ایبٹ آباد کے سبزہ زار عوام سے چھینے جا رہے ہیں


کامرس کالج آف منیجمنٹ سائنسز گراونڈ (ایبٹ آباد) میں تعمیرات کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی حکومت نے احکامات جاریکیے ہیں کہ ’’کھیلوں کی سہولیات کم نہ کی جائیں‘‘ لیکن یہ اسٹینڈنگ آرڈ نہیں بلکہ صرف اور صرف کامرس کالج گراونڈ تک محدود ہیں۔ فیصلہ سازوں کو اہمیت اور تحریک انصاف کے انتخابی منشور کو سمجھنا ہوگا جس میں صوبے کی ہر یونین کونسل میں کھیلوں کا میدان بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن چار سالہ کارکردگی گواہ ہے کہ نہ صرف ہر یونین کونسل میں کھیل کا میدان بنانے کا وعدہ ایفاء نہیں ہو سکا بلکہ اجتماعی طور پر جائزہ لیا جائے تو پہلے سے موجود کھیل کی سہولیات کے معیار میں کمی آئی ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت ہی کے فراہم کردہ مالی وسائل (فنڈز) سے کامرس کالج کی عمارت کے وہ حصے زیرتعمیر ہیں جو دوہزار پانچ اور بعدازاں موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے جنہیں ازسرنو تعمیر کرنا تھا لیکن بوسیدہ عمارت مسمار کرنے کی بجائے کھیل کے میدان کا ایک حصہ استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ یاد رہے کہ ایبٹ آباد شہر کے تین سرکاری کالجوں (گورنمنٹ ڈگری کالج نمبر ون‘ ٹو اور پولی ٹیکنیکل کالج) کے علاوہ کھیل کود کے میدان (گراونڈ) نہیں جہاں نوجوان جسمانی کسرت اور دیگر صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔ تعجب خیز امر ہے کہ ایبٹ آباد کی مقامی آبادی یا سیروتفریح کے لئے ہرسال آنے والے دس لاکھ سے زائد سیاحوں کے لئے نہ تو باغات ہیں اور نہ ہی قیام و طعام‘ مستقل و عارضی پارکنگ اور رہنمائی کا مستقل بندوبست دکھائی دیتا ہے۔ اگر بارہ جولائی کے روز الیکٹرانک میڈیا (اے آر وائی نیوز) پر خبر نشر نہ ہوتی تو کامرس کالج گراونڈ کے ایک بڑے حصے پر دیوہیکل عمارت کھڑی ہو چکی ہوتی اور یوں ایبٹ آباد ایک ایسے اہم میدان سے محروم ہو جاتا جو بیک وقت کھیل کود‘ جنازہ مسجد‘ سیاسی وغیرسیاسی اور دیگر اجتماعات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

ایبٹ آباد خیبرپختونخوا کا صحت افزأ مقام ہی نہیں بلکہ ’’سیاحتی و تجارتی گیٹ وے‘‘ بھی ہے۔ یہیں سے گزرنے والی شاہراہ ریشم (قراقرم) شمالی علاقوں سے ہوتے ہوئے عوامی جمہوریہ چین تک چلی جاتی ہے جبکہ گلیات کی جنت نظیر وادیاں اور (آزاد) کشمیر تک رسائی کے لئے فوجی و سول استعمال کے لئے بھی ایبٹ آباد ہی سے گزرنا پڑتا ہے۔ دیگر شہروں سے آنے والوں کو ایبٹ آباد کے درجۂ حرارت کا فرق ’حویلیاں‘ سے گزرتے ہی محسوس ہونے لگتا ہے لیکن مسلم آباد چیک پوسٹ (یونین کونسل سلہڈ) کے راستے شہر میں داخل ہونے والوں کو پرہجوم ٹریفک کی وجہ سے اعصاب شکن انتظار کی زحمت ایسا پہلا استقبال ہوتی ہے‘ جو طویل مسافت کے بعد منزل کے قریب پہنچنے اور موسم کا لطف اٹھانے جیسی راحت پر حاوی ہوجاتی ہے۔ رواں برس ضلعی انتظامیہ نے ٹریفک پولیس کے ذریعے نہایت ہی چھوٹے اور نمائشی پیمانے پر چند ایک سہولیات متعارف کرائیں جن کے خاطرخواہ نتائج اِس لئے بھی برآمد نہ ہوسکے کیونکہ سیاحوں کی آمدورفت سے متعلق اندازے اِس مرتبہ بھی غلط ثابت ہوئے!

ایبٹ آباد کے ’لیڈی گارڈن‘ کا سات کنال پر مشتمل حصہ جون دوہزار سولہ سے نجی ادارے کی ملکیت ہے اور اِس اجارے (لیز) کی ہر سطح پر مخالفت ہونے کے باوجود بھی متنازعہ عمل کرنے والی کنٹونمنٹ انتظامیہ نے اپنے فیصلے سے رجوع نہیں کیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بندوق کے سامنے سوال کرنے کی جسارت کون کر سکتا ہے!؟

بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ’لیڈی گارڈن‘ نامی سبزہ زار حکومت پاکستان کے وسائل سے وقف اور تعمیر ہوا جو کسی انتظامیہ نے ’باپ کی جاگیر‘ سمجھتے ہوئے ’منظورنظر نجی ادارے‘ کو سالہا سال اجارے (لیز) پر دے دیا؟ کیا فیصلہ ساز اپنے باپ دادا سے ملنے والے ورثے یا اپنی ذاتی ملکیت کے کسی حصے کو بھی یوں اجارے پر دیتے؟ تصور کیجئے کہ یکم جون دوہزار سولہ سے اکتیس مئی دوہزار اکیس تک کے عرصے کے لئے ’لیڈی گارڈن‘ گوبل انٹرنیشنل ایبٹ آباد نامی ادارے کو اجارہ کی گئی جس کے دستاویزی عزائم ’جوائے لینڈ‘ کچھ اس انداز میں تعمیر کرنے کے تھے کہ سبزہ زار کو نقصان نہیں پہنچے گا لیکن ٹنوں سیمنٹ اور لوہے نے زرخیز ’لیڈی گارڈن‘ کو بنجر کر کے رکھ دیا ہے! آخر ایسا کونسا مالی بحران تھا کہ سالانہ ’18لاکھ روپے‘ کے عوض ایبٹ آباد کا واحد اور سب سے بڑے سبزہ زار کا بڑا حصہ یوں فروخت کرنا پڑا؟ افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ باوردی فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کرداروں کے غلط فیصلوں کی قیمت وہ آنے والی نسلیں اُتاریں گی‘ جن کے لئے ایبٹ آباد عارضی قیام گاہ یا وقتی گزرگاہ نہیں بلکہ آبائی اور مستقل ٹھکانہ ہے۔

تصور کیجئے کہ جب ’لیڈی گارڈن‘ متوسط و غریب آمدنی رکھنے والے طبقات اپنے اہل وعیال اور بچوں کے ساتھ چند سکون کی گھڑیاں تلاش کرتے پڑاو کرتے ہوں گے اور جب برقی جھولے کی جانب متوجہ بچوں کی ضد کے آگے خود کو بے بس پاتے ہوں گے جب مہنگے جھولوں کی جانب والدین اور بچے باوجود کوشش بھی اپنی نظریں اٹھنے سے نہ روک سکتے ہوں گے تو اُن بیچارے والدین کے دل اور بچوں پر کیا گزرتی ہوگی جو بلاقیمت صرف رنگ برنگے جھولوں پر حسرت کی نگاہ ہی ڈال سکتے ہیں! کنٹونمنٹ بورڈ ایبٹ آباد کے دانشورانہ عمل سے ’لیڈی گارڈن‘ اعصابی سکون کی تلاش میں آنے والوں کو بھی شدید مایوسی ہوئی جن کے لئے جھولوں سے پیدا ہونے والا شور اور تجارتی سرگرمی کسی بھی صورت نہ تو اِس سبزہ زار کے شایان شان ہے اور نہ ہی اِس سے باغ میں فراہم کردہ سہولیات میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں صفائی کی صورتحال ابتر تھی سو آج بھی ہے۔ پینے کے پانی اور بیت الخلأ کی سہولیات کو فعال نہیں کیا جاسکا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح پشاور کے باغات اور سبزہ زاروں پر نجی اداروں کی اجارہ داری دہائیوں سے ختم نہیں کی جا سکی بالکل اِسی طرح ’لیڈی گارڈن‘ کا حصہ بھی اہل ایبٹ آباد کو کبھی واپس نہیں مل سکے گا!

رواں ہفتے ’کامرس کالج گراونڈ‘ پر تعمیرات کا آغاز ایک ایسی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے‘ جس کے نزدیک حکومتی وسائل‘ قدرتی ماحول کا تحفظ اور صحت مند سہولیات کی فراہمی کوئی ترجیح نہیں۔ اگرچہ فوری طور پر تعمیراتی کام روک دیا گیا ہے لیکن چند دنوں کے تعمیراتی کام نے کامرس کالج گراونڈ کو کھود کر رکھ دیا ہے جسے دوبارہ سے ہموار اور قابل استعمال بنانے کے علاوہ شجرکاری‘ بیٹھنے کے لئے سایہ دار و پرسہولت جگہوں کی تعمیر اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے الگ سے مالی وسائل کی ضرورت ہے اور چونکہ موجودہ صوبائی حکومت کی آئینی مدت کا یہ آخری سال (درحقیقت آخری موقع) کا ترقیاتی بجٹ (اے ڈی پی) میں ایسے کسی منصوبے کے لئے پیشگی مالی وسائل مختص نہیں‘ اِس لئے ’اہل ایبٹ آباد کو نوید‘ ہو کہ وہ جناح آباد سے متصل ’’کامرس کالج گراونڈ‘‘ جہاں زمانہ طالب علمی یا حال میں طلباء استفادہ کرتے رہے ہیں اُس کے سایہ دار و پھل دار درختوں اور گراونڈ سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئے ہیں!

شبیر حسین امام

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شبیر حسین امام

شبیر حسین امام کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے اور وہ اپنے علاقے کے مسائل کے بارے میں لکھنا پسند کرتے ہیں

shabbir-hussain-imam has 3 posts and counting.See all posts by shabbir-hussain-imam