محبت کی گٹھڑی میں بندھی چند مسکراہٹیں


اشکومن کی لہروں پر جب سورج کی کرنیں پڑتی ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دیوالی کی رات ہو۔ ہزاروں چراغ جھلملا اٹھتے ہیں۔ کچھ کرنوں نے اس کے چہرے کو بھی منور کر رکھا تھا۔ معلوم نہ ہو سکا کہ دھوپ کی تمازت ہے، دیوالی کے چراغ ہیں یا من میں سلگتے انگاروں کی سرخی۔ سامنے پہاڑ پر صدیوں پرانے شاہراہ ریشم کی پگڈنڈی کے آثار نظر آ رہے تھے۔ راستے منزلوں کا نشان ہوتے ہیں۔ کسی منزل کی تلاش میں ہم بھی اشکومن کے کنارے پڑے پتھروں پر بیٹھے تھے۔ صدیوں پہلے شاید نروان تلاش میں بھٹکتے بھکشو انہی پتھروں پر بیٹھے ہوں گے۔

اس نے دریا میں ایک کنکر اچھالا اور دور سے آتی محسوس ہوتی مدہم آواز میں پوچھا۔ محبت کیا ہوتی ہے؟ لمحہ بھر کو خیال آیاکہ محبت تو دریا کے کنارے بیٹھے بھکشو کے چہرے پر موجود نور کو کہتے ہیں۔ کچھ خیال مگر جھٹک دینے ہوتے ہیں۔ جھٹک دیا۔ محبت اس گرم دھوپ میں برف پوش پہاڑوں سے آتی اس خنک ہوا کا نام ہے۔
ایک ہلکی سی آواز آئی۔ اور؟

دیکھو دریا کے کنارے درجنوں رنگوں کے ہزاروں خودرو پھول کھلے ہیں۔ ان پھولوں کو گھنٹوں دیکھتے رہنے کا نام محبت ہے۔ اور؟ وہ دیکھو سامنے بچے کھیل رہے ہیں۔ ان میں سے کئی بچوں کے چہروں پر ہنسی ہے۔ اسی ہنسی کو محبت کہتے ہیں۔ اور؟ بابا جب بوڑھے ہو گئے تھے تو میں نے مری کے مال روڈ سے کسی اچھی لکڑی سے بنی ایک لاٹھی خریدی تھی۔ مرتے دم تک بابا اس لاٹھی کے سہارے چلتے رہے۔ اس لاٹھی میں موجود بابا کی لمس کا نام محبت ہے۔ اور؟ میں بہت چھوٹا تھا۔ اتنا چھوٹا کہ چارپائی سے اتر نہیں سکتا تھا۔ نانا جی بہت پرہیزگار آدمی تھے۔ ان کے کپڑے اور ان کا بستر ہمیشہ اجلے رہتے تھے۔ میں چارپائی سے اترنا چاہتا تھا مگر چارپائی بہت اونچی تھی۔ میں مثابے کا دباؤ برداشت کر نہیں پایا۔ نانا کا اجلا بستر گندا ہو گیا۔ ماں جی میری طرف لپکی۔ مجھے ڈانٹا۔ شاید ایک تھپڑ بھی مارا۔ میں پہلے ہی خوفزدہ تھا۔ میں نے رونا شروع کر دیا۔ نانا اسی وقت باہر نکلے۔ ماں جی کو ڈانٹا کہ اسے کیوں مارا۔ ماں نے کہا اس نے آپ کا بستر گندا کر دیا۔ نانا پاس آئے۔ مجھے اٹھانے کو جھکے۔ ماں جی چلائیں کہ اس کے کپڑے گیلے ہیں۔ نانا نے مگر مجھے گود میں اٹھایا۔ ماں جی طرف دیکھ کر کہا، اس کے گیلے کپڑوں سے نہ میرے کپڑے ناپاک ہوتے ہیں اور نہ میرا بستر۔ پھر نانا نے مجھے ماتھے پر چوما۔ محبت اسی بوسے کو کہتے ہیں۔

تم اس بچپن کے ناسٹلجیا سے نکل کر کچھ بڑے نہیں ہو سکتے؟
اچھا سنو۔ آپ ٹرین میں بیس گھنٹے سے بیٹھے ہیں۔ سورج ڈھلنے کے ساتھ ٹرین ایک ناماموس سٹیشن پر رکھتی ہے۔ ڈبے میں کچھ خواتین آ جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ لڑکی ہے۔ تھوڑی دیر بعد آپ کو احساس ہو تا کہ وہ آپ کو دیکھے چلی جا رہی ہے۔ چوری چھپے دیکھنے کا یہ سلسلہ بس دو گھنٹے ہی چلتا ہے۔ ٹرین رکتی ہے۔ خواتین اتر جاتی ہیں۔ پانچ منٹ بعد ٹرین سرکنا شروع کرتی ہے۔ آپ کھڑکی سے باہر جھانکتے ہیں کہ شاید وہ آخری بار نظر آجائے۔ دفعتاً آپ دیکھتے ہیں وہ بالکل کھڑکی کے ساتھ چل رہی ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک تھیلی ہے۔ وہ تھیلی آپ کو پکڑاتی ہے۔ ٹرین رفتار پکڑ لیتی ہے۔ آپ دھڑکتے دل سے تھیلی کھولتے ہیں۔ اس تھیلی میں باسی پکوڑے ہیں۔ محبت ان باسی پکوڑوں کو کہتے ہیں۔

