شریر سیاسی بچے اور ڈنڈے کا ڈسپلن


استاد جی بہت ہی محنتی شخص تھے۔ وہ اپنا کام بہت محنت اور دھیان سے کرتے تھے اور بچوں سے بھی یہی توقع کرتے تھے کہ وہ ان کے گھر کا کام اتنے ہی دھیان اور محنت سے کریں۔ استاد جی صبح سویرے سکول پہنچ جاتے اور اس بات پر زور دیتے کہ سارے بچے وقت پر سکول پہنچیں، خاص طور پر بڑے لڑکے، جنہوں نے فورا ہی کام پر جانا ہوتا تھا۔ ڈسپلن پر تو استاد جی کا بہت ہی زور تھا۔

سکول کا پہلا کام بچوں کو اس دن کی ذمہ داریاں بتانا ہوتا تھا۔ بڑے بچوں کو بلا کر دن کے کام ان کے ذمے کر دیے جاتے۔

کوئی درجن بھر بچے استاد جی کے ڈھور ڈنگرو کے لیے چارا کاٹنے چلے جاتے۔ ان کا کام چارا کاٹنا، اسے سے سروں پر اٹھا کر استاد جی کے گھر پہنچانا اور گھر میں بندھے ہوئے ڈھور ڈنگروں کے آگے ڈالنا ہوتا تھا۔ اس کام کا مقصد بچوں کو جانور پالنے کا ہنر سکھانا ہوتا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ بچوں کو جانوروں کے حقوق کے بارے میں بھی آگاہی ہو جاتی تھی۔ بچوں کو خوب علم تھا کہ استاد جی کے گھر میں کھونٹوں پر بندھی ہوئی گائے اور بھینسوں کا خوراک کا حق بہت اہم ہے اور اس میں اگر کبھی سستی ہو جائے تو وہ بچوں کو بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ اور استاد جی چونکہ بہت ہی رحم دل شخص تھے اس لیے وہ اپنے گھر میں بندھے ہو جانوروں کا بہت خیال رکھواتے تھے اور ان کا چارا لیٹ ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس لیے استاد جی نے جانوروں کے خوراک کے حق اور بچوں کے فرض کو ڈنڈے سے جوڑ دیا تھا۔

کچھ بچے گاؤں کے سروے پر بھیج دیے جاتے۔ وہ ہر اس گھر جاتے جنہوں نے دیسی مرغیاں پال رکھی ہوتی تھیں۔ بچے ان گھروں سے استاد جی کے لیے انڈے خریدتے اور نہایت احتیاط کے ساتھ سکول واپس آ کر استاد جی کے حوالے کرتے دیتے۔ استاد جی یہ انڈے قریبی چھوٹے قصبے کے دکانداروں کو سپلائی کرتے تھے۔ یہ بہت ہی نیکی کا کام تھا اس سے بچے کاروبار کرنا سیکھتے تھے۔ مرغیاں پالنے والوں اور استاد جی کی آمدنی میں اضافہ ہوتا۔ شہری لوگوں کو انڈے مہیا ہو جاتے تھے۔ پوری سپلائی چین فائدے میں تھی۔

استاد جی کی محبت صرف گائے بھینسوں یا شہری باشندوں تک محدود نہ تھی بلکہ تیتر اور بٹیر بھی انہیں بہت پسند تھے اور ہم نے کبھی بھی انہیں ان کے بغیر نہیں دیکھا۔ کم از دو بٹیر تو وہ سکول بھی ساتھ لاتے تاکہ بچوں کے دلوں میں پرندوں کی محبت پیدا کی جا سکے۔ وہ ان بٹیروں کی خوراک کا بھی بہت خیال رکھتے اور اس میں کسی قسم کی سستی یا کوتاہی کا تو سوال پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ استاد جی کے بٹیروں کو کھانے میں دیمک مرغوب تھی۔

ہر روز چند بچوں کی ڈیوٹی لگ جاتی کہ وہ جائیں اور دیمک ڈھونڈ کر لائیں تاکہ بٹیروں کو ان کی مرضی کا کھانا مل سکے۔ بچوں کو چونکہ استاد جی نے بہت محنتی بنا دیا تھا وہ جاتے اور دیمک ڈھونڈ ہی نکالتے۔ بٹیرے جی بھر کر پیٹ پوجا کرتے اور استاد جی کو دعائیں دیتے۔ بتاتا چلوں، یہ نیم پہاڑی علاقہ تھا اور باہر کھیتوں اور چراگاہوں میں ہر جگہ بالشت برابر یا اس سے کچھ بڑے سائز کے پتھر پھیلے ہوتے ہیں۔ استاد جی نے سب بچوں کو سکھا دیا تھا کہ ان پتھروں کو باری باری الٹ کر دیکھتے جائیں تو ان کے نیچے اکثر دیمک مل جاتی ہے۔ بچے اس ہنر میں بھی طاق ہو گئے اور یوں استاد جی کے بٹیروں کو ان کی مرضی کی خوراک میسر رہتی۔

اچھا کام کرنے والے بچوں کا استاد جی خوب خیال رکھتے تھے۔ جانوروں کو خوراک ڈالنے کے بعد بچے سیدھے سکول آتے اور آ کر رپورٹ پیش کرتے۔ اس کے بعد بچوں کو دن کا باقی حصہ اپنی مرضی سے گزارنے کا موقع مل جاتا۔ پڑھائی لکھائی جیسے مکروہ کام میں پڑنے کی کوئی پابندی نہیں تھی۔

استاد جی کے سکول کا ایک نام اور مقام تھا۔ جو استاد جی کو بہت پسند تھا اور وہ اس پر خود فخر کرتے اور دوسروں کو ایسا کرنے کی ہر طرح سے ترغیب دیتے۔ استاد جی کے لیے سکول بہت اہم تھا سارے کاروبار اسی سے چلتے تھے۔ استاد جی کے کچھ دوست بھی سکول اور استاد کی عزت اور حرمت کے بارے میں لوگوں کو آگاہ رکھتے تھے۔ استاد جی خود اعتمادی کا اظہار کرنا جانتے تھے۔

اکثریت قائل تھی کہ استاد جی کی با رعب شخصیت کے بغیر سکول تباہ ہو جائے گا۔ آس پاس کے گاؤں کے سکولوں کے اساتذہ کو یہ مقام حاصل نہ تھا۔ کیونکہ وہ بچوں کو صرف پڑہانے لکھانے میں لگائے رکھتے تھے اور ان کے بچے عملی طور پر کوئی ہنر جیسا کہ گھریلو جانور پالنا، انڈوں کا کاروبار کرنا یا بٹیروں کے حقوق کا خیال رکھنا نہیں سیکھ پاتے تھے۔ استاد جی کو یقین تھا کہ بچے اور ان کے والدین کسی وجہ سے ہی ان پر فخر کرتے تھے۔

استاد جی ڈسپلن کے بہت قائل تھے۔ ڈسپلن کی خامی کبھی معاف نہ کرتے تھے۔ اور ڈسپلن میں کسی بھی خرابی کرنے والوں کو ایسا سبق سکھاتے کہ صرف وہی بچہ نہیں تمام حاضرین بھی عبرت پکڑتے اور پھر کئی ہفتے تک ڈسپلن کی کوئی خلاف ورزی نہ ہوتی اور استاد جی اپنے کاروبار سکون سے چلاتے۔

معمول کے کاموں کے علاوہ استاد جی کبھی کبھی ایسے بچوں پر بھی شفقت فرماتے جن کے والدین خاص ہنر کے مالک ہوتے جیسے ترکھان وغیرہ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ استاد جی کو اپنا گھر صوفوں سے سجانے کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے اپنے کھیت میں سے بیری کا ایک درخت کٹوایا اور بیری کی لکڑی سے صوفے بنانے کا کام اپنے ایک شاگرد کے حوالے کیا جس کے والد صاحب گاؤں میں ترکھان کا کام کرتے تھے۔ صوفے بنانے کیا آرڈر ملنے سے صوفے بننے تک سکول میں ترکھان کے بچے کا وقت بہت اچھا گزرا۔ استاد جی کی پشت پناہی حاصل تھی کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔

ترکھان نے جو صوفے بنائے ان کی شکل اس سے کافی مختلف تھی جیسے استاد جی نے شہر میں اپنے کسی جاننے والے کے گھر میں دیکھے تھے۔ ان نئے صوفوں کی شکل لکڑی کے سٹول اور بے رنگ پیڑھے کا مکسچر سا تھی۔ استاد جی خوش نہ تھے اور ترکھان اور اس کے بچے کو سبق سکھانا چاہتے تھے۔

استاد جی ترکھان کے بچے کو حساب کا ایک سوال حل کرنے کو دیا۔ ترکھان کا بچہ سوال حل نہ کر سکا تو استاد جی نے بچوں کا ڈسپلن ٹھیک کرنے والا ڈنڈا منگوایا اور ترکھان کے بچے کو حساب کا سوال ٹھیک حل نہ کر سکنے کی سزا دی۔ درد اور خوف کے مارے بچہ زور سے چیخا اور گڑگڑا کر معافی مانگنے کی کوشش کی۔ استاد جی نے ترکھان کے بچے کی گردن پر پاؤں دبایا اور بھرپور اعتماد سے کہا کہ“۔ صوفے بھلا ایسے ہوتے ہیں“۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik