک گاڑی آ کر رکی، وہ شوروغل ہوا کہ کانوں کے پردے پھٹے جاتے تھے۔ ادھر قلیوں کی چیخ و پکار، ادھر سودے والے کان کھائے جاتے ہیں۔ مسافر ہیں کہ ایک دوسرے پر پلے پڑتے ہیں اور میں بچاری بیچ میں اسباب پر چڑھی ہوئی، ہزاروں ہی تو ٹھوکریں اور دھکے کھائے ہوں گے۔ بھئی جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو گھبرا گھبرا کر پڑھ رہی تھی۔ خدا خدا کر کے ریل چلی تو مسافر اور قلیوں میں لڑائی شروع ہوئی۔

ایک روپیہ لوں گا

نہیں دو آنے ملیں گے

ایک گھنٹہ جھگڑا ہوا جب کہیں اسٹیشن خالی ہوا۔ خالی کیا ہوا اسٹیشن کے شہدے تو جمع ہی رہے۔ کوئی دو گھنٹے کے بعد یہ موچھوں پر تاؤ دیتے دکھائی دیئے اور کس لاپرواہی سے کہتے ہیں، بھوک لگی ہو تو کچھ پوریاں وغیرہ لا دوں، کھاؤ گی؟ میں تو ادھر ہوٹل میں کھا آیا۔

میں نے کہا کہ خدا کے لیے مجھے میرے گھر پہنچا دو! میں باز آئی اس موئی دلی کی سیر سے۔ تمہارے ساتھ تو کوئی جنت میں بھی نہ جائے۔ اچھی سیر کرانے لائے تھے۔ فرید آباد کی گاڑی تیار تھی اس میں مجھے بٹھا اور منہ پھلا لیا کہ تمہاری مرضی، سیر نہیں کرتیں تو نہ کرو۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).