کیا مستقبل میں بھی کسی محبت کا امکان ہے یا باسی پکوڑوں تک محدود ہے؟ کیوں نہیں ہے۔ کیا؟ ادھر پاس گلمت ہے۔ میں سوچتا ہوں وہاں ایک چھوٹا سا گھر ہو گا۔ دسمبر میں جب برف پڑے گی ہم اپنی چھت سے برف اتاریں گے۔ تمہارے ہاتھ سردی جمنے والے ہوں گے۔ میں سوکھی لکڑیاں جلا کر آگ تازہ کروں گا۔ تم اپنے ہاتھوں کو سیکنا، تب تک میں گرم کافی بناؤں گا۔ تمہارے سامنے پڑے ہوئے کپ سے بھاپ اٹھے گی۔ بھاپ میں ایک مہک ہو گی۔ اسی مہک کو محبت کہتے ہیں۔ اور؟ بہار آئے گی تو ہمارے صحن میں لگے چیری کے درختوں پر پھول اگیں گے۔ ان پھولوں کے سائے میں بیٹھ کر ہم خواب دیکھا کریں گے۔ انہیں خوابوں میں محبت کی۔ فون کی گھنٹی بجی۔ معلوم ہوا کہ ہمیں واپس جانا ہے۔

ہم چلاس سے گزر آئے تو اس نے کہا، لو آگئی تمہاری جنت۔ اب کل سے پھر جت جانا۔ تمہیں اب پارلیمنٹ کی بالادستی رکھنی ہے۔ تمہیں فوج کو اقتدار سے باہر رکھنا ہے۔ تمہیں بلا امتیاز احتساب چاہیے۔ تمہیں ووٹ کا تقدس بحال رکھنا ہے۔ تمہیں اقلیتوں کے حقوق کی جنگ لڑنی ہے۔ تمہیں انقلاب برپا کرنا ہے۔ یہ معمول کی باتیں تھیں۔ اس کا مکالمہ ہمیشہ سے یہی ہوتا تھا۔ مجھے ہمیشہ کی طرح خاموش رہنا تھا۔

ہم داسو میں داخل ہوئے۔ میں نے کہا، تمہیں ہمیشہ دعوی رہا ہے تم انسانوں کے چہرے پڑھ لیتی ہو؟ دعوی تو نہیں رہا۔ نفسیات دان ہوں۔ تھوڑا بہت اندازہ لگا لیتی ہوں۔ ٹھیک ہے۔ تم داسو میں انسانوں کے چہروں پر غور کرو۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ تلاش کرو۔ ہم داسو سے نکل آئے۔ سینکڑوں انسانوں میں سے غالباً اس نے تین چار لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی تھی۔

ایبٹ آباد کے بعد ہم سڑک کنارے ایک ویران مسجد کے پاس رک گئے۔ مسجد کے دروازے پر تالا لگا تھا۔ اس نے صحن میں نماز پڑھی۔ اس کی عادت تھی۔ سفر کے آغاز اور سفر کے اختتام پر اسے دو رکعت نماز پڑھنی تھی۔ میں اسے مذاقاً نورانی قاعدہ کہا کرتا تھا۔ اس نے میرا نام انقلابی رکھ چھوڑا تھا۔ گاڑی بیٹھتے ہی اس نے کہا چلو انقلابی۔ میری بس ہو گئی تھی۔ میں نے کہا، مجھے کوئی انقلاب نہیں لانا۔ مشترکہ انسانی دانش نے طے کر دیا ہے کہ ایک بہتر سماج کو کیسے ہونا چاہیے۔ میں بس اس بہتر سماج کی جستجو میں ہوں۔ ’میں عورت ہوں‘ یہ پہچان کا جملہ ہے۔ ’میں ہندو ہوں‘ یہ پہچان کا جملہ ہے۔ ’میں تو عورت ہوں نا‘ یا ’ میں تو ہندو ہوں نا‘ ان جملوں مجھے بے بسی نظر آتی ہے۔ مجھے صرف ان جملوں سے ’تو‘ کو کھرچنا ہے۔ اس ویرانے میں سڑک کے کنارے خدا کے گھر کو اگر اس خوف سے تالا لگا ہے کہ کوئی نمازی یہاں سے دری لوٹا نہ چرا لے تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرے ارد گرد بہت کچھ غلط ہے۔ مجھے اس غلط ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ جس سماج میں ایک انسان کا قتل اس لئے کیا جائے کہ وہ آپ کی زبان نہیں بولتا یا وہ آپ کا ہم عقیدہ نہیں تو اس سماج میں کچھ تو غلط ہے نا؟

پنڈی تک ایک گہری خاموشی رہی۔ اترنے سے پہلے اس نے پوچھا، اور وہ خوابوں میں محبت؟ کچھ تو کہنا تھا، یہی کہہ پایا کہ وہاں اشکومن محبتوں کی گٹھڑی پڑی ہے۔ جس میں خنک ہوا جھونکے ہیں۔ خودرو پھولوں کے رنگ ہیں۔ چندبچوں کی ہنسی ہے۔ بابا کی لاٹھی کا لمس ہے۔ نانا کا بوسہ ہے۔ باسی پکوڑے ہیں۔ کافی کی مہک ہے اور ایک بھکشو کے چہرے پر دیوالی کے جھلملاتے چراغ ہیں۔ ہم پھر جائیں گے اشکومن کنارے۔ اسے کھولے گے۔ اس میں کچھ نئی آرزوئیں باندھیں گے۔ اس نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور جملہ اچھالا، اور تب تک انقلاب لائیں گے؟ نہیں۔ تم نے دیکھا تھا نا کہ انسانوں کے چہرے مسکراہٹ سے خالی تھے۔ تب تک کیوں نا انسانوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے کی کوئی سبیل کرتے رہیں۔

 

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah