بارے صومالی قزاقوں کا کچھ بیاں ہو جائے


دوستو، صومالیہ سے ایک بار پھر آداب اور طویل غیر حاضری کے لیے معذرت۔ سبب اس کا عجب ٹھہرا۔ ہوا کچھ یوں کہ عید کی چاند رات کو کسی سمندری جہاز نے صومالیہ کے ساحل سے کوئی تین میل دور لنگر ڈالنے کی کوشش کی جو شومئی قسمت سے زیر زمین اس تار میں الجھ گیا جس کے توسط سے ملک کا وسطی اور جنوبی حصہ انٹر نیٹ سے منسلک ہے۔ زور آزمائی کے نتیجے میں یہ تار ٹوٹ گیا اور صومالیہ کے اکثر حصے دنیا سے انٹر نیٹ کے رابطے سے محروم ہو گئے۔ ہمارے آجر جیسے مرفہ الحال اداروں نے تو جوں توں کر کے مصنوعی سیاروں سے انسلاک کر کے دو تین روز میں کچھ حد درجے مہنگا اور سراسر کام چلاؤ قسم کا ارتباط بہ حال کروا لیا مگر صومالیہ کے اکثر حصے اب تک کٹے ہوے ہیں۔ عید کی چھٹیوں کے بعد صومالیہ کی مرکزی حکومت نے جنوبی افریقہ کے کسی نجی ادارے سے مدد کی درخواست کی جس نے ایک امدادی سمندی جہاز بھیجنے کا عندیہ بھی دیا مگر مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے کہ مبینہ طور پر ایک تو یہ کمزور حکومت ادارے کی خدمات ادھار پر مانگ رہی تھی دوسرے افواہ گرم تھی کہ کچھ اس مرمّتی سودے پر کمیشن خوری پر بھی جھگڑا ہے۔ اب خدا خدا کر کے سلطنت عمان کی ایک کمپنی سے معاملہ پٹا ہے تو ایک امدادی جہاز ساحل پر لنگر انداز ہوا ہے۔ مگر دو روز سے سمندر میں شدید مد و جزر کے سبب اب تک غوطہ خور کام کا آغاز نہیں کر پائے۔

ایسے حادثات دنیا بھر کے سمندروں میں رونما ہوتے رہتے ہیں مگر ان کی شرح اور ان کے نتیجے میں ہونے والے تعطل میں کمی آئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ کہ دنیا کی حکومتوں نے اپنے سواحل کے اطراف میں ان علاقوں کی نشان دہی کر رکھی ہے جہاں بھاری سمندری جہازوں کا گزر ممنوع ہے تاکہ حساس تنصیبات محفوظ رہیں۔ صومالی حکومت کی عمل داری بر سرِ زمین تو محدود ہے ہی، سمندروں میں محض نام کی بھی نہیں۔ تین دہائیوں سے پیشتر سے جاری خانہ جنگی کے بعد حال ہی میں وجود میں آنے والے ریاستی ڈھانچے کو ابھی حقیقی ریاست بننے تک کوسوں طویل سفر در پیش ہے۔

سواحل پر حقیقتاً غیر موجود ریاستی عمل داری کا سب سے مشہور یا بدنام حوالہ صومالی بحری قزاق ہیں۔ متعدد مواقع پر پاکستانی جہازیوں کے ان قزاقوں کے ہتھّے چڑھنے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی سعی اور تاوان کی ادائیگی کے بعد ان کی گلو خلاصی کے واقعات قارئین کے ذہن میں ہوں گے۔ ہالی ووڈ کی فلموں مثلا ”کیپٹن فلپس“ نے صومالی بحری قزاقوں کی سفّاکی کے تاثر کو مزید تقویت بخشی ہے۔ اگر آپ صومالیہ کے نقشے کو دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ اس کی شکل کچھ انگریزی عدد ”سات“ کی سی ہے۔ اس کے اوپری افقی حصے پر محیط دو صوبوں، صومالی لینڈ اور پنٹ لینڈ نے بالترتیب مکمل اور اندرونی خود مختاری کا اعلان کر رکھا ہے، مگر رسمی طور پر اب تک اقوام متحدہ کے کسی رکن ملک نے، خصوصا صومالی لینڈ کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا۔ اس افقی حصے کے شمال میں بحرِ احمر واقع ہے جب کہ نچلے عمودی حصے کو ساتھ بحرِ ہند کا ساحل ہے۔ اس لحاظ سے صومالی ساحل پورے افریقہ میں سب سے طویل ہے۔

اس ”سات“ کی اوپری یعنی شمال مشرقی نوک ایک آبنائے پر واقع ہے جس کی دوسری جانب کوئی اٹھارہ میل کے فاصلے پر یمن کا ساحل ہے۔ اس آبنائے کو ”باب المندب“ کہا جاتا ہے اور بحرِ ہند اور بحرِ احمر کے درمیان سفر کرنے والے تمام جہازوں کو اس سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسی سبب یہ دنیا بھر میں بحری قزاقی کے لیے سب سے آسان شکار گاہ مانی جاتی ہے جس کے ہر دو سمت شدید بحران کے شکار ممالک صومالیہ اور یمن واقع ہیں۔ اس خادم کو اس امر پر حیرت تھی کہ قزاقی کے واقعات آخر اس صدی کی ابتدا سے ہی کیوں اس قدر تواتر اور کثرت سے رونما ہونے شروع ہوئے۔ کچھ پوچھ تاچھ کی تو ایک بھیانک حقیقت سامنے آئی جو بظاہر کسی ”نظریہ سازش“ سے کم نہیں مگر اس کے شواہد اظہر من الشّمس چنانچہ ناقابل تردید ہیں۔

ہوا کچھ یوں کہ یورپی اور اکثر ایشیائی سمندروں میں ماحولیاتی اور تجارتی پابندیوں کے سبب وہاں ٹرالر کی مدد سے ماہی گیری کا کاروبار اس قدر منافع بخش نہ رہا جتنا کبھی ہوا کرتا تھا۔ ایسے میں کچھ مشرقی ایشیائی اور کچھ یورپی ممالک کے ٹرالر والوں کو اس ملک کا خیال آیا جو طویل خانہ جنگی کے باعث اپنی زمین اور پانیوں پر نظر رکھنے کا اہل نہ رہا تھا۔ چنانچہ ”اللہ دے اور بندہ لے“ کے مصداق بھانت بھانت کے ماہی گیر جہازوں نے اپنے دیگر دنیا میں غیر قانونی قرار دیے گئے تنگ سوراخوں والے جالوں کے ہمراہ یہاں کا رخ کیا اور رفتہ رفتہ سمندر آبی مخلوق سے خالی ہونے لگا۔ مبینہ طور پر زہریلے صنعتی مواد کو ٹھکانے لگانے والوں کو بھی یہ لاوارث سمندر سجھائی دے گیا اور انہوں نے بنا روک ٹوک اس میں خطرناک فضلہ پھینکنا شروع کر دیا۔ چنانچہ جلد ہی مقامی ماہی گیروں کی جان پر بن آئی کہ ان کا ذریعہ معاش ہی نہیں، خوراک کا اہم ذریعہ بھی ناپید ہو چلا تھا۔ ایسے میں کچھ مقامی نوجوانوں نے ہمت پکڑی اور غیر قانونی ماہی گیری کرنے والوں کے جہازوں کے قریب جا کر ان سے باز پرس شروع کر دی۔

جہازیوں نے ابتدا میں چند سو ڈالر دے کر ان کا منہ بند کر نے کی کوشش کی مگر جلد ہی صومالی ماہی گیروں کو اندازہ ہو گیا کہ اس دھندے میں مزید لمبا مال پانی کمانے کی گنجائش ہے۔ سو، اوّل اوّل تو ٹرالروں سے لئے جانے والے ”محصول“ میں اضافہ ہونا شروع ہوا اور پھر اغوا برائے تاوان نے ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ حاصل کر لیا۔ قزاق حضرات اپنی لوٹ مار کی کمائی سے داد دہش کر کے مقامی نوابوں کا درجہ حاصل کر گئے، اور ملک کی ”حفاظت“ کا سہرا الگ ان کے سر بندھا۔ جب جہاز رانی کی صنعت کا قزاقی کے سبب خسارہ سالانہ اربوں ڈالر کی حدود چھونے لگا تو ایک بین الاقوامی ”ردِّ قزاقی“ فوجی متحدہ محاذ بنایا گیا جس کا واحد مقصد اس آبنائے سے گزرنے والے جہازوں کی آمد و رفت کو محفوظ بنانا تھا۔ دنیا کے اکثر ممالک، بشمول پاکستان نے اس کام میں اپنی بحریہ کا حصہ ڈالا۔ دوسری جانب قزاقوں کو متبادل روزگار اور ہنر فراہم کرنے کے ایک منصوبے کا ڈول ڈالا گیا جس سے اس میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔

یہ بین الاقوامی معاہدہ قزاقی کو تو واشگاف الفاظ میں سنگین جرم قرار دیتا ہے مگر غیر قانونی ماہی گیری اور زہریلے مواد کے اتلاف کے بارے میں مکمل خاموش ہے۔ نہ ہی اس میں حساس ساحلی علاقوں کی حفاظت کی کوئی شق موجود ہے۔ ہمارے کلبیت پسند صومالی دوست سمجھتے ہیں کہ یہ خاموشی اتفاقی نہیں بلکہ ارادی ہے اور اس کا مقصد محض امیر ممالک کی امیر جہاز ران کمپنیوں کا تحفظ ہے، جب کہ غیر قانونی ماہی گیروں کی جانب سے چشم پوشی بھی اس کا غیر علانیہ ہدف ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی بحری بیڑے صومالی ماہی گیروں کی چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی تلاشی تو خوب تن دہی سے لیتے ہیں مگر سرِ عام غیر قانونی شکار کرتے ٹرالروں کو کچھ نہیں کہتے کہ یہ ان کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ نتیجتاً، قزاقی کا دھندا پھر سے سر اٹھانے لگا ہے اور ماضی قریب میں دو تین بڑے بڑے واقعات ہوے ہیں۔ جب تک عالمی برادری اس مسئلے کو اس کے کلّی تناظر اور مربوط انداز میں نہیں دیکھے گی، یہ نالے بار بار راہ نہ پا کر چڑھتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).