لگتا تو چور ہی ہے ۔ ۔ ۔


جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی گئی ہے جو میڈیا پر آ چکی ہے اور اس کا تجزیہ کیا جانے لگا ہے۔ اس کے ایک جزو کو عام نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ہمارے ایک سینئیر صحافی نے کئی ماہ قبل قدرے نرم الفاظ میں کچھ ایسا سا فرمایا تھا کہ جو یہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف کرپٹ نہیں ہیں، وہ بھولا ہے اور جو یہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف پر کرپشن ثابت کی جا سکتی ہے، وہ احمق ہے۔ لیکن اب ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان پر کرپشن ثابت کی جا سکتی ہے یا نہیں۔

دیکھتے ہیں کہ اس رپورٹ پر کیا کارروائی ہوتی ہے اور اس پر فیصلہ کیا ہو گا۔ عدالت میں پڑتال پر اس کے کچھ حصوں کو قبول کیا جائے گا تو کچھ کو مسترد کیا جائے گا، کچھ پر فیصلہ نہیں ہو سکے گا کہ ٹھیک ہیں یا غلط، اور شک کا فائدہ اس صورت میں ملزم کو دیا جاتا ہے۔

ہمارا سیاسی نظام ایسا ہے کہ اس میں الیکشن لڑنے کے لئے کئی کروڑ روپے چاہیے ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے لئے انتخاب لڑنے کی قانونی حد صرف پندرہ لاکھ اور اور صوبائی اسمبلی کے لئے صرف دس لاکھ ہے۔ جیتنے والا امیدوار الیکشن کمیشن کو اپنے خرچے کا حساب بنا کر دینے کا پابند ہے جو ظاہر ہے کہ جھوٹا ہی ہوتا ہے تاکہ قانونی حد کی خلاف ورزی ظاہر نہ ہو۔ یعنی اسمبلی میں داخلے کے لئے پہلی شرط ہی یہی ہے کہ مالی بے ضابطگی کر کے یہ کیا جائے۔ جو جیتے گا ظاہر ہے کہ وہ اس پیسے کی ریکوری کرنے کے علاوہ یہ بھِی کوشش کرے گا کہ اگلے دو چار الیکشن کا خرچہ بھی اسی باری میں پورا کر لے۔ جتنا بڑا لیڈر ہو گا، اسے اتنے ہی زیادہ پیسوں کی ضرورت ہو گی۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ توقع کرنا کہ سیاسی نمائندے کرپشن نہیں کریں گے، دیوانے کا خواب ہو گا۔ ہم دیانت داری پر خواہ جتنے بھی بھاشن دیں مگر موجودہ انتخابی نظام کے ہوتے ہوئے زمینی حقیقیت یہی ہے۔ محض چند چہرے بدلنے سے نظام نہیں بدلے گا۔

ہماری رائے میں اگر کرپشن کے اس چکر سے نجات پانی ہے تو پھر تین کام کرنے ہوں گے۔ پہلا یہ کہ الیکشن لڑنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو ریاست پیسہ دے۔ اور دوسرا یہ انتخابی نظام کو متناسب نمائندگی کی شکل میں لایا جائے تاکہ ہر پارٹی کو اس کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے سیٹیں بھی ملیں اور انتخابی بجٹ بھی تاکہ وہ کالے دھن سے الیکشن نہ لڑے۔ تیسرا اہم ترین کام یہ ہو گا کہ اراکین اسمبلی کا کام صرف قانون سازی تک محدود کر دیا جائے اور ان کو کسی قسم کا ترقیاتی بجٹ نہ دیا جائے۔ یہ ترقیاتی بجٹ صرف اور صرف بلدیاتی اداروں کو دیا جائے۔ جب کونسلر کا ادارہ اہم ہو گا تو ہماری نئی قیادت بھی وہاں سے ابھرے گی اور ہم ان چہروں سے نجات پا لیں گے جو دہائیوں سے ہم پر مسلط ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں ایسے ہی نئی لیڈرشپ سامنے آتی ہے۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ سے نواز شریف کے مخالفین کو بہت توقعات تھیں جن پر بہت حد تک اس رپورٹ کے پورا اترنے کی اطلاعات ہیں۔ عدالت کے لئے اس مقدمے کا فیصلہ بہت کڑا تھا۔ یہ عوامی تاثر پیدا کیا جا رہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف صاحب کو ہٹانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان کے نواز شریف صاحب کے خلاف فیصلے اور گاڈ فادر وغیرہ جیسے تبصروں نے بھی سپریم کورٹ کے متعلق یہی عوامی تاثر پیدا کر دیا تھا کہ وہ بس حجت تمام کر رہا ہے اور شریف خاندان کو مکمل طور پر سیاست سے باہر کر دے گا۔ اب اگر آخری فیصلے میں نواز شریف صاحب کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا جاتا ہے، تو سپریم کورٹ اور اسٹیبلشمنٹ کو جس بری طرح سے مطعون کیا جائے گا، اس کا اندازہ لگانا ہو تو ڈان لیکس کے معاملے پر فوج کی جانب سے ٹویٹ واپس لئے جانے پر جنرل باجوہ کے خلاف چلنے والی مہم کو یاد کر لیں۔ اگر نواز شریف صاحب کو مجرم ٹھہرا کر وزارت عظمی سے ہٹا دیا جاتا ہے تو پھر مسلم لیگ ن کے حامیوں کی جانب سے دگنی طاقت سے ویسی ہی مہم چل سکتی ہے اور سڑکوں پر ہنگامے پھوٹنے کا خدشہ بھی ہے۔ یعنی یہ سمندر اور کھائی کے درمیان پھنسنے والا معاملہ ہے، جو فیصلہ بھی کریں برے ہی ٹھہرتے ہیں۔

ایسے میں جے آئی ٹی کی طرف سے رپورٹ پر سپریم کورٹ میں قانونی بحث کے بعد اگر ایسا سا فیصلہ آتا ہے کہ ”ہمیں شبہات تو بہت ہیں، شریف خاندان لگتا تو چور ہی ہے، مگر ہمیں اس کے خلاف کوئی حتمی ثبوت نہیں ملا، دوسرے ممالک ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہے ہیں اور ہم شریف خاندان کے بیانات پر ہی انحصار کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور ملزم کو شک کا فائدہ دینے پر مجبور ہیں۔ حتمی ثبوت کی عدم موجودگی میں سزا دینا عدالت کے بس میں نہیں ہے۔ الیکشن بھی قریب ہیں۔ اس لئے عوام کو اس مقدمے کا فیصلہ خود کرنے دیا جائے“، تو نواز شریف صاحب کی جان بخشی کر دیے جانے پر تحریک انصاف کے کارکنان کے غصے کا رخ جے آئی ٹی کی جانب ہو گا جو پکا ثبوت حاصل نہیں کر سکی۔ ایسی رپورٹ کی صورت میں جے آئی ٹی قربانی کا بکرا بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں اگر نواز شریف صاحب کے خلاف کوئی مہلک ثبوت پیش کر دیا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر ان کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جاتا ہے تو دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ اس میں مریم نواز شریف صاحبہ کو بھی مجرم ٹھہرایا جاتا ہے یا نہیں۔ اگر مریم صاحبہ بچ جاتی ہیں تو پھر شاید حالات زیادہ خراب نہ ہوں۔ مسلم لیگ ن پھر خود کو مظلوم ثابت کر کے الیکشن کی تیاری میں جت جائے گی اور اس کی پچھلے چار برس کی کوتاہیوں پر پردہ پڑ جائے گا۔ اگر مریم بھی سزا کی حقدار قرار دے دی گئیں تو اس صورت میں خدا سے خیر مانگنی چاہیے۔

پاناما کیس سے دونوں پارٹیوں کو فائدے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف مسلسل ایک برس تک مسلم لیگ ن کو گندا کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور اس کی عوامی شبیہہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کہتے ہیں کہ بد سے بدنام برا، ثبوت سے بڑا مجرم تاثر بنا ڈالتا ہے۔ تحریک انصاف اسی ایشو پر اپنی انتخابی مہم چلائے گی اور اس کیس نے اسے بے انتہا الزامی گولا بارود فراہم کر دیا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن نے نہایت کامیابی سے مریم نواز شریف صاحبہ کو جناب نواز شریف کے سیاسی جانشین کے طور پر لانچ کر دیا ہے۔ بس ایک معمولی سی اڑچن ہے کہ کہیں یہ جانشین بھی میاں صاحب کے ساتھ ہی فارغ تو نہیں کر دی جائیں گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar