مرد اذیت کے کٹہرے میں کھڑا ہے


نجانے وہ پہلا شخص کون ہو گا جس نے جذبات کو مرد اور عورت کے ساتھ مخصوص کیا ہو گا۔ وہ جس نے سوچا ہوگا کہ یہ جسمانی تفریق ذہنی و قلبی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مفروضہ قائم کیا ہو گا کہ نازک لگنے والی عورت باہمت اور عاقل نہیں ہو سکتی اور جسمانی لحاظ سے مضبوط مرد کا دل جذبات و احساسات سے عاری ہو سکتا ہے۔ یہ گمان پروان چڑھایا ہو گا کہ شیشے سا نازک دل صرف عورت کا ہی ہو سکتا ہے جب کہ مرد کے سینے میں دل کی جگہ پتھر ہے جو اسے ہر احساس سے عاری کرتا ہے۔ کیسے یہ سوچ پھیل گئی اور اتنا پھیلی کہ ذہنوں اور دلوں میں سرایت کر گئی جس میں ہنسنا اور رونا بھی اصناف سے مشروط ہے۔ اور کیوں کسی نے یہ نہیں سوچا کہ وہ خود انسان ہے کوئی سوچ یا روایت کیسے تعین کر سکتی ہے کہ اس کے احساسات و جذبات کیسے ہونے چاہیے اور کیسے نہیں ہونے چاہیے۔

کیوں وہی غلاف جو کسی غلط سوچ کا نتیجہ تھا  اسے ہر عورت اور مرد نے بلا چوں چراں اوڑھ لیا اور وہ جس نے اس سے اختلاف کیا۔ یہ سوچا کہ ایسا نہیں ہے اس کے احساسات و جذبات کو وہ خود بہتر سمجھ سکتا  اور اظہار کر سکتا ہے اسے باغی قرار دے دیا۔ وہ مرد جو اظہار کرے کہ اس میں نزاکت ہے اس کی آنکھیں کسی غم پہ بھر آتی ہیں۔ وہ جو جرات کرے یہ کہنے کی نفاست و ناز و انداز مرد کے لیے بھی اتنے ہی ضروری ہیں جتنے کہ عورت کے لیے اسے باغی نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے جس کے لیے اہمیت رعب دار مونچھوں سے زیادہ حساس دل کی وہ پاگل نہیں کہلائے گا تو اور کیا کہلائے گا۔ وہ سماج جہاں مرد کا رونا گناہ سمجھا جاتا ہو کیونکر محسوس کرے گا کہ دل تو اصناف میں تقسیم نہیں ہے وہ تو سب انسانوں کا یکساں ہے۔ احساس کسی جنس کا نام تو نہیں کہ اسے اس سے مخصوص کیا جائے اور جذبہ کسی کی ملکیت نہیں کہ کوئی اور اسے اپنا نہ سکے۔

مرد ازل سے بدنام رہا ہے کہ اس کا دل حساس نہیں ہے دراصل اس کے احساس کو احساس سمجھا ہی نہیں جاتا اس کے دل کو دل مانا ہی نہیں جاتا یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ بھی رو سکتا ہے اس کا دل بھی افسردہ ہو سکتا ہے۔ اسے ہمت کا سنگلاخ پہاڑ سمجھا جاتا ہے یہ اذیت وہ اذیت ہے جو صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ اس اذیت نے حساس دل والے مرد کو فولاد کے جسم کے پنجرے میں ایسا قید کیا ہے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کرنا اپنی صنف کی توہین سمجھتا ہے۔ زندگی ودیعت ہوئی ہے لیکن اس کی درجہ بندی ہم نے خود ہے اور اسے توڑنے کی کوشش کرنے والوں کو پاگل، دیوانہ یا باغی کا خطاب بھی ہم نے دیا ہے۔ صنف کی تخصیص کے جھگڑے نے یہیں سے سر اٹھایا ہے جب یہ سمجھا گیا کہ انسان کو دو اصناٖف میں کام ،سوچ ، خیال اور جذبات کے حوالے سے تقسیم کیا جائے۔

جھگڑا آدم اور حوا کا نہیں ہے اس درجہ بندی کا ہے جو انسان نے خود کی ہے، تقسیم کا ہے جس میں دونوں کو صنف کے لحاظ سے ذمہ داریوں میں بانٹا گیا ہے پھر اسی تقسیم کے پیش نظر احساسات وخیالات کی تخصیص کی گئی ہے جس میں الجھن  ہے زور زبردستی ہے۔ لیکن اس کے باوجود سماج اس کا اتنا عادی ہے کہ وہ اس عورت کو جو عقل  و دانش اور جرات رکھتی ہے اسے مردانہ عورت کا خطاب دیتا ہے اور جو مرد حساس دل کا مالک ہو اسے تیسری صنف میں گردانتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مرد ذہنی دباؤ کا زیادہ شکار ہوتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں کا تناسب خواتین کی نسبت زیادہ ہے۔ اس لیے کہ وہ سماجی دباؤ کو بھی برداشت کرتے ہیں اور گھریلو مسائل کو بھی لیکن اس کا اظہار نہیں کر پاتے وہ کھل کے رو نہیں سکتے اپنا کتھارسس نہیں کر سکتے۔

کسی شدید ترین جذباتی کیفیت میں بھی وہ کھل کے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے نام نہاد مردانگی پر ضرب پڑتی ہے۔ یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ مضبوط مرد نہیں ہے بلکہ ”عورتوں ”کی طرح جذباتی ہے۔ یہ تقسیم عجیب ہے، غیر عقلی ہے لیکن ہے۔ اس تقسیم کے حق میں کوئی عقلی دلیل نہیں دی جاسکتی لیکن اس سے بغاوت کرنے والوں کو سماج میں جگہ بھی نہیں ملتی۔ انسان ہیں تو انسان ہونے کا ثبوت عقل سے دینا چاہیے اپنی سمجھ بوجھ سے دینا چاہیے ورنہ جانور بھی اپنی نوع کے طے کردہ قوانین کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ کبھی ان اصول و ضوابط کو نہیں توڑتے نہ ہی توڑنے کا سوچتے ہیں۔

انسانی زندگی اتنی عام نہیں کہ اسے نامعلوم زمانوں میں بنائی گئی روایات کے مطابق گزار دیا جائے۔ میرے لیے وہ مرد جو نفیس ہے، نزاکت رکھتا ہے، حساس ہے، تکلیف دہ باتوں پہ نم دیدہ ہو جاتا ہے محترم ہے، اتنا ہی محترم جتنی وہ عورت جو حالات کا جرات سے مقابلہ کرتی ہے، عزم و حوصلے کی چٹان ہے جس میں ضبط و برداشت ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو انسان ہیں جو جرات کرتے ہیں خود سوچنے کی، محسوس کرنے کی اور سماج کو سوچ کی دعوت دینے کی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مرد کو سماج کی زبردستی لاگو کی گئی اذیت سے باہر لائیں گے اسے بھی انسان ہونے کا حق دیں گے جو ہنس سکتا ہے، تکلیف میں سب کے سامنے رو سکتا ہے اپنے مسئلوں کو بغیر جھجک کے شیئر کر سکتا ہے یہ سوچے بنا کہ وہ درخت ہے جسے خود دھوپ سہنا ہے اور سب کو محفوظ رکھنا بلکہ یہ سوچتے ہوئے کہ اسے بھی اظہار کا حق ہے اور ایسا کرنا کوئی گالی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).