ڈانسنگ گرل آف موہنجو ڈارو، واپس بھجوا دو


اب اگر کوہِ نور ہیرے کی واپسی کے مطالبے ہو رہے ہیں تو میں نے بھی ہندوستانی حکومت پر ایک مقدمہ دائر کرنا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آخر آج تک نہ ہماری حکومت کو اور نہ ہی عوام الناس میں سے کسی کو کیوں یہ خیال نہیں آیا کہ ہمارا بھی کچھ سامان ہندوستان کے پاس پڑا ہے۔ ہم نے کبھی ہندوستان سے مطالبہ نہیں کیا کہ وہ بھجوا دو۔

پاکستانی سر زمین کی سب سے شاندار سنہری پہچان قدیم ترین، گندھارا عہد سے بھی کہیں برتر وادی سندھ کی تہذیب ہے یعنی انڈس ویلی سویلائزیشن اور چونکہ مجھے اس تہذیب سے خبط کی حد تک لگاؤ ہے یہاں تک کہ اپنے ناول ’’بہاؤ‘‘ کے حوالے سے میں نے برسوں اس کی قدامت کی کھوج میں گزارے اس لیے میں اگر تفصیل میں گیا تو بات دور تک چلی جائے گی۔ مختصر یہ کہ ہڑپہ کا شہر جسے ویدوں میں ہری یوپیا کا نام دیا گیا اور موہنجو ڈارو آج سے تقریباً پانچ ہزار برس پیشتر شہری تمدن اور تہذیب کے عروج پر تھے۔ ان کی تجارتی کشتیاں راوی اور سندھ کے پانیوں پر سفر کرتیں بابل، نینوا اور مصر تک جاتی تھیں۔

فرعونوں کی حنوط شدہ لاشوں کو ململ کے جس باریک کپڑے میں لپیٹا جاتا تھا وہ ہڑپہ اور موہنجو ڈارو کے جولاہوں کی کھڈیوں پر بنا جاتا تھا۔ موہنجو ڈارو اس شہر کا نام نہیں، لوگ اس کے کھنڈروں کے قریب سے نہیں گزرتے تھے اور اسے ’’مردوں کا ٹیلہ‘‘ کہتے تھے۔ جانے اس شہر کا اصل نام کیا تھا۔ تحقیق کے دوران ایک عجیب بھید کھلا۔ اس تہذیب کو تمام کھوجیوں اور آثار قدیمہ کے ماہروں نے ’’ہڑپہ تہذیب‘‘ کا نام دیا لیکن ازاں بعد خاص طور پر پاکستان کے قیام کے بعد اسے وادی سندھ کی تہذیب قرار دیا گیا۔ میں نے اس عہد کے بارے میں جتنے بھی تحقیقی مقالے پڑھے ان سب میں اسے ’’ہڑپہ تہذیب‘‘ کہا گیا تو پھر یکدم اسے صرف وادی سندھ سے کیوں منسوب کر دیا گیا۔ اس تہذیب کے کچھ آثار ہندوستان کے رَن آف کچھ میں بھی پائے جاتے ہیں خاص طور پر کالی بنگن کی بندرگاہ کے کھنڈر۔ پچھلے برس سندھ کے سفر کے دوران میں لاڑکانہ گیا۔ موہنجو ڈارو گیا۔ مجھے شرمندگی ہے کہ میں نے ’’بہاؤ‘‘ اور ’’دھند کے پیچھے شہر تھا‘‘ جب لکھے تو محض تحقیق اور تصور کو بروئے کار لا کر اس اجڑ چکے شہر کو زندہ کیا۔ مجھے طمانیت اس لیے ہوتی کہ جب میں نے موہنجو ڈارو کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو یہ وہی شہر تھا جسے میں نے تصور کی اینٹوں سے تعمیر کیا تھا، صرف ایک فرق کے ساتھ۔ کہ یہ ایک سرخ شہر تھا۔

