پاکستان وومن کرکٹ ٹیم کو سلام


اس مرتبہ اگر صحن کے کونے کے پیچھے واقعی باورچی خانے سے بھا گ کر آؤں تو زیادہ فاسٹ با ل ہوگی۔ ذرا رن اپ بڑا ہوا تو بال بھی تیزی سے نکلی اور اڑ گئی بھائی کی وکٹ۔ آہا دیکھا! ابھی خوشی کچھ ٹھیک سے منائی بھی نہ تھی کہ نانی اماں کی آواز آ گئی۔ ان کے حضور حاضری دی تو ارشاد ہوا ”لڑکی کوئی لڑکیوں والی حرکت بھی کر لیا کر“۔ جیسے امی ابّا نے کہا تھا کہ بڑوں کے
آگے کچھ نہیں بولنا تو ارشاد سن لیا اور جیسے وقت نے سکھایا تھا کہ دوسرے کان سے فٹا فٹ نکال دینا ہے تو نکال باہر کیا اور صحن میں واپسی کی کہ اب ہماری بیٹنگ تھی۔ ”بس یار میں جا رہا ہوں گراؤنڈ میں کھیلنے“۔ بھائی نے اطلا ع دی۔ ”ویسے اگر تو لڑکا ہوتی گراؤنڈ میں لے جاتا فاسٹ بولنگ اچھی کرتی ہے“۔ ہمیں ایک بار پھر اپنے لڑکی ہونے پر خاطر خوا افسوس ہوا۔ اور اس کے ساتھ گھریلو کرکٹ کا اختتام ہوا۔ باقی کی دوپہیر دیوار پر با ل مارنے اور اس پر خود چھکے رسید کرنے میں گزری۔ تصور میں ہزاروں تماشایوں کی داد کا جواب دیا۔ کوئی 200 رن کھڑے کھڑے بنا ڈالے۔ فاسٹ بولنگ پر 6 با لوں پر 6 وکٹیں بھی لے ڈالیں۔

یہ تھی ہمارے بچپن کی دوپہریں! اس میں کوئی گڈا گڈی کا کھیل نہ تھا۔ کوئی تصوراتی شادی نہیں تھی۔ چھپن چھپائی کا بھی کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ شوق تھا تو بس کرکٹ کھیلنے کا۔ گھر میں عوام کافی تھی تو کرکٹ کی ٹیم تو بن ہی جاتی تھی۔ بتٹنگ میں تو کوئی خاص کارنامہ نہ تھا لیکن فاسٹ بولنگ کروانے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ صحن بہت بڑا تو نہ تھا لیکن بچپن کے خوابوں کے لئے چھوٹا بھی نہ تھا۔ صحن کے کونے سے رن اپ لیا تو 4 قدم کے بعد با ل کروا دی۔ جس دن ذرا زیادہ ”فاسٹ“ بولنگ کا موڈ ہوا تو کچن سے رن اپ لے لیا۔ چونکہ کچن کا رن اپ بھی کچھ لمبا نہ تھا تو 45 ڈگری پر گھوم کر کچھ بھاگنے کی کسر پوری کر لیتے تھے۔

کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ خواتین کی کرکٹ ٹیم میں ٹرائل دینا چاہیے۔ لیکن پہلی بات تو یہ کہ ہمیں تو ذرا پتہ نہ تھا کہ یہ ٹرائل کہاں ہوتے ہیں۔ دوسرے سچ بات یہ ہے کہ ہمیں زیادہ ٹھٹھا اڑوانے کا ڈر تھا۔ ”لڑکیاں کرکٹ نہیں کھیلتیں، لڑکیاں فٹ بال نہیں کھیلتیں، لڑکیوں گھر میں ماں کی مدد کرواتی ہیں۔ ارے کوئی لڑکیوں جیسے حرکت کیا کرو“۔ گھر والوں سے زیادہ مشورے باہر والوں کے تھے۔ معاشرے والوں اور رشتےداروں کو بہت فکر تھی کہ کہیں بلکل ہی لڑکا نہ بن کر رہہ جائے۔ ہم نے بھی کچھ طعنوں سے تنگ آ کر اور کچھ شرم حیا میں فرسٹ ائیر کے بعد فاسٹ بولنگ کو خیر آباد کھ دیا۔ ہاں لیکن کرکٹ دیکھنے سے ذرا دلچسپی کم نہ ہوئی۔ تعلق واسطہ تو رہا لیکن جو بھاگ کر بال کروانے میں مزہ آتا تھا وہ خوشی بھی دوبارہ نہیں ملی۔

یہ ساری باتیں اس لئے یاد آ گئیں کہ پاکستان کی وومن کرکٹ ٹیم اپنے ورلڈ کپ میں 6 کے 6 میچ ہار گئی۔ اور لگے ہیں لوگ سوشل میڈیا پر ان کا ٹھٹھا اڑانے۔ فتوے تو خیر کتنے ہی وہ جھیل چکیں ہیں۔ اب مذاق اڑانے کی ایک ڈور لگی ہے اس میں بھی قوم کہاں پیچھے رہتی ہے؟ یہاں کرکٹ کے تجزیہ نگار آپ کو بتائیں گے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ بڑا ہے لیکن آپ دیکھیں نا لڑکے بیچارے گلی محلوں میں کرکٹ کھیل کر بڑے ہوتے ہیں۔ ان کو انٹرنیشنل کرکٹ سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔ ان کو وقت دینا چاہیے آھستہ آھستہ وہ انٹرنیشنل لیول کی کرکٹ سمجھنے اور کھیلنے لگییں گے۔ کوئی اس قوم کو یہ بھی بتائے کہ بچیوں کو تو گلی محلے میں بھی کھیلنے کی سہولت میسر نہیں ہے۔ اللہ بھلا کرے وہ اپنے گھروں کے صحنوں میں کھیل لیں تو بڑا کارنامہ ہے۔

اب کچھ وقت بدلا ہے تو لڑکیوں کے کرکٹ کلب بننا شروع ہو گئے ہیں۔ ہزاروں میں سے کچھ گنی چنی لڑکیاں ہوتی ہیں جو کہ ان کلبوں میں پہنچ پاتی ہیں۔ ان کو دیکھنے آنے والے ان کے کھیل کو دیکھنے نہیں بلکہ اوریاینیت دیکھنے آتے ہیں۔ ان پر جس طرح کی آوازیں کسی جاتی ہیں اس کا شاید بہت سے تجزیہ نگاروں کو خیال بھی نہیں۔ ان حالات میں ہماری بچیاں ورلڈ کپ تک پہنچ گئیں اور ہر میچ میں جان لڑا کر لڑیں تو اس سے زیادہ ان سے کچھ مانگا نہیں جا سکتا۔ کوئی اس قوم کو یہ بتائے کہ کہ عورتوں کی ٹیم حکومت نے نہیں بلکہ 1996 میں دو بہنوں نے بنائی تھی۔ شیزہ خان اور شرمین خان کو کتنی ہی دھمکیاں ملین لیکن انھوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ کوئی اس قوم کو بتائے کہ 1997 میں حکومت نے ان کو انڈیا سے کھیلنے کی اجازت اس لئے نہیں دی کہ خواتین کا پبلک میں کھیلنا مذہب کی روح کے خلاف ہے۔ کوئی بتائے کہ 1997 سے اب تک کتنے فتوے ان پر صادر ہوے ہیں، کتنی قانونی جنگیں انھوں نے لڑی ہیں، کتنی مشکلوں سے انھوں نےتھوڑے بہت میچ کھیلے ہیں۔ اور ان سب کے باوجود انھوں نے ہمّت نہیں ہاری۔ 2 مرتبہ ایشیا کپ جیتنے پر سوائے فتووں کہ اس ٹیم کو کچھ نہیں ملا۔

مجھے آج اپنی وومن کرکٹ ٹیم سے کچھ کہنا ہے۔ مجھے آپ سے یہ کہنا ہے کہ شاید آپ ورلڈ کپ کے تمام میچ ہارنے سے دل برداشتہ ہوں لیکن آپ کو اندازہ بھی نہیں کہ آپ کے ہر میچ کے بعد یہاں کتنی لڑکیوں کا حوصلہ جیتتا ہے۔ مجھے آپ سے یہ کہنا ہے جب آپ لارڈز کے میدان میں پوری رفتار سے بھا گ کر بال کرواتیں ہیں تو باورچی خانے سے رن اپ لینے والی لڑکی کا دل آپ سے زیادہ باغ باغ ہوتا ہے۔ جب آپ ایک زور دار چھکا رسید کرتیں ہیں تو تصوراتی تماشائیوں سے داد لینے والی کسی لڑکی کا دل فخر سے بھر جاتا ہے۔ آپ خوبصورت ہیں، آپ ہمّت والی ہیں، آپ ہم سب پاکستانی عورتوں کی ترجمان ہیں۔ آپ کو سلام۔ آپ کے بھائیوں اور آپ کے والدین کو سلام جنھوں نے اس معاشرے میں آپ کو حوصلہ دیا کہ آپ وہ سپورٹس کھیلیں جو صرف مردوں کا سپورٹس سمجھا جاتا ہے۔ شیزہ خان، کرن بلوچ، سنا میر، جویریہ خان، بسمہ معروف، ناہیدہ خان، نین آبدی۔ آپ سب کو سلام۔ آپ اسی حوصلے اور ہمت سے کھیلتیں رہیں۔ وقت بدلے گا اور آپ کو بھی وہی عزت ملے گی جس کی آپ حقدار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).