ہر جانب غروب کی سرخی میں رنگی پانچ ہزار برس پرانی اینٹیں تھیں۔ موہنجو ڈارو کو سب سے پہلے ایک ہندو ماہر آثار قدیمہ نے دریافت کیا اور پھر سر جان مارشل نے اسے کھود نکالا۔ اس کی شہرت ایسی تھی کہ جب پاکستانی سوبھوگیان چند، رابندرناتھ ٹیگور کی مشہور عالم یونیورسٹی ’’شانتی نکیتن‘‘ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئے تو ٹیگور نے پوچھا، کہاں سے آئے ہو؟ سو بھو نے کہا ’’لاڑکانہ، سندھ سے‘‘ تو ٹیگور کہنے لگے ’’یو آر اے مین فرام موہنجو ڈارو‘‘۔ اور بعد ازاں وہ اسی لقب سے پہچانے گئے۔ یہ وہی آں جہانی پاکستانی ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ۔ میرے تین جرم ہیں۔ میں ہندو ہوں۔ میں سندھی ہوں اور میں کمیونسٹ ہوں۔ وادی سندھ کی قدیم تہذیب کی اہم ترین پہچان میں تین مظاہر ہیں۔ موہنجو ڈارو کے کھنڈروں میں سے برآمد ہونے والی مہریں۔ جن پر درج تحریر کو آج تک پڑھا نہیں جا سکا۔ گرنیڈ پریسٹ کا چھوٹا سا مجسمہ اور سب سے بڑی علامت، ڈانسنگ گرل۔ بالشت بھرکا کانسی کا مجسمہ۔ موہنجو ڈارو کی مہریں کب کی عجائب گھر سے چوری ہو چکیں اور اب وہاں ان کی نقلیں نمائش پر ہیں۔ گرنیڈ پر یسٹ کا مجسمہ جس نے آج کی اجرک کے پھول بوٹے ادڑھ رکھے ہیں البتہ کہیں محفوظ ہے لیکن۔ ڈانسنگ گرل آف موہنجو ڈارو جسے میں نے اپنے افسانے میں سندھیا کا نام دیا ہے ہمارے پاس نہیں ہے۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ 1947ء کے لگ بھگ دلی میں وادی سندھ کی تہذیب اور موہنجو ڈارو کے حوالے سے نوادرات کی ایک بین الاقوامی نمائش کا انعقاد ہوا۔ پورے ہندوستان سے اس تہذیب کے نمونے منگوائے گئے اور ان میں ڈانسنگ گرل کا مجسمہ بھی تھا۔ اُنہی دنوں برصغیر تقسیم ہو گیا اور وہ وادی سندھ کی تہذیب کی سب سے بڑی پہچان، بالشت بھر کی رقاصہ وہیں دلی رہ گئی۔ کبھی واپس اپنے موہنجو ڈارو نہ آئی۔ ہندوستان نے اُسے واپس نہ کیا۔ کشمیر کی مانند اُس پر بھی قبضہ کر لیا۔

کوئی اور مطالبہ کرے نہ کرے، کم از کم میں ہندوستانی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ہماری رقاصہ کو واپس کر دے۔ وادی سندھ کی تہذیب کا گنگا جمنی تہذیب سے کچھ جوڑ نہیں، وہ ڈانسنگ گرل وہاں بے گھر ہے، اسے براہ کرم اپنے گھر واپس بھیج دیا جائے۔ وہ یقیناًاپنے موہنجو ڈارو کے لیے اداس ہو چکی ہو گی، ایک اداس لڑکی کو واپس گھر بھیجنے سے بہت ثواب ہو گا۔
کوئی اور منتظر نہ ہو کم از کم میں اس کی واپسی کا منتظر ہوں۔

اگرچہ کسی سیانے نے کہا تھا کہ لوٹی ہوئی دولت اور اغوا شدہ عورت کو کبھی واپس نہیں کیا جاتا۔ انہیں طاقت سے حاصل کیا جاتا ہے۔
مجھ میں طاقت کہاں، میں تو صرف خواہش کر سکتا ہوں کہ میری ڈانسنگ گرل واپس ہو جائے۔ میرا کچھ سامان ہندوستان کے پاس پڑا ہے۔ ایک منحنی ناچہ لڑکی۔ اسے بھجوا دو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar